عید سے تین دن قبل رشید آباد (تحصیل لیاقت پور‘ ضلع رحیم یار خان) سے ایک دوست نے یاد کیا۔ اُن کا یاد کرنا بلا سبب نہیں ہوتا۔ فون کال کے ذریعے وہ یا تو کالم پر رائے دیتے ہیں یا پھر کہیں سے سُنی یا پڑھی ہوئی کوئی اچھی بات ہم تک پہنچاتے ہیں۔ اب کے معاملہ کچھ مختلف تھا۔ موصوف نے گھر کی ایک ایسی بات بتائی کہ ہم بھی حیران رہ گئے۔عید کی شاپنگ کے دن چل رہے تھے۔ عامر خان عباسی نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ نے کمال کردیا۔ ہم نے زیادہ حیران ہوئے بغیر پوچھا ذرا کھل کر بتائیے کہ ہوا کیا ہے ‘کیونکہ بیگمات عام پر کمال ہی کیا کرتی ہیں! یا پھر یوں ہے کہ اللہ نے اُنہیں ایسا ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتی ہیں اُسے ہم کمال سمجھ کر حیران ہو لیتے ہیں! خیر‘ دوست نے بتایا کہ ''تبدیلی‘‘ آگئی ہے۔ یہ بات بھی ہمارے لیے زیادہ حیرت انگیز نہیں تھی ‘کیونکہ اب ملک میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے ‘جسے دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ تبدیلی آ ہی چکی ہے۔ اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کس تبدیلی کو روئیں۔ پی ٹی آئی والوں نے خالص مجرد انداز سے تبدیلی کی بات کی تھی۔ یہ صراحت نہیں کی تھی کہ تبدیلی لازمی طور پر مثبت ہوگی۔ ہم نے اپنے دوست سے صراحت چاہی تو بتایا گیا کہ اس بار عید کی شاپنگ کے دوران ان کی اہلیہ نے انہیں نظر انداز نہیں کیا اور پشاوری چپّل لائی ہیں! خواتین عید کی شاپنگ کے لیے جائیں اور شوہر کے لیے کچھ لے آئیں‘ یہ تو واقعی حیرت میں مبتلا ہونے کا مقام ہے! عید کی شاپنگ کے دوران خواتین کو اپنی ضرورت کی تمام چیزیں اچھی طرح یاد نہیں رہتیں۔ ایسے میں شوہر اور اُس کے لیے کچھ لانا بھی یاد رہ جائے تو اسے انوکھا واقعہ سمجھیے!
میرے دوست‘ پشاوری چپل کے بارے میں بتاتے ہوئے قدرے خوش تھے‘ اُن کے نزدیک یہ عید کا تحفہ تھا۔ ازواجی زندگی خوش گوار بنانے کے لیے یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ شوہر کا بیوی کے لیے کچھ لانا یا بیوی کا شوہر کے لیے کچھ لانا حیرت انگیز مسرت یقینی بناتا ہے۔ شاپنگ سینٹرز میں اشیا کی ورائٹی دیکھ کر کسی کو کسی اور کے لیے کچھ خریدنا یاد نہیں رہتا۔ ایسے میں اگر کسی اور کا مفاد یاد رہ جائے تو بڑی بات ہے۔ میرے دوست بھی شاید اس لیے خوش تھے کہ عید کے حوالے سے اپنی اور بچوں کی خریداری کے وقت اہلیہ نے انہیں یاد رکھا۔ ایسے مواقع پر بیگمات کو بالعموم اتنا یاد رہتا ہے کہ شوہر اے ٹی ایم کا کردار ادا کرنے کیلئے آس پاس رہنے چاہئیں! شوہر‘ اگر نزدیک ہو اور اُس کی جیب بھری ہوئی ہو تو وہ بیوی کے لیے کیا ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے اس شعر سے مدد لیجیے ؎
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جُھکائی‘ دیکھ لی
یعنی بیگم صاحبہ جیسے ہی کوئی سَودا مُکائیں‘ شوہر قریب ہونا چاہیے‘ تاکہ قیمت بروقت ادا کی جاسکے۔ہم نے اپنے دوست کو راز کی بات بتانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی‘ کیونکہ شادی شدہ ہونے کے ناتے ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ پشاوری چپل کا تحفہ پاکر غیر معمولی مسرّت محسوس کرنے والے دوست کو ہم نے سمجھایا کہ چپل کی جوڑی کو خطرے کی گھنٹی سمجھو۔ میرے دوست بہت حیران ہوئے‘ چپل کی جوڑی اور خطرے کی گھنٹی؟ بات اُن کے حلق سے اتری نہیں۔ جب ہم نے دیکھا کہ ہمارا بیان کردہ نکتۂ جاں فزا ان کے حلق میں اٹک گیا ہے تو ہم نے ازراہِ کرم تصریح کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ جب بیگمات کچھ دلاتی ہیں تو یہ گویا مزید کسی خرچے کی تمہید ہوتی ہے! اس اعتبار سے چپل کی جوڑی کو جوڑا اور خطرے کی گھنٹی کو گھنٹا سمجھ کر ہوشیار‘ خبردار رہو!
میرے دوست بھولے بادشاہ ہیں۔ بہت کچھ سمجھ کر بھی وہ مصلحتاً نہیں سمجھتے! ہم نے اُنہیں سمجھایا کہ خواتین کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کون سی چیزیں پاکر شوہر بہت خوش ہوتے ہیں۔ وہ ایسی تمام چیزیں گھر لاکر شوہر کا دل خوش کردیتی ہیں اور جب ''اے ٹی ایم‘‘ خوش ہو جائے تو مزید شاپنگ کا مرحلہ آسان ہو جاتا ہے!میری بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی یا کم از کم تاثر تو یہی دیا‘ اس لیے اسے درست تسلیم کرنے پر وہ فی الفور آمادہ نہ ہوئے۔ ہم بھی کہاں ہار ماننے والے تھے؟ ہم نے اُنہیں یاد دلایا کہ ''اے ٹی ایم‘‘ کو خوش کرنے کے معاملے میں خواتین وہی طریقہ اختیار کرتی ہیں ‘جو سُوکھے پڑے ہوئے ہینڈ پمپ کو رواں کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے‘ اگر ہینڈ پمپ چلانے پر پانی نہ نکل رہا ہو تو اُسے رواں کرنے اور بارآور بنانے کے لیے جگ میں پانی لیکر ہینڈ پمپ کے پائپ میں ڈالا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے پانی کِھنچ کر آنے لگتا ہے۔ شوہر کی تھوڑی سی کمائی اُسی کی پسند کی کوئی چیز خریدنے پر خرچ کرنے سے مزید خریداری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ شادی شدہ خواتین بھی اسی طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے شوہر سے جیب مزید ڈھیلی کراتی ہیں۔ اپنی پسند کی چیز پاکر خوش ہونے والے شوہر خوشی خوشی اپنی جیب کو مزید ویران کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ میرے سمجھانے پر بھی میرے دوست بیان کردہ نکتے کو درست ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ شریف آدمی کی بھی کیا کیا مجبوریاں ہوتی ہیں؟ اگر وہ کسی نکتے کو درست مان لے تب بھی سب کے سامنے اقرار کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں یہ بات آگئی ہو کہ ہماری بات مان کر وہ گھر والی سے کیوں بگاڑ مول لیں۔ ہم کون سے اُن کے قرب و جوار میں آباد ہیں۔ ہم کراچی میں ہیں ‘یعنی اُن کے گھر سے کم و بیش 760 کلو میٹر دُور اور اُنہیں تو وہیں‘ اہلیہ کے ساتھ گھر میں رہنا ہے‘ اگر گھر میں بات بگڑ گئی تو ہم معاملات درست کرنے پہنچ بھی نہیں سکیں گے ‘کیونکہ بین الصوبائی سفر پر پابندی عائد ہے! ایسے میں دانش کا تقاضا تو یہی ہے کہ کسی دور افتادہ شخص کی بات پر دھیان دینے کی بجائے گھریلو ماحول کو خرابی سے بچانے پر متوجہ ہوا جائے۔خیرمیرے دوست‘ اگر متفق نہیں ہوئے تو کیا جائے غم ہے؟ ایسا کوئی پہلی بار تھوڑی ہوا ہے۔ ہمارے خلوص کے معترف و قدر دان تو بہت ہیں‘ مگر ہماری رائے کو ہضم کرنے والے خال خال ہیں! ہم نے ہمیشہ اپنی واحد متاع‘ یعنی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے دوستوں کی گھریلو زندگی زیادہ خوش گوار بنانے کے حوالے سے ہی کوشش کی ہے۔