"MIK" (space) message & send to 7575

کنزیومر اِزم کا اندھا کنواں

پاکستانی معاشرے کی بہت سی خصوصیات ایسی ہیں‘ جو دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہم خاصے جی دار قسم کے واقع ہوئے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں کبھی اتنے خوفزدہ نہیں ہوتے کہ جینا حرام ہو جائے‘ جن معاملات سے دنیا سہم کر پیچھے ہٹ جاتی ہے ‘ہم ایسے تمام معاملات کو جُوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ جی داری کسی کسی میں ہوتی ہے ‘یعنی چند ایک ممالک ہی میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کو کساد بازاری سے ڈر لگتا ہے۔ ہمارے ہاں کساد بازاری نہیں آتی۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ ہم کساد بازاری کو راہ دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں جب معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے یا اُس کے گھومنے کی رفتار کم ہونے لگتی ہے‘ تب بھی ہم ہاتھ نہیں روکتے۔ جی ہاں‘ ہاتھ نہیں روکتے۔ خطے کے ممالک ہی کو دیکھیے تو فرق واضح ہو جاتا ہے۔ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال میں عمومی رجحان کم خرچ کرنے کا ہے۔ بھارت میں تو معاملہ کنجوسی کے زُمرے میں داخل ہوچکا ۔ بُخل اب محض عادت نہیں رہا‘ بلکہ مزاج کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ بھارت جیسا ہی عمومی مزاج بنگلہ دیش کا بھی ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ جب پالیسیاں نئی دہلی سے آتی ہیں ‘تو عمومی مزاج بھی وہیں سے آنا چاہیے۔ 
دنیا بھر میں عمومی مزاج یہ ہے کہ خوب کمائیے اور خرچ کرکے زندگی کا معیار بلند کیجیے‘ اگر زندگی کا معیار بلند کرنا ممکن نہ ہو تب بھی لوگ اُسے برقرار رکھنے کو تو ترجیح دیتے ہی ہیں۔ معیاری زندگی بسر کرنے کیلئے لازم ہے کہ جو کچھ کمائیں اُس کا بڑا حصہ خرچ بھی کریں۔ محض کماتے رہنا کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ جو کچھ ہم کماتے ہیں ‘وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے ہونا چاہیے‘ اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو پائے تو پھر زیادہ محنت کرنے یا دن رات ایک کرکے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔ جب باقی دنیا شدید معاشی الجھنوں سے دوچار ہو رہی ہوتی ہے‘ تب بھی پاکستان مزے سے چل رہا ہوتا ہے۔ اس کا ایک انتہائی بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ محض کمانے پر نہیں‘ بلکہ خرچ کرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اب کمانے سے زیادہ خرچ کرنے پر یقین بڑھ گیا ہے۔ قوم کا عمومی رجحان یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہاتھ میں ہے‘ وہ خرچ کرکے زندگی کو آسان بنایا جائے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ کماتے جاتے ہیں اور خرچ کرتے جاتے ہیں۔ بچت کا رجحان برائے نام ہے۔ بچت نہیں کی جاتی تو اس کا ایک سبب تو رجحان کا نہ ہونا ہے اور دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ کئی عشروں سے افراطِ زر کی شرح ایسی رہی ہے کہ لوگ اپنی کمائی کی قدر کے گھٹتے چلے جانے سے پریشان ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سب کو تحریک دیتی ہے کہ جو کچھ کمائیں ‘وہ اگر سب کا سب نہیں تو اُس کا بڑا حصہ تیزی سے خرچ کردیں۔ آمدنی کا کچھ حصہ بچاکر گھر میں رکھنے والے عموماً خسارے سے دوچار پائے گئے ہیں۔ 
