زندگی ایک کھیل ہے۔ جو اِس کھیل کے لیے میدان میں اترتے ہیں وہ یہ بات ذہن نشین رکھتے ہیں کہ اِس کھیل میں کامیابی اُسی وقت ممکن ہے جب دَم لگایا جائے‘ پوری قوت صرف کرکے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہ نکتہ قدم قدم پر ذہن نشین رہے کہ زندگی کھیل ہے مگر اِسے کھیل نہیں سمجھنا۔ یہ کھیل سنجیدگی سے شروع ہوکر سنجیدگی پر ختم ہوتا ہے۔ جس نے کھلنڈرے پن کا مظاہرہ کیا ‘وہ برباد ہوا۔ زندگی کا کھیل بھی ہمیں کھیلنا ہے، کھلاڑی بھی بننا ہے اور سنجیدگی کا دامن بھی کسی صورت نہیں چھوڑنا۔
مغربی معاشروں نے جب فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت کی طرف سفر شروع کیا تب بہت سی معاشرتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی گئیں۔ فطری علوم و فنون میں درجۂ کمال تک پہنچنے کا عمل لاشعوری یا تحت الشعوری طور پر معاشرتی تبدیلیوں کی راہ بھی ہموار کرتا جاتا ہے کیونکہ علوم و فنون میں پیش رفت سے بہت کچھ ایجاد یا دریافت ہوتا جاتا ہے اور یہ سب کچھ زندگی کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ جب بہت سی نئی چیزیں ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہیں تو اُن کے استعمال کے لازمی نتیجے کے طور پر طرزِ فکر و عمل بھی تبدیل ہوتی ہے۔ انفرادی رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بلکہ پیچیدگیاں رفتہ رفتہ پورے معاشرے پر محیط ہوتی جاتی ہیں اور یوں پورے کے پورے معاشرے تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مغرب کے دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طرزِ فکر و عمل میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اِن تبدیلیوں کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کی جائے۔ امریکا اور یورپ نے چار پانچ صدیوں کے دوران جو کچھ بھی پایا ہے اُس کے عوض بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ سوچنے کا ڈھنگ ہی تبدیل ہوگیا۔ جب سوچ بدلی تو عمل بھی تبدیل ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فطری علوم و فنون میں پیش رفت نے صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ صنعتی انقلاب کے برپا ہونے پر معاشرتی انقلاب کو برپا ہونے سے بھی روکا نہ جاسکا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی معاشروں میں بہت تیزی سے رونما ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوششوں کا آغاز ہوا اور اس کے نتیجے میں نئی سوچ ابھری۔ یہ سوچ تھی شخصی آزادی کی۔ امریکا سے قبل یورپ میں شخصی آزادی کا تصور پروان چڑھا، یعنی یہ کہ ہر انسان کو اپنی مرضی، صلاحیت اور سکت کے اعتبار سے زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور یہ کہ فرد کو آزادی دے کر معاشی اور معاشرتی سطح پر حقیقی انقلاب یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
شخصی آزادی کے تصور کو منطقی انداز سے پروان چڑھانے کے لیے لازم ٹھہرا کہ فرد کو معاشرے میں کسی نمایاں مقام تک پہنچنے کے قابل بنانے کے لیے ایسی آزادی دی جائے جس کے نتیجے میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ یہ پورے معاملے کا صرف ایک پہلو تھا۔ دوسرا اہم پہلو تھا فرد میں بھرپور اعتماد پیدا کرنا۔ کوئی بھی انسان کچھ بھی کر دکھانے کے قابل اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُسے حقیقی اعتماد کی دولت سے ہم کنار کیا جائے۔ خود اعتمادی یقینی بنانے کے لیے احساسِ ذمہ داری کو بڑھاوا دینے کی تحریک شروع ہوئی۔شخصی آزادی کو پروان چڑھانا اور کماحقہٗ بروئے کار لانا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان میں غیر معمولی عزتِ نفس، خود داری اور اعتماد سبھی کچھ ہو۔ یہ سب کچھ خود بخود پیدا نہیں ہو جاتا، ریاضت کے ذریعے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ مغرب میں اِس طرف چونکہ غیر معمولی توجہ دی گئی اِس لیے وہاں سوچنے اور لکھنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ سوچنے اور لکھنے والوں نے عام آدمی کو عزتِ نفس، اعتماد اور احساسِ ذمہ داری کے حوالے سے خاصی غیر معمولی اور وقیع تربیت دی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ معاشروں میں انفرادی سطح پر مثالی نوعیت کا احساسِ ذمہ داری پیدا ہوا۔ عام آدمی نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اگر وہ احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا تو کچھ کرسکے گا‘ کچھ بن سکے گا۔ یہ سوچ بے بنیاد یا بلا جواز نہ تھی۔ عشروں بلکہ صدیوں کی محنت سے ذہن سازی کی گئی تھی۔
معروف دانشور نیتھینل برینڈن (Nathaniel Branden) کی زندگی عزتِ نفس، احساسِ ذمہ داری اور اعتماد کو پروان چڑھانے والی تحریریں دیتے گزری۔ اُنہوں نے ہمیشہ اِس نکتے پر زور دیا کہ انسان کو کسی بھی حال میں اپنی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے یعنی یہ کہ جہاں آگے بڑھ کر کچھ کرنا پڑے وہاں پیچھے ہٹنے یا آگے نہ بڑھنے کا آپشن نہیں ہوتا۔ آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہی پڑتا ہے تاکہ لوگ فرق محسوس کریں اور دل کو بھی طمانیت کا احساس ہو۔ نیتھینل برینڈن نے معروف دانشور این رینڈ (Ayn Rand) کے ساتھ بھی کام کیا اور کئی اچھی کتابیں دیں۔ بعد میں انہوں نے این رینڈ سے الگ ہوکر بھی کام کیا اور عزتِ نفس و اعتماد کے موضوع پر کئی شاندار اور یادگار کتابیں دیں۔ اپنی کتاب ''ٹیکنگ رسپانسبلٹی‘‘ میں برینڈن لکھتے ہیں کہ بہت سے کام محض اس لیے اٹک جاتے ہیں یا شروع ہی نہیں ہو پاتے کہ کوئی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھتا۔ کسی نہ کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ عمومی سطح پر لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے گھبراتے ہیں اس لیے ابتدائی مرحلے میں آگے بڑھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ بہت سے اچھے آئیڈیاز ذہنوں ہی میں رہ جاتے ہیں۔ بہت سے شاندار مواقع محض اس لیے ضایع ہو جاتے ہیں کہ متعلقین سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کوئی آگے بڑھے، ابتدا کرے تو کچھ کیا جائے۔ جب کوئی آگے نہیں بڑھتا تو موقع ضایع ہو جاتا ہے۔
نیتھینیل برینڈن اور این رینڈ کی دی ہوئی سوچ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی ذات اور معاشرے کے لیے اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ جس وقت جو کچھ کرنا لازم ہو اُس وقت وہ سب کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ نہ کیا جائے تو کسر رہ جاتی ہے، وقت گزر جاتا ہے، موقع ضایع ہو جاتا ہے۔ آپ اپنے ماحول میں ایسی بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں کہ کسی کے لیے کوئی اچھا موقع آیا مگر اُس نے ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے گریز کیا، آگے بڑھنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہ کی اور یوں کسی نئے خیال کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ کسی بھی ماحول میں حقیقی مطلوب تبدیلی اُسی وقت رونما ہوتی ہے جب اُس ماحول میں موجود تمام افراد انفرادی سطح پر ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کریں۔مغربی معاشرے میں شخصی آزادی اگر غیر معمولی سطح پر دکھائی دیتی ہے تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وہاں فرد پورے معاشرے کے بارے میں سوچتا ہے۔ ریاست اُس کی فکر کرتی ہے تو وہ بھی ریاست کی بھلائی کے لیے فکر مند رہتا ہے۔ سب اپنے حصے کا کام کرتے ہیں تو بات بنتی ہے۔ اگر ہر فرد یہ محسوس کرنے لگے کہ جب وہ کچھ کرے گا تب ہی ماحول بہتر ہوگا تو بہت کچھ بہتر ہونے لگتا ہے۔ دوسروں کا انتظار کرتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کرتے رہنا کسی بھی حال میں کوئی ایسا عمل نہیں جسے بخوشی اپنایا جائے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آگے بڑھ کر ذمہ داری قبول کریں۔ کسی بھی کام کی ابتدا میں تاخیر ہو تو معاملات اپنی مرضی کے مطابق نہیں رہتے۔ آپ ہی سوچیے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ جہاں آپ کو احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے وہاں کسی اور سے پہلا قدم اٹھانے کی توقع مت رکھیے اور اپنے حصے کا کام کرجائیے۔ اِسی میں زندگی کا حُسن مضمر ہے۔ کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو کسی بھی معاملے میں ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘ اپنا حق ادا کرتے ہیں۔ زندگی اُسی طور گزاری جانی چاہیے جس طور کسی کھیل میں حصہ لیا جاتا ہے۔ مگر ہاں! کھلواڑ کی گنجائش نہیں۔ اپنے حصے کا کام نہ کیا تو ایسا کرنا اپنے امکانات سے کھلواڑ ہی کہلائے گا۔ کسی بھی کامیاب انسان کے بارے میں پڑھ دیکھیے۔ آپ کو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ بھرپور کامیابی اُسی وقت ملتی ہے جب انسان اپنے حصے کا کام کرنے اور اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