مجھے کہنے دیجیے کہ کراچی نے جتنوں کو سنبھال رکھا ہے‘ اُن سے کہیں زیادہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ شہرِ قائد کے مسائل کا اثر پورے ملک پر مرتب ہوتا ہے۔ اب اِن مسائل کا دیرپا اور موزوں ترین حل تلاش کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ کس پر؟ وفاق پر‘ اور کس پر؟ سیاسی تجزیوں، مضامین اور کالموں میں اس نکتے پر زور دیا جارہا ہے کہ شہرِ قائد کے سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر وفاق کوئی ایسا انتظام کرے کہ کراچی کے معاملات درست ہوں۔ یہ لازم ہے کیونکہ ملک کا سب سے بڑا شہر الجھا رہے گا تو باقی ملک بھی فکری و نفسی خلفشار کا شکار رہے گا۔ جمعہ کو وزیر اعظم نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کی بات کو محض اعلان نہیں‘ خوش خبری سمجھا جانا چاہیے۔ تین عشروں سے بھی زائد مدت تک شہرِ قائد کو یوں آزاد چھوڑا گیا گویا اِس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ سٹیک ہولڈرز کسی بھی معاملے میں جواب دہ نہ تھے۔ سرکاری مشینری سے کسی معاملے میں کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔ ''چلتی کا نام گاڑی‘‘ کا اصول اپناتے ہوئے شہر کو جیسے تیسے چلنے دیا گیا۔ جب معاملات ڈھیلے چھوڑے گئے تو نوبت یہاں آپہنچی کہ شہر کو مافیاز نے جکڑ لیا۔ اب کم و بیش ہر معاملہ کسی نہ کسی مافیا کی مرضی کا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ سلسلہ ختم کرنے کے لیے جامع منصوبہ سازی لازم ہے۔ اور یہ منصوبہ سازی طویل المیعاد ہونی چاہیے۔ عشروں کا بگاڑ چند ماہ یا چند برس میں ختم نہیں ہوسکتا اور ایسی کوئی کوشش بھی نہیںکی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم نے طویل المیعاد منصوبے کی بات کی ہے تو چند بنیادی نکات کا خیال رکھا جانا لازم ہے۔
٭ منصوبہ سازی ہر اعتبار سے جامع ہونی چاہیے۔ ماہرین سے مدد لی جائے اور اُنہیں بھی تمام معاملات ذہن میں رکھتے ہوئے رائے دینی چاہیے۔ کسی بھی ماہر کی کوئی رائے زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے والی نہ ہو۔ گزرے ہوئے زمانوں کی خرابیوں کا تجزیہ کرکے لمحہ ٔ موجود کے ساتھ ساتھ مستقبل کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا لازم ہے۔ کراچی کا رقبہ، آبادی اور آبادی کا تنوع دیکھتے ہوئے ایسا انتظام ناگزیر ہے جس میں طویل المیعاد تقاضوں کو نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب تمام بنیادی یا اہم معاملات اور دیرینہ مسائل پر اچھی طرح غور و خوض کیا جائے۔
٭ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے کی جانے والی منصوبہ سازی کچھ ہی مدت میں دم توڑ دے گی۔ شہر کی لسانی، ثقافتی اور معاشرتی حقیقتوں کو بالائے طاق رکھ کر کی جانے والی منصوبہ سازی مزید غلط فہمیاں پیدا کرے گی، یہ سرکاری مشینری سے بیزاری کو پروان چڑھائے گی اور احساسِ محرومی کو بڑھاوا دے گی۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ شہر لسانی، نسلی اور ثقافتی مفادات رکھنے اور انہیں اہم گرداننے والی آبادیوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ کسی بھی نسلی یا لسانی گروہ کے مفادات کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں۔
٭ مقامی آبادی کے بدیہی مفادات کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہ کیا جائے۔ کئی عشروں سے مقامی آبادی اضافی یعنی بیرونی آبادی کا دباؤ جھیل رہی ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچا وہیں کا وہیں ہے اور آبادی بڑھتی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں بنیادی سہولتوں سے مقامی آبادی زیادہ محروم رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بجلی اور پانی جیسی انتہائی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے رکھنے کی قیمت بھی ترجیحاً مقامی آبادی ہی سے وصول کی جاتی رہی ہے۔ معاش کی تلاش میں کراچی آکر بسنے والوں کی واضح اکثریت مضافاتی علاقوں کی کچی آبادیوں میں قبضے کی زمین پر رہتی ہے۔ بجلی کنڈے لگاکر چرائی جاتی ہے اور پانی کی لائنوں میں بھی نقب لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ کیمپوں کے سے انداز سے جینے والے غیر مقامی افراد کو پراپرٹی ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اس ٹیکس کا بڑا حصہ بھی مقامی آبادی ہی سے وصول کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مقامی آبادی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا آبائی تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے؛ تاہم وہ سات آٹھ عشروں سے شہر کا حصہ ہیں۔ مقامی آبادی کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے سے کسی خاص زبان کے بولنے والوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ ملک بھر سے آکر بسے ہوئے لوگ پوری طرح مستفید ہوں گے کہ یہ سب بھی اہلِ کراچی ہیں،سٹیک ہولڈرز میں سے ہیں۔
