"MIK" (space) message & send to 7575

ذاتی مفاد تو مقدم رکھا جانا چاہیے

ذہنی پیچیدگیاں ایک خاص حد تک ہوں تو کوئی سمجھے بھی یا سمجھنے کی کوشش ہی کرے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہر الجھن زندگی کی سب سے بڑی الجھن دکھائی دیتی ہے۔ سوچنے بیٹھیے تو ذہن آن کی آن میں ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کیجیے تو کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ نقطۂ آغاز کیا ہو۔ ہمارے معاشرے کی چند نمایاں خصوصیات وہی ہیں ‘جو ہر پس ماندہ اور الجھے ہوئے معاشرے کی ہوا کرتی ہیں۔ عام پاکستانیوں کا یہ حال ہے کہ حالات کی پیدا کردہ پریشانی کے ہاتھوں اتنے بدحواس ہو جاتے ہیں کہ اصلاحِ احوال کی اگر کوئی صورت نکل بھی رہی ہو تو اُس کا امکان دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑ دیتا ہے۔ جہاں فکری سطح پر پائی جانے والی الجھنوں کو حواس پر سوار کرلیا جائے‘ دردِ سر بنالیا جائے ‘وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ 
عمومی سطح پر آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ لوگ بدحواسی کے عالم میں اور ہٹ دھرمی کے ہاتھوں بالکل سامنے کی بات بھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں یا پھر دانستہ نظر انداز کرتے رہنے پر تُل جاتے ہیں۔ ملک بھر میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں ‘جہاں صحتِ عامہ سے متعلق سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہر سطح کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو صحت سے متعلق بہترین سہولتیں فراہم کرے ‘تاکہ معیارِ زندگی بلند ہو۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یقینا ہر سطح کی حکومت کا احتساب کیا جانا چاہیے‘ مگر خیر یہ بعد کا مرحلہ ہے‘ اگر کسی محلے میں گندا پانی جمع ہو جائے تو متعلقہ بلدیاتی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ گندا پانی ٹھکانے لگاکر محلے کو صاف کرے‘ اگر متعلقہ بلدیاتی ادارہ ایسا نہ کرے تو؟ تعفن تو خیر برقرار رہے گا ہی‘ گندے پانی میں مکھی اور مچھر کے علاوہ رینگنے والے کیڑے بھی تیزی سے پروان چڑھیں گے۔ صحت ِ عامہ کے حوالے پیچیدگیاں بڑھیں گی۔ لوگوں کے لیے گزرنا محال ہو جائے گا‘ مکھیوں اور مچھروں کے پروان چڑھتے رہنے سے متعلقہ محلے یا علاقے میں بیماریاں تیزی سے پھیلیں گی۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ متعلقہ افسران اور اہلکاروں کو متوجہ کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو لازم ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت صفائی ممکن بنائی جائے‘ تاکہ بیماریوں سے بچنا ممکن ہوسکے۔ لوگ بہت سی غیر متعلق اور غیر مفید مدوں میں کمائی کا بڑا حصہ برباد کر رہے ہوتے ہیں‘ مگر ماحول کو صحت بخش بنائے رکھنے پر توجہ نہیں دیتے۔ گھروں کے باہر کوڑا پڑا ہوتا ہے۔ توجہ دلائیے تو جواب ملتا ہے یہ کچرا اٹھانا ہماری ذمہ داری نہیں۔ بات بالکل درست ہے۔ کچرا متعلقہ بلدیاتی ادارے کو اٹھانا ہے‘ کیونکہ یہ اُس کے منصبی فرائض میں شامل ہے‘ لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں غفلت‘ کوتاہی یا تساہل کا مظاہرہ کرے تو فوری طور پر شہریوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے پر متوجہ ہونا چاہیے‘ تاکہ گلی یا علاقے کو تعفن سے بچانا بھی ممکن ہو اور بیماریوں کی روک تھام بھی یقینی بنائی جاسکے۔ جس طور گھر کو صاف ستھرا رکھا جاتا ہے‘ بالکل اُسی طور گلی یا علاقے کو صاف رکھنے پر بھی تھوڑا سا متوجہ ہونے میں کچھ ہرج نہیں۔ 
سوال صرف کچرے کا نہیں‘ زندگی کے ہر معاملے کا ہے اور جن معاملات کا تعلق سلامتی سے ہو ‘انہیں تو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ اگر شہر کے حالات خراب ہوں اور لوٹ مار کے علاوہ قتل و غارت بھی عام ہو تو حکومت کو اُس کی کوتاہیوں اور نا اہلی پر لتاڑنا اپنی جگہ درست سہی ‘مگر محتاط رہنا بھی لازم ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شہری رات کے پچھلے پہر کسی ویران علاقے سے محض دل پشوری کے لیے تنہا گزرے اور لُٹ جائے تو انتظامیہ کا کیا قصور؟ شہریوں کی سلامتی یقینی بنانا حکومت یا مقامی انتظامیہ ہی کی ذمہ داری سہی‘ شہریوں کو بھی تو محتاط رہنے کی ذمہ داری نبھانی ہے۔ 
کئی سال سے یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ کراچی کے متعدد علاقوں میں انتہائی مخدوش رہائشی عمارتیں اب تک خالی نہیں کی گئیں۔ اولڈ سٹی ایریا میں سو سے ڈیڑھ سو سال پرانی عمارتیں بڑی تعداد میں ہیں۔ بعض عمارتیں اچھی حالت میں بھی ہیں۔ انتہائی مخدوش عمارتوں کی تعداد ‘البتہ بہت زیادہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک زمانے سے کئی بار نوٹس جاری کیے جانے کے باوجود یہ عمارتیں خالی نہیں کی گئیں۔ اب تک کئی عمارتیں گرچکی ہیں۔ چند روز قبل لیاری کے علاقے کھڈا مارکیٹ میں واقع عمارت گری‘ جس کے ملبے تلے دب کر 20 افراد جاں بحق ہوئے۔ اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا صرف اس لیے ہوا کہ متعلقہ سرکاری ادارے کی طرف سے دیئے جانے والے نوٹسز کو تواتر سے نظر انداز کیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ گرنے والی عمارت کے مکینوں کو کچھ مدت پہلے بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ 
کراچی میں تمام مخدوش عمارتوں کے مکینوں کا مفاد صرف اس بات میں ہے کہ نوٹس ملتے ہی متبادل رہائش کا انتظام کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کسی انتہائی مخدوش عمارت کے مکینوں کو عمارت خالی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے متبادل رہائش دی جائے۔ عمارت خالی کردی جائے تو شاید ریاستی مشینری اُسے بروقت اور محفوظ طریقے سے منہدم کرکے جانی نقصان کی روک تھام میں کامیاب ہو جائے۔ کسی بھی مخدوش عمارت کے مکینوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ نوٹس ملنے پر بھی عمارت خالی نہ کرنے کی صورت میں وہ خود بھی جان سے جاسکتے ہیں اور دوسروں کی زندگی بھی خطرے میں ڈالنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس معاملے میں ریاستی رٹ کو تسلیم کرنے ہی میں عافیت ہے۔ کسی بھی مخدوش عمارت کا جلد از جلد معیاری طریقے سے منہدم کیا جانا لازم ہے ‘تاکہ اُس سے جُڑی ہوئی عمارتیں محفوظ رہیں اور جانی نقصان بھی بچا جاسکے۔ 
شدید بحرانی کیفیت میں انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اپنے حقیقی اور قطعی مفاد کے بارے میں سوچنے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ سسٹم سے چاہے جتنی بھی شکایت ہو‘ اپنا قطعی مفاد تو ہر وقت ذہن نشین رہنا چاہیے۔ مخدوش عمارتوں میں رہنا کسی بھی اعتبار سے دانش کا تقاضا ہے‘ نہ نتیجہ۔ ہمیں اِتنا تو یاد رہنا ہی چاہیے کہ فکر و عمل کا کون سا پہلو ہمارے خلاف جارہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر رہا کہ انتظامی مشینری میں خرابیاں پائی جاتی ہیں اور اُس سے شکایات بھی بہت ہیں‘ مگر ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ اپناکر ریاست کی رٹ کے خلاف جانا کسی بھی اعتبار سے فائدے کا سَودا نہیں۔ عوام کو اس معاملے میں محض جذباتیت کا دامن تھامے رہنے پر دانش کو ترجیح دینی چاہیے۔ عقلِ سلیم کا بروقت استعمال اور معاملات پر تحمل سے غور بہت سے مسائل کو پیچیدہ تر ہونے سے روکتا ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر برد باری پر مبنی رویے کا تقاضا کرتی ہے۔ تحمل سے کام لیتے ہوئے معاملات پر غور کرکے ہم اپنے راستے کے بہت سے کانٹے ہٹاسکتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں