آنکھوں پر پٹی بندھ جائے تو پھر کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سُجھائی دیتا ہے۔ ایک زمانے تک دنیا سمجھاتی رہی مگر ہم ماننے کو تیار نہ تھے۔ امریکا سے دوستی کا جادو بھی وہ ہے کہ سَر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت سے متعلق نظام پر امریکا کی گرفت کم و بیش چھ عشروں تک ایسی مضبوط رہی کہ کسی اور کو دَم مارنے کی جرأت نہ تھی۔ امریکا کے اثرات کا دائرہ عالمگیر نوعیت کا تھا۔ اُس نے ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بناکر معاملات اپنی مٹھی میں کیے۔ غیر معمولی طاقت نے غیر معمولی گھمنڈ کی بھی راہ ہموار کی۔ جب گھمنڈ نے زور پکڑا تو امریکی پالیسیوں میں ایسی خرابیاں در آئیں کہ باقی دنیا کے لیے ڈھنگ سے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا۔ امریکی پالیسیوں کی نوعیت ایسی تھی کہ سبھی کچھ صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتا تھا۔ دوستی کے نام پر امریکا دوسروں سے صرف اطاعت کا طالب رہتا تھا۔ امریکا سے دوستی نے کئی ممالک کو ایسے بُرے انجام سے دوچار کیا کہ دوسروں نے دیکھا تو عبرت پکڑنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ بعض ممالک کو امریکا سے تعلقات بڑھانے کے نتیجے میں ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑا کہ دنیا دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور خوفزدہ بھی۔
بیسویں صدی کا غالب حصہ امریکی بالادستی کی نذر ہوا۔ امریکا کہنے کو تو باقی دنیا سے دوستی چاہتا تھا مگر نیت یہ تھی کہ سب اُس کے مطیع و فرماں بردار ہوکر رہیں۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لاکھ کوشش کے باوجود امریکی پالیسیوں میں اعتدال اور عدل پیدا نہ ہوسکا۔ امریکی پالیسیوں کے عدم توازن‘ بلکہ سفاکی نے کئی خطوں کو پامال کیا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران یورپی طاقتوں نے جن خرابیوں سے دنیا کو دوچار کیا تھا ویسی ہی خرابیاں امریکی پالیسیوں کے بطن سے بھی نمودار ہوئیں۔ خرابیاں دیکھتے ہی دیکھتے ایسی پھیلیں کہ اُن پر قابو پانا ممکن نہ رہا۔ یورپی طاقتیں جب زوال آشنا ہوئیں اور امریکا لبرل ڈیموکریسی کا علم بردار بن کر دنیا کے سامنے آیا تب امید بندھی کہ شاید اب مظلوم اقوام کو ڈھنگ سے جینے کا موقع مل سکے گا‘ سکون کا سانس لینا ممکن ہوسکے گا۔ مگر ہائے ری قسمت کہ امریکا بہادر نے جب عالمی سطح پر معاملات اپنی مٹھی میں کیے تو ایسا اندھیر برپا کیا کہ الحفیظ و الاماں۔ کمزوروں کی شامت آگئی۔ ہر دور میں یہی تو ہوا ہے۔ کمزوروں کو دباکر ہی تو طاقت آزمائی گئی ہے‘ اُس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آج بھی امریکا کو افغانستان‘ عراق اور دیگر انتہائی کمزور ممالک پر زور آزمائی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ چین جیسی قوت سامنے آجائے تو چھٹی کا دُودھ یاد آجاتا ہے۔ ایک دور تھا کہ امریکا ہر معاملے میں خود کو عقلِ کُل سمجھتا تھا اور باقی دنیا کو محض علامتِ جہل۔ گھمنڈ کا یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کوئی بھی آنکھوں کو اچھا نہیں لگتا تھا۔مگر اب شمع کی لَو تھرتھرا رہی ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جو بدمعاشوں پر وارد ہوا کرتی ہے۔ جب کسی بدمعاش کی عمر ڈھلتی ہے اور زور ٹوٹتا ہے تب وہ اس خیال سے خوفزدہ رہتا ہے کہ جن پر اب تک ظلم ڈھایا ہے وہ اگر ایک ہوگئے تو کیا ہوگا! ایک پورا دور ایسا گزرا ہے کہ جب امریکی قیادت کو اُس کی غلطیوں پر متوجہ کرنا انتہائی دشوار مرحلہ تھا۔ طاقت کا نشہ سَر پر ایسا سوار ہوا کہ امریکی پالیسی میکرز کسی کی بات مانتے تو خیر کیا‘ سُننے پر بھی آمادہ نہ ہوتے تھے۔ اب معاملات کچھ بدلے ہیں۔ چین ایک پہاڑ کی صورت ابھرا ہے اور امریکا رفتہ رفتہ اونٹ سا ہوتا جارہا ہے۔ خیر‘ ایک زمانے سے امریکا اونٹ ہی کے طور پر جی رہا ہے۔ جس طور اونٹ کی کوئی کَل سیدھی نہیں ملتی بالکل اُسی طور امریکی پالیسیوں اور عمومی مزاج میں بھی کچھ سیدھا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اب یہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا ہے تو اپنے قامت کی وقعت کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت کا نو گزا پیر اب اپنے قامت کے گھٹنے سے پریشان ہے۔ امریکا کا اندرونی انتشار بڑھ رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں میں یہ نکتہ نمایاں رکھا ہے کہ امریکا کو اب اندرونی خلفشار دور کرنے پر زیادہ متوجہ رہنا ہے۔ ٹرمپ کی سوچ یہ ہے کہ باقی دنیا پر زیادہ توجہ نہ دی جائے۔ یہ بھی مجبوری کا سودا ہے۔ دنیا بھر میں امریکا نے جو خرابیاں پیدا کی ہیں اُنہیں دور کرنا تو اُس کے بس کی بات ہے نہیں۔ ایسے میں دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اندرونی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ دی جائے۔ مگر خیر یہ مرحلہ بھی ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔
چین اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کی طاقت دیکھ کر امریکا کی بدحواسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا کو اب تک یورپ کا آسرا رہا ہے۔ اب یورپ بھی راہ بدل رہا ہے۔ وہ ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے یورپ نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اب وہ مزید نقصان سے دوچار نہیں ہونا چاہتا۔ یورپ کا گریزپا ہونا امریکا کے لیے سوہانِ روح ہوتا جارہا ہے۔ اُس کی بدحواسی کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے امریکا اور یورپ کے لیے بھی خاصا disadvantage پیدا کیا ہے۔ امریکا کے لیے پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنا لازم ٹھہرا ہے مگر وہ اب تک شش و پنج میں مبتلا ہے۔ امریکا کے لیے فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ اگر اُس نے اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا نہ کیا اور اعتدال کی راہ پر گامزن ہونے کا آپشن نہ اپنایا تو خرابیاں کم نہیں ہوں گی‘ صرف بڑھیں گی۔ محض بدحواس ہو رہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ امریکا نے جو خرابیاں پیدا کی ہیں اب اُن کا ازالہ بھی لازم ہے۔ ازالے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ مزید خرابیاں پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔ امریکی پالیسی میکرز نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو مزید خرابیاں پیدا ہوں گی اور اس بار اِن خرابیوں کی نوعیت بیرونی کم اور اندرونی ہوگی۔