٭ شہرِ قائد کو غیر مقامی آبادی کی بھی ضرورت ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی صنعتی اور تجارتی ضرورتوں کے تحت مختلف شعبوں میں افرادی قوت ملک بھر سے دستیاب ہوتی ہے۔ اہلِ خانہ کے لیے کمانے کی خاطر کراچی آنے والے گوناگوں مسائل کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ روزگار کی تلاش سے پہلے رہائش کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد بنیادی سہولتوں کا نمبر آتا ہے۔ ہر بڑے شہر کی طرح کراچی کو بھی ایسے علاقوں کی ضرورت ہے جن میں بیرونی آبادی آسانی سے ایڈجسٹ ہوسکے اور اُسے کام کے مقام تک جانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ شہر کے کناروں پر کچی آبادیوں کو باضابطہ شکل دے کر معقول رہائش یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ شاہراہوں کی حالت بہتر بناکر یومیہ سفر کا مسئلہ بھی بہت حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔
٭ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ جس کے جہاں سینگ سماتے ہیں‘ کاروبار شروع کردیتا ہے۔ شہر بھر میں ہزاروں کیبن، ٹھیلے اور عارضی دکانیں ہیں جو خود اہلِ شہر کے لیے غیر معمولی مشکلات کا باعث ہیں۔ بعض مقامات پر تو کیبنز اور ٹھیلوں کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کا گزرنا محال ہو جاتا ہے۔ کراچی میں کاروبار کے لیے موزوں ماحول ہونا چاہیے تاکہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر مقامی افرادی قوت بھی اچھی طرح کھپ سکے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کہیں بھی ٹِھیا لگاکر بیٹھ جائے اور سب کے لیے زحمت کا باعث بنے۔ ٹھیلوں، ٹِھیوں اور کیبنز کے لیے مقامات کا تعین کرکے رجسٹریشن کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں کسی کے لیے کوئی الجھن بھی پیدا نہیں ہوگی۔ شہر کو حقیقی مفہوم میں کاروبار کے لیے موزوں ترین مقام بنانا اُسی وقت ممکن ہے جب حقیقت پسندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ گزارے والی ذہنیت سے گریز لازم ہے۔ شہر بھر میں دکان داروں کو بھی اس بات کا پابند کرنا لازم ہے کہ اُن کی دکان داری سے کسی کو بے جا تکلیف نہ پہنچے۔ کاروباری عمل یعنی دکان داری سے متعلقہ مکینوں کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ مثلاً کسی بھی اپارٹمنٹ کے نیچے کی دکان میں پکوان سینٹر کھولنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ بڑے پیمانے پر کھانا پکانے کے عمل سے دکانوں کے اوپر رہنے والوں کو مستقل بنیاد پر شدید نوعیت کی گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض دوسرے شعبوں میں بھی شہری کچھ ایسی ہی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔
٭ انتہائی بنیادی کام ہے بنیادی ڈھانچے کی اَپ گریڈیشن۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں تو اَپ ڈیٹ کا بھی نہیں سوچا گیا‘ اَپ گریڈیشن کا خیال کسے آتا؟ بنیادی ڈھانچے کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے جہاں جو کچھ کرنا چاہیے وہاں وہ سب کچھ کیا جانا چاہیے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے پانی کی نکاسی میں حائل ہونے والی تمام تعمیرات گرانے کا حکم دیا ہے۔ اگر اس معاملے میں امتیاز برتا گیا تو مزید خرابیاں پیدا ہوں گی۔ اگر صرف ''مین لینڈ سٹی‘‘ کو ہدف بنایا گیا تو لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ غیر قانونی اور بلا جواز تعمیرات گرانے کا عمل پورے شہر کی حدود میں مکمل کیا جانا چاہیے۔ اس معاملے میں لاڈلے علاقوں کو نوازنا انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
کراچی کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی ہر اعتبار سے جامع ہونی چاہیے۔ کسی بھی بنیادی زمینی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جن کا ہم اب تک سامنا کرتے آئے ہیں۔ کراچی صرف توجہ کا طالب نہیں‘ نیت کا اخلاص اور کچھ کر گزرنے کی لگن بھی چاہتا ہے۔ شہرِ قائد کے معاملات چونکہ عشروں کے بگاڑ کا نتیجہ ہیں اس لیے وقتی نوعیت کا کوئی بھی حل اہلِ شہر کی شکایات کا ازالہ کرنے میں ناکام رہے گا۔