معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ وہاں کہ جہاں کچھ بھی اپنے مقام پر دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام ہی معاملات اُلٹ‘ پلٹ گئے ہیں۔ ہر بات میں ربط و ترتیب کا فقدان ہے۔ سمجھنے کی کوشش کیجیے تو پہلے قدم ہی پر مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ ہر قدم پر یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ زندگی گزر نہیں رہی‘ صرف ضایع ہو رہی ہے۔ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ لے دے کر بس اب اپنے ہی برباد ہوتے جانے کا تماشا دیکھنا اختیار میں رہ گیا ہے۔
کیا اب مایوسی مقدر ہوچکی ہے؟ امید کا دامن تھامنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ اب ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں رہا؟ اگر ایسا ہے تو پھر ڈھنگ سے جینے کی امید کو بھی دم توڑ دینا چاہیے۔ ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ ہمارے خالق نے ہمارے لیے کچھ اور ہی اہتمام کر رکھا ہے۔ ہر طرح کی خرابی میں کسی نہ کسی درجے کی بہتری بھی مضمر ہوتی ہے۔ زندگی ہم سے بہت کچھ چھین چکی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زندگی سے بہت کچھ چھینا جاچکا ہے مگر دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم کھونے اور پانے کے معاملے کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کریں اور اس اہلیت کے نتیجے میں اپنی اصلاح پر مائل بھی ہوں۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں جتنے مسائل دکھائی دے رہے ہیں اُن کا بڑا حصہ ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے؟ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم صورتحال کے مطابق اپنی طرزِ فکر و عمل کو مبسوط و مربوط کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ موافقت و تطبیق کے مرحلے سے گزرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ ہمارے لیے امکانات کو محدود کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ہی ہاتھوں رونما ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں اِس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم عمر بھر ایسے افکار و اعمال کا ذریعہ بنتے ہیں جو بگاڑ پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ معاملہ اِتنا پیچیدہ نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنے افکار و اعمال سے مسائل حل کرتے ہیں اور اپنے افکار و اعمال ہی کے باعث پریشانیوں کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ تلوک چند محرومؔ کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اُن کی شہرت کا بنیادی وسیلہ رباعیات ہیں۔ تلوک چند محرومؔ نے خوب کہا ہے ؎
دنیا میں اے زباں! روشِ صلحِ کُل نہ چھوڑ
جس سے کسی کو رنج ہو ایسا بیان نہ چھیڑ
یہ زبان ہے جو ہمارے لیے غیر معمولی مسائل پیدا کرتی ہے۔ زبان کے محتاط استعمال سے ہم اپنے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ جب ہمیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا تب زبان ہی ہمیں راستہ سُجھاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں جو سات پردوں میں لِپٹی ہو اور ہمیں دکھائی نہ دیتی ہو۔ ہم قدم قدم پر اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ زبان کا غیر دانشمندانہ استعمال ایسے مسائل پیدا کرتا ہے جن کے حل میں عمریں کھپ جاتی ہیں۔ ہر دور کی طرح اِس دور میں بھی زبان ہی ہمارے لیے مسائل کا سب سے بڑا منبع ہے۔ زبان کے غیر دانشمندانہ استعمال ہی کے باعث ہم طرح طرح کے مسائل میں گھرے رہتے ہیں۔ معیاری انداز سے جینے کے لیے یہ جاننا اور سمجھنا لازم ہے کہ کب کیا کہنا چاہیے اور کس طرح کہنا چاہیے۔ یہ معاملہ لاپروائی یا غیر سنجیدہ طرزِ فکر کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے راستے میں خود کانٹے بچھاتے ہیں۔ کیا کیجیے کہ یہ روش آسانی سے ترک نہیں ہو پاتی کہ بولنا انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ ہاں! کتنا اور کیسا بولنا ہے‘ یہ سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ فن کسی ادارے میں نہیں سکھایا جاسکتا بلکہ غیر محسوس انداز سے سیکھنا پڑتا ہے۔ سیکھنے پر کوئی قید نہیں۔ کوئی بھی کسی بھی طریق سے اچھا بولنے کا فن سیکھ سکتا ہے۔ محنت البتہ بنیادی شرط ہے۔ خاطر خواہ توجہ دیے بغیر یہ مرحلہ طے نہیں ہو پاتا۔ ہم کس طور بات کرتے ہیں‘ اِسی سے یہ طے ہوتا ہے کہ ہم کس طور زندگی بسر کریں گے اور ہمیں کیا ملے گا، ہم سے کیا چھن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بولنے ہی کی بنیاد پر ہماری زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے اور یہ بھی طے ہوتا ہے کہ ہم کس معاملے میں کس حد تک کامیاب ہو پائیں گے۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ بولنا وہ صفت ہے جو انسان کو کسی بھی بلندی تک لے جاسکتی ہے اور کسی بھی پستی میں دھکیل سکتی ہے۔ ایک زمانے سے ہم، آپ سبھی سنتے آئے ہیں کہ بولنا انسان کے لیے انتہائی فطری امر ہے۔ کوئی بھی بولے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان کو بھرپور ذوق و شوق کے ساتھ ما فی الضمیر کے اظہار کے دعوت دی جاتی ہے ع
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ جب بولنے پر آتے ہیں تو لب محض آزاد نہیں رہتے‘ بہت حد تک ''آزار‘‘ بن جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بولتے وقت اس امر کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ الفاظ اور لہجے سے کسی پر کیا گزرے گی۔ زبان کو بے لگام چھوڑنے کی صورت میں صرف منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ بولنے کا عمل غیر معمولی توجہ، محنت اور تصرف یعنی مہارت چاہتا ہے۔ زبان کو من مانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایسا کرنے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔
آج کا پاکستانی معاشرہ گفتگو کے فن سے محروم ہے۔ گفتگو کے نام پر بے ہنگم خیالات کا بہاؤ پایا جاتا ہے۔ جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر ظاہر ہو اُسے لوگ بیان کرنے میں کسی بھی سطح پر باک محسوس نہیں کرتے۔ عمومی سوچ یہ ہوچکی ہے کہ جو کچھ بھی ذہن میں پایا جائے وہ زبان پر بھی لایا جائے۔ یہ سوچنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں کہ ذہن میں پائی جانے والی ہر بات اس قابل نہیں ہوتی کہ زبان پر لائی جائے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ جو کچھ بھی زبان پر لایا جائے اُسے کس طور لایا جائے کہ سننے والوں کو الجھن یا ہتک محسوس نہ ہو۔ گفتگو سے متعلق یہ تمام نزاکتیں ہماری توجہ چاہتی ہیں مگر ہم متوجہ نہیں ہوتے۔ گفتگو انسان کی بنیادی ضرورت ہی نہیں‘ انتہائی بنیادی و ناگزیر فن بھی ہے۔ گفتگو کی نوعیت ہی تو ہمارے لیے ممکنہ نتائج کی نوعیت طے کرتی ہے۔ تلوک چند محرومؔ ہی نے کہا ہے ؎
سخن ہو سمع خراشی تو خامشی بہتر
اثر کرے نہ جو دل میں وہ گفتگو کیا ہے
حقیقی زندگی میں ایسا ہی تو ہے۔ بہت سے لوگ خاموش رہ کر بہت کچھ پالیتے ہیں اور دوسری طرف بہت سے لوگ محض زبان کے غیر دانشمندانہ استعمال کے ہاتھوں وہ سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں جو بہت مشکل سے ہاتھ آیا ہوتا ہے۔ بات اگر دل پر اثر نہ کرے تو کس کام کی؟ ہم بولنے کا ہنر بھول گئے ہیں۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ بہت بولنا ہے اور سوچے سمجھے بغیر بولنا ہے۔ بعض معاملات میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بولنا اپنے آپ پر فرض کرلیا گیا ہے اور یہ بھی کہ جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچائے وہی بات کہنی ہے۔ بہت سوں کے نزدیک گفتگو کی کامیابی یہ ہے کہ فریقِ ثانی کو تکلیف پہنچے‘ وہ پریشان ہو اٹھے‘ بدحواس ہوجائے۔ یہ سوچ اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ اب بہتری کی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
ہر سطح کے معاشرتی اور معاشی تعلقات میں گفتگو کا فن ہی ہمارے لیے کامیابی کا تعین کرتا ہے۔ اپنے خیالات کو سلیقے سے دوسروں تک پہنچانا ہی ہمارے بارے میں اچھی رائے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایسی ہر بات زبان پر لانے سے گریز بہتر ہے جس کے نتیجے میں کسی کے دل کو آزار پہنچے۔ ایسی صورتحال ہماری راہ میں دیواریں کھڑی کرتی ہے اور ہم سرتوڑ کوشش پر بھی دوسروں کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