زندگی کے بارے میں ہر دور کے بڑوں نے خدا جانے کیا کیا کہا ہے؟ سوچنے کی عادت کو پروان چڑھا کر دنیا کو دانش کے موتی دان کرنے والوں نے ہمیشہ اس نکتے پر زور دیا ہے کہ ہر انسان کو اپنے حصے کی ہر سانس کی قدر کرنی چاہیے اور روئے ارض پر اپنا وقت اِس طور بروئے کار لانا چاہیے کہ جب وہ رختِ سفر باندھ کر یہاں سے رخصت ہو تو لوگ تادیر یاد رکھیں۔ بات ایسی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ جسے بھی اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ‘اُسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ جب کچھ نہ کچھ کرنا ٹھہرا تو کیوں نہ کچھ ایسا کیا جائے کہ لوگوں کو یاد رہ جائے؟ بات تو جب ہے کہ بات بن جائے۔ اور ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اس دنیا میں بھیجے جانے کا مفہوم و مقصود سمجھیں۔
اہلِ دانش کی نظر میں زندگی کسی بھی اعتبار سے ایسی گئی گزری حقیقت نہیں کہ فضول باتوں اور کاموں میں ضائع کردی جائے۔ جس نے بھی زندگی کے بارے میں زیادہ غور کیا ہے اُس نے یہی کہا ہے کہ ہمیں روئے ارض پر صرف کرنے کے لیے بخشی جانے والی ہر سانس کو سوچ سمجھ کر بروئے کار لانی چاہیے۔ ہمارے لیے جو کچھ بھی ہے وہ وقت ہے۔ ہم جتنی دیر اس دنیا میں رہتے ہیں وہ مدت ہی ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ باقی ساری باتیں تو محض افسانہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ زندگی ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی اور یک سُوئی کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمیں حواس کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے نصیب کی ہر ساعت سے کماحقہ استفادہ کرنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ ایسا کرنے کا ذہن بنائیں جو دوسروں کے لیے بھی مفید ہو۔
زندگی اول و آخر ہمارے لیے ہے۔ ہر انسان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے لیے کیا کرسکتا ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر وہ دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا ذہن بناسکتا ہے۔ کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ وقت کے اتھاہ ساگر سے ہمیں بخشی جانے والی میعادِ حیات اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنی قلیل ہے کہ ہم کسی بھی طور اِسے ضائع کرنے کی عیّاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے لیے اس بات کی گنجائش بالکل نہیں کہ صبح جب بیدار ہوں تو کسی بات کا بے جا دکھ اور پچھتاوا دل و دماغ کو گھیرے ہوئے ہو۔ اگر ہم اس کیفیت کو تواتر کے ساتھ واقع ہونے کی اجازت دیتے رہیں تو ڈھنگ سے جینے کے قابل کبھی نہ ہوسکیں گے۔ اس دنیا میں کوئی بھی معاملہ طے شدہ نہیں۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جن سے ہمیں کسی بھی حال میں کسی دکھ کے ملنے کا امکان دکھائی نہ دیتا ہو وہ ہمیں ایسا دکھ دے سکتے ہیں کہ ہم سنبھلنے سے انکار کردیں تو گِرے ہی رہیں گے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی ہماری اس طور مدد کرتا ہے کہ ہم سوچتے رہ جاتے ہیں‘ حیرانی کا گراف نیچے آنے کا نام نہیں لیتا۔
اگر کوئی ہم سے اچھی طرح ملتا ہے تو اچھی بات ہے۔ جو محبت کا اظہار کرے‘ اُس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی اچھا سلوک نہ کرے تو کوئی بات نہیں‘ اُسے معاف کردیجیے۔ دانش کے مطابق ‘بہترین حکمت ِ عملی تو یہی ہے۔ اگر ہم اچھا سلوک نہ ملنے پر ہر متعلق فرد کے خلاف جوابی اقدام کا سوچیں تو جی چکے۔ اور پھر یہ سوچ بھی تو ہماری مشکل آسان کرسکتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ اُس کی پشت پر کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ اور ہر سبب کو سمجھنا لازم نہیں۔ زندگی ڈھنگ سے اُسی وقت گزرتی ہے ‘جب ہم دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر معاملے میں متوازن رویہ اپناتے ہیں۔ متوازن رویہ اپنانے کا مطلب کسی بھی اعتبار سے بزدلی اختیار کرنا نہیں۔ کسی بھی معاملے میں ذہن کو متوازن رکھنا اُسی وقت ممکن ہے‘ جب ہم غیر ضروری جوش و خروش سے مغلوب نہ ہوں اور ہر مقام سے معقولیت کا دامن تھامے ہوئے گزریں۔ ہم مرتے دم تک بہت سے معاملات پر خوب غور کرتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی پہلوؤں پر متوجہ رہنا ناگزیر ہے ‘کیونکہ ان میں عدم توازن سے معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ زندگی بھر زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں‘ مگر خود زندگی کے حوالے سے مجموعی طور پر کچھ سوچنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ پوری زندگی کے تاثر سے متعلق سوچنا بھی لازم ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں زندگی کے اجتماع تاثر سے متعلق ہی سوچنا چاہیے۔
زندگی کو گنتی کی چند سانسوں کا معاملہ سمجھ کر غیر اہم گرداننے اور کسی نہ کسی طور جیے جانے کو مقدر سمجھنے کی بجائے ہمیں مکمل شعوری سطح پر اپنے پورے وجود کا جائزہ لینا چاہیے‘ تاکہ بہتر زندگی کے لیے کچھ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکے‘ منصوبہ سازی کی جاسکے۔ یہ نکتہ ہمہ وقت ذہن نشین رہے کہ زندگی گنتی کی چند سانسوں کا معاملہ نہیں۔ ہمیں جو سانسیں عطا کی گئی ہیں ‘اُن کی ایک حد مقرر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم زندگی کو اِسی قدر محدود سمجھ لیں۔ روئے ارض پر ہمیں جو میعادِ حیات بخشی گئی ہے وہ اتنی کم بھی نہیں کہ ہم کچھ کرنے کا عزم نہ کر پائیں۔ ویسے تو کسی دم کا بھروسا نہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ہمت ہار جائیں اور گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔
اہلِ دانش دُنیوی زندگی کے بارے میں بہت سی آراء رکھتے ہیں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ اس دنیا میں قیام عارضی ہے۔ ہمیں دوسری ‘یعنی اُخروی زندگی کے لیے بھرپور تیاری کرنے سے غرض رکھنی چاہیے۔ بہت سے دانشور اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ دنیا میں قیام چونکہ عارضی ہے‘ اس لیے دُنیوی امور میں بہت زیادہ منہمک ہونے اور غیر معمولی سطح پر جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ یہ انتہائی نوعیت کا نقطۂ نظر ہے۔ دنیا میں اپنے قیام کے دوران انسان کو غیر ضروری امور میں الجھنے سے گریز ضرور کرنا ہے‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زندگی بیزاری کے ساتھ بسر کی جائے‘ جو بیزاری کے ساتھ بسر کی جائے ‘وہ زندگی ہوتی ہی کب ہے!
جب تک سانسوں کا ربط برقرار ہے تب تک ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے مواقع ملتے ہی رہیں گے۔ یہ دنیا مختلف حوالوں سے پیدا ہونے والے مواقع سے بھری پڑی ہے۔ ہر اچھا موقع اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اُس سے مستفید ہوں اور اگر کوئی اچھا موقع ہمیں تبدیل کرنا چاہتا ہو تو اُسے ایسا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہاں کچھ بھی آسان نہیں۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سب کچھ بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے ‘وہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو قابلِ ذکر اور قابلِ رشک بنانے کے لیے ہمیں زندگی بھر محنت ِ شاقّہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہاں قدم قدم پر مسابقت ہے اور یہ مسابقت ہی زندگی کا اصل حسن ہے۔ جسے تادیر یاد رکھے جانے کی خواہش ہے‘ اُس پر غیر معمولی محنت بھی لازم ہے۔ کہنے کو جو ذرا سی زندگی ہے‘ اُسے بہت بڑا بنانے کی یہی ایک معقول صورت ہے۔ ذرا سی زندگی کو ہزار سال تک یاد رکھے جانے کے قابل وہی بنا پاتے ہیں ‘جو مثبت سوچ کے ساتھ اپنے وجود کو بروئے کار لانے پر یقین رکھتے ہیں۔