"MIK" (space) message & send to 7575

آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا؟

چار پانچ صدیوں کے دوران جو بھرپور مادّی ترقی ہوئی ہے وہ بہت حد تک مغرب کی صلاحیتوں اور اُن صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے متعلق کی جانے والی مثالی محنت کی مرہونِ منت ہے۔ مغرب نے بہت کچھ ثابت کیا ہے مثلاً یہ کہ اگر دنیا کو تبدیل کرنے کی ٹھان لی جائے تو ایسا کر پانا ممکن ہے۔ مغرب نے خالص مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر کو زندگی کی بنیاد بناتے ہوئے آگے بڑھے کا سوچا اور پھر اس سوچ پر اس قدر جوش و خروش کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ گئی۔ کم و بیش تین صدیوں سے پوری دنیا کے لیے ترقی اور جدت کی واضح ترین مثال اگر کوئی ہے تو صرف یورپ اور امریکا یعنی مغرب۔ یہ قائدانہ حیثیت مغرب کی مجموعی سوچ میں خطرناک نوعیت کی تبدیلیوں کی راہ بھی ہموار کرتی آئی ہے۔ 
غیر معمولی کامیابی غیر معمولی نوعیت کے تکبّر کو بھی جنم دیتی ہے۔ خالص مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر سے کی جانے والی ترقی اصلاً ترقی ہوتے ہوئے بھی ترقیٔ معکوس ہی ثابت ہوا کرتی ہے۔ محل تعمیر کرنا اچھی بات ہے۔ ایسی کوئی بھی خواہش اپنے آپ میں قابلِ مذمت نہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس خواہش کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔ کوئی اگر اپنا محل کسی کی قبر پر تعمیر کرے تو دنیا معترض ہوگی۔ یہ تو طے ہے کہ جب مقابلہ ہوگا تو کوئی ایک کھلاڑی یا فریق جیتے گا۔ یہ بالکل فطری امر ہے مگر اپنی تعمیر کے لیے لازمی طور پر کسی کی تخریب کا آرزومند یا طلب گار ہونا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔
مغرب نے فطری علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت پیدا کرکے ایک دنیا کو حیرت زدہ رکھا ہے۔ بہت سے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت دیکھ کر اب بھی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ڈھائی تین صدیوں کے دوران وہ سب کچھ ایجاد کیا جاچکا ہے جو اب تک سوچا گیا تھا۔ اب مزید ایجادات کی گنجائش کچھ خاص رہی نہیں۔ ہاں، اختراعات کا بازار گرم ہے۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ غیر معمولی مادّی ترقی نے مغرب کے ذہن کو انتہائی پیچیدہ کردیا ہے۔ یہ تصور محض ابھرا نہیں بلکہ پروان چڑھ چکا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ مغرب کے دم سے ہے۔ فرانسس فوکو یاما نے ''دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین‘‘ لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سیاسی و معاشرتی اعتبار سے انسان کا فکری سفر اب ختم ہوچکا ہے یعنی جو کچھ بھی مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے وہی حتمی اور قطعی ہے۔ یعنی یہ کہ ذہن کا مزید ارتقا ممکن نہیں۔ 
خالص دنیا پرستی نے مغربی ذہن کو یہ سکھایا ہے کہ جو کچھ ہے وہی زندگی ہے۔ اور یہ کہ اس دنیا کے بعد کچھ بھی نہیں۔ جب یہ سوچ پروان چڑھ جائے تو آخرت کا تصور ذہن سے یکسر مٹ جاتا ہے۔ دوبارہ زندہ کرکے حساب کتاب کے لیے طلب کیے جانے کا تصور انسان کو اخلاق اور کردار کے اعتبار سے درست رکھنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ جب آخرت کا تصور ہی باقی نہ رہے تو انسان اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اس سے بھرپور تمتّع کا ذہن بناتا ہے اور جو سوچتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ ایسے میں اخلاقی اقدار ایک کونے میں پڑی رہ جاتی ہیں۔ معیشت کی خرابی معاشرتی زوال کا بھی سبب بنتی ہے۔ اہلِ مغرب نے دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہوئے آخرت کا خیال ذہن سے جھٹک دیا ہے۔ یہ روش مغربی معاشروں کو اخلاقی تباہی کے دہانے تک لے آئی ہے۔ ناپ تول کا پورا خیال رکھنا، جھوٹ نہ بولنا، وقت کا پابند ہونا، اپنے حصے کا کام پوری دیانت سے کرنا اور کسی ٹھوس جواز کے بغیر دوسروں کو تکلیف نہ دینا مغربی معاشرے کے نمایاں اوصاف ہیں۔ یہ تو محض ایک پہلو ہے۔ اس حوالے سے فقیدالمثال کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب نے گھر اور کنبہ کھودیا ہے۔ بے لگام جنسی رویے کو زندگی کی بنیادی قدر کا درجہ دیئے جانے سے یہ ہوا ہے کہ شادی جیسا ادارہ ختم ہوچکا ہے اور شادی کے بغیر اختیار کیے جانے والے مستقل نوعیت کے اختلاط و سکونت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب شرمناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ 
