"MIK" (space) message & send to 7575

مقصد سے محرومی کا عذاب

معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ مقصد نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہر انسان کے لیے مقصد کا تعین لازم ہے۔ کوئی واضح مقصد ہمہ وقت سامنے رہے تو انسان ڈھنگ سے جیتا ہے‘ اپنے بیشتر معاملات میں سنجیدہ ہوتا ہے‘ وسائل کے ضیاع سے گریز کرتا ہے۔ مقصد ہی انسان کو راہِ راست پر رکھتا ہے۔ ہم مقصد سے محرومی کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ایک ایسا خطۂ ارض حاصل کریں گے ‘جہاں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی جاسکے۔ یہ ایک بڑا اور ہر اعتبار سے مکمل کامیابی یقینی بنانے والا مقصد تھا۔ اس مقصد کو ہم رفتہ رفتہ بھولتے گئے اور اب معاملہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں ملک کے قیام کے اس انتہائی بنیادی مقصد کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ مقصد سے محرومی جن نتائج کو بھگتنے پر مجبور کرتی ہے‘ وہ ہم بھگت ہی رہے ہیں۔ 
ہر انسان زندگی کا معیار بلند کرنا چاہتا ہے‘ مگر محض سوچ لینے یا خواہش کرلینے سے ایسا نہیں ہو جاتا۔ زندگی کو معیاری بنانے کے لیے بامقصد بنانا پڑتا ہے۔ یومیہ بنیاد پر ہم بہت سے مقاصد کا تعین کرتے ہیں اور انہیں حاصل بھی کرتے ہیں ‘مگر زندگی مجموعی طور پر بہت بڑا معاملہ ہے۔ اس کے لیے کسی بڑے مقصد کا ہونا لازم ہے۔ کوئی بڑا مقصد متعین کیا گیا ہو تو جینے میں لطف محسوس ہوتا ہے‘ عمل کی تحریک ملتی ہے۔ یہ بنیادی اصول ہر انسان پر اطلاق پذیر ہے۔ مقصد نہ ہو تو ڈھنگ سے جینے کا ارادہ بھی مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر کسی خاص شعبے میں کیریئر بنانا مقصد ہوسکتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتا ہے‘ کوئی انجینئر بننے کا۔ کسی کو اداکاری کے شعبے میں نام کمانے کی تمنا ہوتی ہے اور کسی کو گلوکاری کے شعبے میں۔ کوئی فیشن ڈیزائنر بن کر زندگی کو بامقصد بنانا چاہتا ہے اور کوئی میک اپ آرٹسٹ بن کر۔ یہ سب کچھ انفرادی سطح کا معاملہ ہے۔ یہ ابتدائی منزل ہے۔ بھرپور محنت کرکے کوئی ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت حاصل کرکے کیریئر بنانا ممکن ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیتے ہیں‘ جو دوسروں سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں اور کامیابی اُن کے قدم چومتی ہے۔ اُن کی بھرپور کامیابی دوسروں کے لیے مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ اُن کے کیریئر سے تحریک پاکر کوئی بھی کچھ کرنے کی ٹھان سکتا ہے۔ 
انفرادی سطح پر ملنے والی کامیابی بھی کامیابی ہی کہلاتی ہے‘ مگر مکمل نہیں کہلاتی۔ کوئی ڈاکٹر بنتا ہے اور کوئی انجینئر‘ اسی طور دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی طبع آزمائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ تمام انفرادی کامیابیاں کسی بھی معاشرے یا قوم کی بھرپور کامیابی نہیں بنتیں۔ قومی سطح پر چند مقاصد اور اہداف کا حصول ہی زندگی کو زیادہ بامعنی بناتا ہے۔ جب کوئی قوم اپنے لیے کسی واضح بڑے مقصد یا چند مقاصد کا تعین کرتی ہے‘ تب اجتماعی زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے‘ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے اور کسی مقام تک رسائی کی شدید خواہش عمل کی تحریک دیتی ہے۔ مقصد سے محرومی کسی بھی انسان کو پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی معاملہ اجتماعی زندگی کا بھی ہے۔ جب کسی قوم کے تحت الشعور میں واضح مقاصد نہیں رہتے ‘تب تمام معاملات بے ترتیب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ عمل کی تحریک دم توڑتی جاتی ہے‘ فکری بے راہ روی ‘بلکہ بے ذہنی زندگی کے تمام معاملات پر متصرف ہو رہتی ہے۔ آج کی دنیا منظم ذہن چاہتی ہے۔ ذہنی بے راہ روی کی اب گنجائش نہیں رہی۔ جو سوچے گا ‘ وہی پائے گا۔ سوچنے سے مراد ہے‘ آگے بڑھنے کی منصوبہ سازی اور مقاصد کا واضح تعین۔ مقاصد کے تعین میں تساہل اور کوتاہی آج کی دنیا کسی طور برداشت نہیں کرتی۔ اس حوالے سے کسی ایک غلطی کا خمیازہ تادیر بھگتنا پڑتا ہے۔ بامقصد زندگی بسر کرنے والی اقوام ہی کچھ کر پاتی ہیں۔ وہی معاشرے کامیاب رہتے ہیں‘ جو کسی ایک بڑی راہ کا تعین کرکے اُس پر گامزن رہتے ہوئے محنت کرتے ہیں۔ 
پاکستان میں وہ قوم رہتی ہے جس نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی کو مقاصد کے تعین سے ''استثنا‘‘ دے دیا ہے! زندگی مختلف مراحل میں منقسم ہوتی ہے۔ بچپن کسی اور رنگ کا ہوتا ہے اور جوانی کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ادھیڑ عمر میں جو طرزِ زندگی اختیار کی جاتی ہے‘ وہ بڑھاپے میں اختیار نہیں کی جاسکتی۔ ہم نے سبھی کچھ خلط ملط اور گڈمڈ کردیا ہے۔ عمر کا کوئی بھی مرحلہ ہماری سنجیدگی سے ہم کنار نہیں ہو پاتا۔ ہم عمر بھر شدید بے یقینی اور غیر سنجیدہ رویے سے دوچار رہتے ہیں۔ سنجیدگی سے دوری اور بے یقینی ہمیں مقاصد کے تعین سے بھی دور رکھتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی سطح پر بھی واضح مقاصد کا تعین کرنا ہے اور اجتماعی طور پر بہت کچھ طے کرنا ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی دنیا بھی بہت سفاک ہے۔ یہ انفرادی نوعیت کی خطائیں تو معاف کردیتی ہے‘ مگر اجتماعی سطح پر برتی جانے والی واضح کوتاہی کسی طور برداشت نہیں کرتی۔ مقصد متعین نہ ہو تو عمل سے کچھ خاص فائدہ پہنچتا بھی نہیں۔ عمل کی حقیقی تحریک بھی اُسی وقت ملتی ہے جب ہمیں معلوم ہو کہ جو کچھ بھی کیا جانا ہے‘ اُس سے حاصل کیا ہوگا‘ مقصد کیا ہے۔آج دنیا اُس مقام پر کھڑی ہے‘ جہاں ہر معاشرے اور ہر قوم کو اپنے لیے مقاصد واضح طور پر متعین کرنے ہیں۔ اس معاملے میں کوتاہی اور غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔ جو قوم شش و پنج میں مبتلا رہے گی‘ وہ پیچھے رہ جائے گی اور واضح سوچ اپنانے والی اقوام آگے نکل جائیں گی۔ 
بامقصد زندگی بسر کرنے کی صورت میں کسی کی غلامی اختیار نہیں کرنا پڑے گی‘ ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہترین حکمتِ عملی یہی ہوسکتی ہے کہ ہم حالات کے تناظر میں چند واضح مقاصد متعین کرکے متوازن زندگی بسر کرنے کا اہتمام کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں