ویسے تو بہت سے وار ہیں جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتے مگر شیطان کا شاید سب سے کاری وار ہے خود پسندی۔ جو اپنی نفسی ساخت کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے‘ شیطان اُس پر حملہ آور ہوکر فریبِ ذات کے شکنجے میں ایسا کَستا ہے کہ پھر حقیقی آزادی سے ہم کنار ہونے میں عمر کھپ جاتی ہے۔خود پسندی سے بچنا ہر دور کے انسان کے لیے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ رونما ہوتا رہا ہے جو انسان کو خود پسندی کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور بالعموم اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ ذہنی ساخت کا ایک بنیادی مسئلہ ہے اس میں باتوں کا جمع ہوتے رہنا۔ ہم زندگی بھر مختلف معاملات کا اثر قبول کرتے رہتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ہماری فکری ساخت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مزاج میں پائی جانے والی کجی بھی فکری ساخت پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہی کے دم سے ممکن ہو پاتی ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے جو ہم تحت الشعور یا لاشعوری طور پر قبول کرتے رہتے ہیں۔ یہ عمل چونکہ عام طور پر خاصا غیر محسوس ہوتا ہے اس لیے ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہماری فکری ساخت پر کن کن باتوں نے کتنا اور کیسا اثر مرتب کیا ہے۔
انسان کو خود پسندی کے شکنجے میں کَسنے والے کئی عوامل ہیں۔ سب سے پہلے تو اِس حقیقت ہی پر غور کیجیے کہ ہر انسان میں خود پسندی کا وصف فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ یہ محض پودا ہوتا ہے۔ اگر اس پودے کو باقاعدگی سے پانی دیا جاتا رہے، خیال رکھا جاتا رہے تو بہت جلد یہ تناور درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر اس درخت کو مرتے دم تک جھیلنا پڑتا ہے۔ اپنی ذات کو بہت کچھ سمجھنا ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ خطرناک شکل اُس وقت اختیار کرتا ہے جب انسان اپنی ذات کے خول میں بند ہوکر باقی دنیا سے تعلق کی نوعیت تبدیل کرلیتا ہے۔ خود پسندی پروان چڑھتی جاتی ہے اور قدم قدم پر انسان کو یقین دلاتی جاتی ہے کہ دنیا کا بہترین انسان وہی ہے، جتنا خلوص ہے اُس میں ہے اور باقی انسان محض خود غرض ہیں۔
خود پسندی وہ زہر ہے کہ خیالات کی رگوں میں اتر جائے تو اُنہیں کسی کام کا نہ رہنے دے۔ شیطان کی کامیابی یہ ہے کہ یہ انسان کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ اُس سے بڑھ کر کوئی نہیں، اُس کی سی صلاحیتیں کسی میں نہیں پائی جاتیں اور یہ کہ ساری دنیا کا بوجھ اُسی کے کاندھوں پر ہے۔ جی ہاں! ساری دنیا کا بوجھ! اگر انسان میں غیر معمولی صلاحیت اور مہارت پائی جاتی ہو تو اپنے آپ کو کچھ سمجھنے میں زیادہ ہرج بھی نہیں۔ فطری سی بات ہے کہ انسان کچھ ہوتا ہے تو اپنے آپ کو کچھ سمجھنے بھی لگتا ہے۔ ایسے میں خود پسندی زیادہ حیرت انگیز ہوتی ہے نہ افسوس ناک۔ کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے کہ صلاحیت و استعداد انسان کے دماغ پر سوار ہوگئی ہے، اُسے خود فریبی کے جال میں پھانس چکی ہے۔ یہاں تک تو بات جھیلی جاسکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب شیطان ذہن میں وسوسے اور خنّاس پیدا کرتا ہے تب انسان کو کچھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ ذہنی توازن کا بگڑ جانا اِسی کیفیت کو تو کہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جب انسان خود پسندی کے گڑھے میں گر جائے تو پھر کسی جواز کے بغیر اپنے وجود کو باقی دنیا سے مقدم سمجھنے لگتا ہے۔ کوئی غیر معمولی صلاحیت اور مہارت نہ ہونے پر بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور برتر تصور کرنا بہت بڑا ذہنی مرض ہے۔ جب انسان اللہ سے ہدایت کی استدعا نہیں کرتا تب ایسے ہی گُل کھلا کرتے ہیں۔ شیطان کو اگر وار کرنے کا موقع مل جائے تو وہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، انسان کو خود پسندی کے نشے میں چُور کردیتا ہے۔ کسی نمایاں صلاحیت یا مہارت کے نہ ہونے پر بھی جو لوگ خود کو بہت کچھ بلکہ سب کچھ سمجھتے ہیں‘ وہ تماشا بن جاتے ہیں۔ شیطان کو ایسے تماشے کھڑے کرنا اور دکھانا ہی تو پسند ہے۔ کسی بنیاد یا جواز کے بغیر اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنا ایسا خطرناک مرض ہے کہ انسان کی شخصیت کو گُھن لگادیتا ہے، اُسے تباہی کے دہانے تک پہنچادیتا ہے۔ خود پسندی کی یہی شکل سب سے خطرناک ہے۔ جنہیں کچھ نہیں آتا وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ اُن کے پاس اور کوئی آپشن بھی تو نہیں ہوتا۔ باقی دنیا کو فضول سمجھنے کی روش پر گامزن رہتے ہوئے وہ خود کو سب سے برتر سمجھتے اور برتتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر و عمل اتنا بگاڑ پیدا کردیتی ہے کہ پھر انسان بہت کوشش کے باوجود سنبھل نہیں پاتا۔
دل و دماغ کی رگوں سے خود پسندی کا زہر نکالنا ایسا کام نہیں کہ راتوں رات ہو جائے۔ اس کے لیے ریاضت درکار ہے۔ ذہنی تربیت کے بغیر خود پسندی کو ختم تو کیا‘ کنٹرول بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور اِسے کنٹرول کرنا بھی لازم ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو کم و بیش تمام ہی معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ شخصیت میں سب سے زیادہ خرابیاں خود پسندی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ جب انسان خود کو باقی دنیا سے غیر معمولی حد تک منفرد اور برتر تصور کرتا ہے تب وہ مل کر چلنے کے بجائے الگ راستا نکالتا ہے اور تنہا سفر کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ معاشرہ اشتراکِ عمل سے عبارت ہے۔ زندگی بہت حد تک تنہا بھی بسر کی جاسکتی ہے مگر ایسا کرنا کسی بھی اعتبار سے کوئی مستحسن عمل نہیں۔ انسان کا بھلا مل جل کر رہنے ہی میں ہے۔ مل جل کر رہنے اور اشتراکِ عمل یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ انسان دوسروں کو بھی باصلاحیت تسلیم کرے، اُن کی مہارت کا معترف اور قدر دان ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر کسی سے بھی مدد لی جاسکے۔ انسان سارے کام تنہا نہیں کرسکتا۔ بعض معاملات میں اُسے دوسروں سے مدد درکار ہوتی ہے۔ جب تک دوسرے مدد نہ کریں‘ تب تک اُس کا کام نہیں ہو پاتا۔ حقیقی اشتراکِ عمل معاشرے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ مل جل کر رہنے کا یہی تو فائدہ ہے کہ انسان بہت سے کام خود کرنے سے بچ جاتا ہے۔ اِسی طور وہ دوسروں کے لیے بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو پاتا ہے جب انسان خود پسندی کے دام سے نکل کر حقیقت پسندی کے ساتھ دوسروں کو بھی دل کی گہرائی سے قبول کرے۔ خود پسندی راہ میں کھڑی ہو تو انسان دوسروں کو پورے اخلاص اور دیانت کے ساتھ قبول نہیں کر پاتا۔ اپنی ذات ہی کو بہت کچھ گرداننے والے گھل مل کر رہنے پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ اُن کے ذہن میں ہر وقت مختلف النوع منفی خیالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ کوئی اگر دستِ تعاون دراز بھی کرے تو وہ کچھ کا کچھ سمجھتے ہیں اور خاطر خواہ ردعمل نہیں دے پاتے۔
زندگی ڈھنگ سے اُسی وقت بسر ہو پاتی ہے جب انسان صرف اپنی ذات تک محدود نہ رہے، خود کو عقلِ کُل نہ سمجھے اور دوسروں کی لیاقت و محنت کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اُن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر رضامند ہو۔ ایسا حقیقی مفہوم میں تو کم ہی ہو پاتا ہے۔ عمومی سطح پر ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک خود پسندی ہوتی ہے جو اُسے کھل کر دوسروں کا ہونے سے روکتی رہتی ہے۔ اپنے وجود کو اہمیت دینا کوئی بہت بری بات نہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے اہمیت دی جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ لیاقت پیدا کی جائے، محنت کی جائے۔ استعدادِ کار میں اضافہ کیے بغیر یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ کوئی اہمیت دے۔ ایسی صورت میں مطلوب نتائج نہ ملنے پر بلا جواز مایوسی پیدا ہوتی ہے جو انسان کو چڑچڑا بنادیتی ہے۔ اپنی خوبیوں پر ناز کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں کا علم و اعتراف بھی لازم ہے۔ یہ ہوگا تو اصلاحِ احوال کی راہ نکلے گی۔ خود پسندی سے نجات حاصل کیے بغیر شخصیت کا حقیقی ارتقا ممکن نہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے ہی میں انسان کی فلاح مضمر ہے۔