کمائی کو خرچ کرکے آسانی کا اہتمام کرنا کچھ غلط نہیں۔ ہاں‘ توازن ضرور درکار ہے۔ توازن کے بغیر تو کوئی بھی معاملہ درست نہیں رہتا۔ یہی حال ہمارے ہاں کمانے اور خرچ کرنے کے معاملے کا ہے۔ صَرف کا رجحان چند عشروں کے دوران اِس قدر پروان چڑھا ہے کہ لوگ کم و بیش ایک ماہ کے اُدھار پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حکومتیں اخراجات متعین کرکے آمدن کا اہتمام کرتی ہیں۔ انفرادی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ جب تنخواہ یا اُجرت ملتی ہے‘ تب خرچ کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں البتہ معاملہ یہ ہے کہ لوگ تنخواہ یا اُجرت ملنے سے پہلے ہی محض طے نہیں کرتے کہ کہاں کہاں خرچ کرنا ہے‘ بلکہ خرچ کر بھی ڈالتے ہیں۔ یہ بالکل عام سی بات ہے کہ تنخواہ بیس تاریخ تک ختم ہو جاتی ہے۔ اب ‘باقی دس بارہ دن اُدھار پر گزارا ہوتا ہے۔ اور تنخواہ آتے ہی اُدھار چُکتا کردیا جاتا ہے اور بیس تاریخ تک پھر سب کچھ ختم۔ یہ منحوس چَکّر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ 
اہلِ وطن کے مزاج میں صَرف کا رجحان کبھی کم یا کمزور نہیں رہا‘ مگر ڈیڑھ دو عشروں کے دوران میڈیا بُوم نے اسے نقطۂ عروج تک پہنچادیا ہے۔ اب‘ حال یہ ہے کہ لوگ کمانے سے کہیں بڑھ کر خرچ کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ مواصلات کے شعبے کی ٹیکنالوجیز نے عام پاکستانی کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دی ہے۔ ایک تحریک تو اس نسبت سے ہے کہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے اور جو کچھ بھی ہاتھ میں ہے وہ خرچ کرکے لمحۂ موجود سے بھرپور حِظ اٹھایا جائے۔ 
دوسری طرف آج کا پاکستان ایک ایسے رجحان کی زد میں ہے‘ جس کے تحت بھرپور زندگی بسر کرنے کا تو سوچا جاتا ہے‘ معقولیت سے کام لینے کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ اس رجحان کو کنزیومر ازم کہا جاتا ہے۔ کنزیومر ازم کا صرف ایک پہلو درست ہے ... یہ کہ لوگ زیادہ خرچ کرتے ہیں اور معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ معیشت کے پہیے کا گھومتے رہنا بہت اچھی بات سہی ‘مگر مشکل یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت دانش سے کام لینے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ اس کے نتیجے میں معاملات الجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ کنزیومر ازم اُس وقت پروان چڑھتا ہے ‘جب لوگ اشیا و خدمات سے خوب استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت کسی کام کا ثابت ہوتا ہے جب دانش کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ جو کچھ بھی خرچ کیا جارہا ہے‘ اُس کا بھرپور نعم البدل ملنا چاہیے۔ اندھا دُھند خرچ کرتے چلے جانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ گھر میں اشیائے صَرف کا ڈھیر لگانے سے زندگی کا معیارِ بلند نہیں ہوتا۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جو کچھ بھی خریدا جائے‘ اُسے کماحقہ استعمال بھی کیا جائے ‘تاکہ زندگی آسان ہو۔ آج کا پاکستان کنزیومر ازم کے اندھے کنویں میں گِرا ہوا ہے۔ اس کنویں سے نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ خوب خرچ کرنے میں کچھ قباحت نہیں ‘اگر یہ عمل معقول ہو۔ بہت سی اشیا و خدمات خریدنے کا مقصد اُس وقت فوت ہو جاتا ہے‘ جب ہم اُن سے استفادہ نہیں کر پاتے اور ہاں‘ آمدن بڑھانے پر متوجہ ہوئے بغیر خرچ کرتے چلے جانا کون سے درجے کی دانش مندی ہے؟
سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنے کا رجحان ہمارے قومی وجود کی جڑ کاٹ رہا ہے۔ عقل کو تج دیا گیا ہے۔ یہ پورا عمل بے عقلی سے عبارت ہے۔ لوگ جیسے تیسے کما رہے ہیں اور اندھا دُھند خرچ کر رہے ہیں۔ اس پورے معاملے میں معقولیت کا خیال رکھا جانا ناگزیر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں