زخم چھوٹا ہو یا بڑا، علاج نہ کیا جائے تو اُسے ناسور بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ بہت سے معمولی زخموں کو ہم نے یوں پالا ہے کہ اب وہ ناسور بن چکے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ ناسور یوں ہمارے من بھائے ہیں کہ اِن سے چھٹکارا پانا کسی طور ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ کسی بھی ناسور سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ صرف اُسے محسوس نہ کیا جائے بلکہ اُس سے چھٹکارا پانے کی ضرورت بھی محسوس کی جائے۔
معاملات کو ٹالتے رہنا نفسی ساخت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ پھر ہمیں زندگی بھر اس بُری عادت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی چند نمایاں ترین خرابیوں میں سے ایک ہے ٹال مٹول۔ اس وقت پوری قوم اس بُری عادت کو محض اپنائے ہوئے نہیں ہے بلکہ اِس کے خبط میں مبتلا ہے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ معاملات کو ٹالتے رہنے سے وہ درست ہو جاتے ہیں۔ ہر پس ماندہ معاشرے کا یہی المیہ ہے۔ وہ ایسے تمام معاملات کو ٹالتا رہتا ہے جن کا فوری درست کیا جانا لازم ہو۔ اس قبیح عادت کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہ ہم سے زیادہ کون جانے گا؟ ایک زمانے سے ہم ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاملات خطرناک بلکہ تباہ کن حد تک بگڑ چکے ہیں۔
ٹال مٹول کی بیماری کیوں پنپتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں بہت سی وجوہ بیان کی جاسکتی ہیں۔ ایک بنیادی وجہ ہے کسی اچھے موقع کا انتظار۔ کیسا لگے گا اگر ہم دریا کے کنارے کھڑے ہوکر یہ سوچیں کہ بہاؤ کچھ دیر کے لیے رک جائے، زمین دکھائی دے تو ہم دریا پار کریں؟ اچھے لفظوں میں اِسے خوش فہمی کہا جائے گا اور براہِ راست بیان کیجیے تو یہ حماقت کہلائے گی۔ جو معاملہ دریا پار کرنے کا ہے وہی کم و بیش ہر معاملے کا ہے۔ ہم موزوں لمحہ یا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں، عمل سے گریز پر مبنی رویہ اپنایا جاتا رہتا ہے اور وقت گزر جاتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ؟ صرف تاسّف، اور کیا؟ ؎
یاد رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے
سب چلے جاتے ہیں‘ کب دردِ جگر جاتا ہے
جی ہاں! موزوں وقت یا موقع کا انتظار کرتے رہنے سے اور کچھ ہو نہ ہو، بعد میں تاسّف کے دریا میں غوطے لگانے کا آپشن ضرور باقی رہتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کھیل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ ہم سنہری موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ تو آکر گزر بھی جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے کی درستی کے لیے موزوں ترین لمحے کا انتظار دراصل اس معاملے کو مزید بگاڑنے کا باعث بنتا ہے۔
معاملہ انفرادی زندگی کا ہو یا اجتماعی زندگی کا، شخصی ارتقا کا ہو یا قومی ترقی کا، معیشت کا ہو یا معاشرت کا، سیاست کا ہو یا سفارت کا... ہر معاملہ ہم سے کماحقہٗ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں اپنی صلاحیت و سکت کو آزمانے کے لیے ایک طرف تو موزوں ترین لمحے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور پھر عمل نواز رویہ بھی پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ کام کرنے کی غیر معمولی لگن ہی ہمیں کچھ کرنے کی راہ سُجھاتی ہے۔ جس میں یہ لگن ہوتی ہے‘ صاف دکھائی بھی دیتی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی میں کام کرنے کی لگن توانا ہو اور اُس کی زندگی اوروں کی زندگی سے مختلف دکھائی نہ دے۔ جو واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ الگ ہی رنگ ڈھنگ کے ہوتے ہیں۔ اُن کی گفتگو بھی الگ ہوتی ہے اور چال بھی۔ وہ اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ روئے ارض پر سانسوں کی شکل میں دی گئی مہلت کو وہ کماحقہٗ بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت ٹال مٹول کی منزل میں اٹکا ہوا ہے۔ لوگ بہت کچھ دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں اور کرنا بھی چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مختلف حوالوں سے خدشات ذہنوں میں پنپتے ہی نہیں رہتے بلکہ کام کرنے کی لگن کو دیمک کی طرح چاٹتے بھی رہتے ہیں۔ جہاں تھوڑا بہت مال بھی لگایا جانا ہو وہاں انسان ٹال مٹول سے کام لیتا رہتا ہے۔ یہ رویہ کبھی تیاری میں کمی کے بہانے ہوتا ہے اور کبھی حالات کی نزاکت کے نام پر۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہو اُس کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ حالات اُس کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ تیاری میں کمی کا بہانہ بناکر خود کو عمل سے دور رکھنا کسی بھی اعتبار سے کوئی قابلِ تعریف طرزِ فکر و عمل نہیں۔ جسے کچھ کرنا ہو وہ اچھے یا موزوں وقت کا انتظار نہیں کرتا۔ ایسا ہر انسان میدان میں آکر اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور اِس کا پھل بھی پاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوا کرتی تھی۔ تب کسی بھی کام کی ابتدا کے لیے لوگ ہفتے (سنیچر) کا انتظار کرتے تھے۔ تب اگر کسی سے منگل یا بدھ کو پوچھا جاتا کہ فلاں کام شروع کیوں نہیں کیا تو جواب ملتا تھا ''بس‘ ہفتے سے شروع کروں گا!‘‘ معاملات اب بھی وہی ہیں، بس دن بدل گیا ہے۔ اب کسی سے بھی پوچھئے کہ بھائی! یہ کام کب شروع کروگے؟ تو جواب ملتا ہے ''پیر سے شروع کروں گا!‘‘ ہفتے کی غلامی اب پیر کی مُریدی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ آج پوری قوم ہفتے کے باقی دن چھوڑ کر پیر کو پیر و مُرشد مان چکی ہے۔ جس طور بعض لوگ بیشتر معاملات کو اگلے جہان پر اٹھا رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح اب کم و بیش ہر معاملے کو پیر پر اٹھادیا جاتا ہے۔ ٹال مٹول کی عادت نے ہمیں پیر کی مُریدی کے جال میں ایسا پھنسایا ہے کہ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
ایمان کی تو یہ ہے کہ اب مزید وقت ضایع کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ خیر! یہ گنجائش تو کسی بھی عہد میں نہیں رہی۔ اب معاملہ تھوڑا سا مختلف یوں ہے کہ جس نے تساہل کو شعار بنایا، غفلت کا شکار رہا اور ٹال مٹول کا اسیر ہوا وہ دوسروں سے دو چار دن یا ہفتے نہیں بلکہ کئی سال پیچھے رہ گیا۔ اقوام کی بات کیجیے تو ٹال مٹول کئی عشرے پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ ایسی حالت میں اپنی اصلاح کرنا اور دوسروں کے برابر کھڑے ہونے کے قابل ہو پانا انتہائی جاں گُسل ثابت ہوتا ہے۔
زندگی کا انتہائی بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہم بھرپور لگن کے ساتھ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لائیں اور اس معاملے میں ٹال مٹول کی روش بالکل ترک کردیں۔ اس روش پر گامزن رہنے والے اچھی زندگی تو خیر کیا بسر کریں گے، بقا یقینی بنانے میں بھی بمشکل کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اگر کسی کو ڈھنگ سے جینا ہے تو سوچ کا بدلنا لازم ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ عمل پسند رویہ اپنانا بھی ناگزیر ہے۔ زندگی صرف اُن کی ہو رہتی ہے جو اُسے محض گلے لگانا ہی نہیں چاہتے بلکہ اِس کی بھرپور تیاری بھی کرتے ہیں۔ معیاری انداز سے جینے کی تیاری کے لیے لازم ہے کہ کام کرنے کی لگن محض پیدا نہ کی جائے بلکہ اُسے مستقل بنیاد پر پروان بھی چڑھایا جائے۔ کسی بھی شعبے میں بامقصد طریقے سے کچھ بھی کرنا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم کام کرنے کی غیر معمولی لگن کے حامل ہوں اور یہ ساری تیاری اُس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب ٹال مٹول کا زہر فکر و عمل کی رگوں سے نچوڑ کر پھینک دیا جائے۔ ماحول کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سوں نے اچھی زندگی کی تیاری کی مگر محض ٹال مٹول کی عادت نے اُنہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ ساری کی ساری تیاری دھری رہ گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر پائے۔ خوب غور و فکر کے نتیجے میں منصوبہ سازی کے بعد میدانِ عمل میں اترنا لازم ہے۔ عمل پسند رویہ اپنائے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ منصوبہ سازی کیسی ہی جامع اور بے داغ ہو، عمل کے بغیر مطلوب نتائج دے ہی نہیں سکتی۔ٹال مٹول کا طوق گردن سے اتار پھینکئے۔ پیر کی مُریدی ترک کیجیے اور جو کچھ بھی کرنا ہے‘ وہ ابھی سے کرنا شروع کیجیے۔ یہی ایک راستہ ہے جو آپ کو دوسروں سے نمایاں ہی نہیں کرے گا بلکہ مثالی نوعیت کی کامیابی کی طرف بھی لے جائے گا۔