عملی زندگی میں دیانت مغربی معاشرے کا ایسا سِکّہ ہے جس کا دوسرا رخ انتہائی شرمناک ہے۔ مغربی معاشروں میں انصاف پسندی کچھ اس انداز کی ہے کہ باقی دنیا مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ اس سِکّے کا دوسرا پہلو انتہائی شرمناک ہے۔ اپنے معاشروں میں ایک ایک شہری کے آرام کا خیال رکھنے والے مغرب نے باقی دنیا کو قبرستان میں تبدیل کرکے اُس پر اپنا محل کھڑا کیا ہے۔ افریقہ اس کی واضح ترین مثال ہے جسے اہلِ مغرب نے کئی صدیوں سے ابھرنے ہی نہیں دیا۔ اب چین نے کچھ کوشش کی ہے تو اُسے غاصب قوت قرار دے کر افریقی اقوام کو ڈرایا جارہا ہے! نیا طریقِ واردات یہ ہے کہ ایسا مالیاتی اور معاشی نظام چلایا جائے جس میں سارا فائدہ صرف مغرب کا ہو اور نقصان اگر ہو تو صرف دیگر خطوں اور اقوام کا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی اقوام نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے والا عالمی نظام تیار کیا۔ اس کے نتیجے میں ساری دنیا کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوگئی۔ یہ ہاتھ مغرب کے تھے۔ مغربی معاشرے عوام کے لیے بنیادی سہولتوں کے حوالے انتہائی قابلِ رشک دکھائی دیتے ہیں اور وہ ایسے ہیں بھی مگر مغرب نے اپنی نام نہاد جنت باقی دنیا کو جہنّم کے سے حالات سے دوچار کرکے قائم کی ہے۔ 
جب سے چین نے مضبوط ہوکر چند دوسرے ممالک کو ساتھ ملاتے ہوئے (مغرب کے مقابل) نیا بلاک بنانے کی سمت سفر شروع کیا ہے، مغرب کی بدحواسی بڑھتی گئی ہے۔ چین کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جارہے ہیں۔ تجارت کے اکھاڑے میں اُسے پچھاڑنا ممکن نہیں ہو پارہا تو انسانی حقوق اور ماحول کا راگ الاپ کر بات بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کورونا وائرس نے چین میں قیامت ڈھائی اور اس کے بعد باقی دنیا کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے کہ چین کے معاملے میں کوئی گڑبڑ کی گئی ہے۔ کوشش تو بظاہر یہ کی گئی تھی کہ صرف چین کو نقصان پہنچے اور وہ برباد ہو مگر آگ جب پھیلتی ہے تو کسی میں کوئی فرق کب کرتی ہے۔ ؎ 
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو 
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں 
یورپ اور شمالی امریکا شدید بحران کی زد میں ہے۔ سٹاک مارکیٹس بیٹھ گئی ہیں۔ چین سے بھی زیادہ ہلاکتوں کے بعد اٹلی پورا بند کیا جاچکا ہے۔ جرمن اینگلا چانسلر مرکل کہہ چکی ہیں کہ جرمنی میں دو تہائی سے زائد افراد کورونا وائرس کی زد میں آسکتے ہیں۔ بھارت جیسے گنجان آباد ملک کو بھی لاک ڈاؤن کرنا پڑاہے۔ امریکی تاریخ کے غیر سنجیدہ ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر قوم کے سر پر شدید بدحواسی پیدا کرنے والا ہتھوڑا مارا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا صرف امریکا میں دو لاکھ جانیں لے سکتی ہے! یہ تمام حقائق کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ کہ دوسروں کے گھروں کو آگ لگانے والوں کے اپنے گھر بھی جل جاتے ہیں۔ چین یا کسی اور ابھرتے ہوئے ملک کو دبوچنے اور ڈبونے کی کوشش کے دوران کوئی بڑی غلطی مغربی معاشروں کو بھی تباہی کے گڑھے میں دھکیل سکتی ہے۔ مغرب نے باقی دنیا کے لیے جو گڑھے کھودے ہیں اُن میں سے کسی میں وہ خود بھی گر سکتا ہے۔ کورونا وائرس نے ثابت کردیا ہے کہ دوسروں کو جلانے کی خواہش پر عمل کی صورت میں اپنا دامن بھی جل سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں