آپ کو اچھا کون لگتا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے‘ کیونکہ اس کے جواب ہی سے آپ کی ترجیحات کا تعین ہوگا اور یہ بھی اندازہ لگایا جاسکے گا کہ حتمی تجزیے میں آپ کیا بننا اور کیا کہلانا پسند کریں گے۔ ممکنہ طور پر آپ کا جواب یہ ہوگا کہ آپ کو اچھے لوگ پسند ہیں۔ ٹھیک ہے‘ مگر یہ تو خاصا سادہ جواب ہوا۔ بات کھل کر ہونی چاہیے۔ اچھے لوگوں سے آپ کی مراد کیا ہے؟ محض باصلاحیت یا کچھ کرنے کا عزم بھی رکھنے والے؟ محض مالی اعتبار سے کامیاب یا مہذب و شائستہ بھی؟ آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے‘ جنہیں لوگ اچھا سمجھتے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن میں بہت سی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں اور بعض خرابیاں اُن کے پورے وجود پر چھائی رہتی ہیں۔ ایسے میں اُن کی اچھائیاں کہیں گم ہوکر رہ جاتی ہے یا دوسروں کا زیادہ بھلا نہیں ہونے دیتیں۔
یہ دنیا اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے بھری پڑی ہے۔ قدم قدم پر نعمتیں ہیں۔ تب ہی تو اللہ نے ہم سے مخاطب ہوکر پوچھا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔ نعمتیں اتنی ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو اُنہیں اَن دیکھا نہیں کرسکتے اور جھٹلا تو خیر سکتے ہی نہیں۔ اللہ کی نعمتوں میں انسان شامل ہے؟ یقینا۔ کائنات کے خالق و رب نے ہمیں وجود ہی نہیں بخشا‘ بلکہ اس دنیا میں ڈھنگ سے جینے کے لیے درکار نعمتیں بھی عطا کی ہیں۔ اور ان نعمتوں سے کماحقہ مستفید ہونے کی صلاحیت و سکت بھی بخشی ہے۔ یہ انسان ہی ہے‘ جس نے دنیا میں رونق میلہ لگا رکھا ہے۔ انسان کی مساعی نے دنیا کو خوبصورتی عطا کی ہے۔ کسی اور حیوان میں دنیا کو بدلنے کی صلاحیت و سکت ناپید ہے۔ انسان کے سوا تمام مخلوق محض اس لیے ہے کہ وجود پائے‘ انسان کے کام آئے اور چلی جائے۔ دنیا کو اپ گریڈ کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ‘یعنی اس پر دنیا کی اپ گریڈیشن فرض کی ہی نہیں گئی۔ اور انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر دنیا کو بہتر بنانا‘ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بہتری اور آسانی پیدا کرنا لازم کردیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ قیامت کے دن حساب کتاب انسان سے ہوگا‘ دیگر مخلوق سے نہیں یا ان سے پوچھ گچھ ہوگی بھی تو ایک خاص حد تک۔ صرف انسان سے ایک ایک سانس اور تمام افکار و اعمال کا حساب لیا جائے گا۔
ہر انسان پر بہت کچھ فرض کیا گیا ہے‘ تاہم اولیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے لیے بھی مفید ہوں اور دوسروں کے لیے بھی۔ دنیا کی ہر نعمت سے ہم کماحقہ اسی وقت مستفید ہوسکتے ہیں جب اپنے آپ سے اچھی طرح واقف ہوں‘ اپنی تمام صلاحیت و سکت کا علم رکھتے ہوں اور اُنہیں بروئے کار لانے کے عزم کے حامل بھی ہوں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ہم مثبت سوچ رکھتے ہوں ‘یعنی اپنے لیے بھی کچھ کرنا چاہتے ہوں اور دوسروں کے لیے بھی۔ زندگی بھر منفی سوچ کے دائرے میں گھومنے والے اپنے لیے کچھ کر پاتے ہیں ‘نہ دوسروں کے لیے۔ معاملہ اقرار و انکار میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہے۔ اگر کسی نے انکار کو چُن لیا ہے تو سمجھ لیجیے دروازے بند کرلیے۔ انکار کی سوچ رکھنے کا مطلب ہے‘ اپنے لیے کچھ کرنا نہ دوسروں کے لیے کچھ کرنے کے بارے میں سوچنا۔ انکاری فکر و رویہ رکھنے والے مرتے دم تک ایک چھوٹے سے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہونا تو دور کی بات رہی‘ اُن کے وجود کے مکمل اقرار کی توفیق بھی کم ہی مل پاتی ہے۔ منفی سوچ رکھنے والے عملی سطح پر اللہ کی نعمتوں کے منکر ہی تو ہوتے ہیں۔ منفی سوچ ابھرتی ہی اس وقت ہے جب انسان طے کرلے کہ ماحول سے اور ماحول میں پائے جانے والے لوگوں سے کچھ سیکھنا ہے نہ لینا ہے۔
اچھا انسان وہ ہے‘ جو اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کا اقرار ہی نہ کرتا ہو‘ بلکہ دنیا کو کچھ دینے پر بھی یقین رکھتا ہو۔ جب ہم اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں تو ایسا کچھ ضرور کرنا چاہتے ہیں‘ جس سے ان نعمتوں کا عملی سطح پر بھی شکر ادا ہو‘ یعنی دوسروں کو بھی ہم سے کچھ ملے۔ ہم زندگی بھر رابطے میں رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ چند ایک لوگ ایسے ہوتے ہیں ‘جو ہماری زندگی کا حصہ ہو رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ کی نعمت سمجھیے‘ جن سے ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے کچھ مل رہا ہو‘ وہ گویا اللہ کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی قدر و منزلت کا احساس لازم ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ہم صرف انہیں یاد کرکے کڑھتے رہتے ہیں ‘جنہوں نے ہمیں الجھنیں دی ہوں‘ پریشانی سے دوچار کیا ہو‘ نقصان پہنچایا ہو۔ ہمیں زیادہ ان کے بارے میں سوچنا ہے جن سے ہمیں کچھ ملا ہو‘ ہماری زندگی کسی حد تک اپ گریڈ ہوئی ہو۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ‘آپ کو بھی بدلنا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل شعوری سطح پر ہونا چاہیے‘ تاکہ کسی بھی بڑی غلطی یا کوتاہی کا احتمال نہ رہے۔ آپ کو اپنے اور دوسروں کے بارے میں سوچتے رہنا ہے۔ دوسروں کے بارے میں سوچنا اس لیے لازم ہے کہ آپ جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں اس کا اثر دوسروں پر بھی تو مرتب ہوتا ہی ہے۔ ایسے میں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں‘ توجہ اس نکتے پر مرکوز رہے کہ آپ اپنے لیے بھی زیادہ مفید ثابت ہوں اور دوسروں کے لیے بھی۔
بہت سے لوگ آپ کے لیے نعمت کا درجہ رکھتے ہیں‘ کیونکہ ان سے آپ کو کچھ مل رہا ہوتا ہے۔ جب وہ آپ کے لیے نعمت ہیں تو آپ کو بھی ان کے لیے نعمت بن کر دکھانا ہے۔ عقلِ سلیم کا تو یہی تقاضا ہے۔ آپ کو وہی لوگ پسند ہیں ‘جو اپنے ساتھ ساتھ آپ کا اور دوسروں کا بھی بھلا چاہتے اور کرتے ہوں۔ تو پھر آپ کو بھی ایسا بننا ہے ‘جس کے نتیجے میں دوسروں کو بھی کچھ ملے‘ ان کے لیے بھی کچھ راحت کا سامان ہو۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ جب میں اللہ کی طرف سے عطا کی جانے والی اُن نعمتوں کو گنتا ہوں جو مجھے میسر ہیں تو میں آپ کو دو بار شمار کرتا ہوں! ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی بہت کام کا ہو۔ بہت کام کا ہونے کا تعلق محض مادّی یا مالی پہلو سے نہیں۔ ہر انسان کو پورے شعور کے ساتھ جینا ہے ‘تاکہ اپنی زندگی کا معیار بھی بلند کرے اور دوسروں کے لیے بھی کسی حد تک بہتری کا سامان کرے۔
یہ بات آپ کے مشاہدے میں بھی ہوگی کہ لوگ اُن کی خوب قدر کرتے ہیں‘ جو صرف اپنا بھلا نہیں سوچتے ‘بلکہ دنیا کو بھی کچھ دیتے ہیں۔ اگر سب اپنا ہی بھلا سوچیں تو دنیا کا نظام ٹھپ ہوکر رہ جائے۔ آپ کے لیے بھی زندگی بسر کرنے کا معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی اپ گریڈیشن کا اہتمام کیجیے۔ آپ کو نعمتوں سے کماحقہ مستفید ہوتے ہوئے نعمت میں تبدیل ہونا ہے۔ جب ایسا ہوگا تب ہی تو کوئی آپ کو بھی اللہ کی نعمتوں کے شمار میں دو بار گنے گا! اللہ سے وہ دانش مانگیے‘ جس کی مدد سے آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا چاہیں اور زندگی یوں گزرے کہ لوگ آپ کو اللہ کی نعمتوں میں شمار کرتے ہوئے آپ کا ساتھ پانے پر اللہ کے احسان مند ہوں۔