معاملات صرف ایک مقام پر آکر رک جاتے ہیں۔ یہ مقام کوئی اور نہیں‘ آپ خود ہیں۔ جی ہاں! ہر معاملہ گھوم پھر کر آپ تک آتا ہے اور رک جاتا ہے۔ آپ کی مرضی ہو تو بات آگے بڑھے، ورنہ آپ تک پہنچ کر دم توڑ دے۔ کہنے کو انسان بے بس، بے اختیار اور مجبورِ محض ہے مگر در حقیقت بہت کچھ ہے جو انسان کے ہاتھ میں ہے اور رہے گا۔ کسی بھی انسان کو بہتر زندگی بسر کرنے کا آپشن اختیار کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔ جس قوت نے ہمیں خلق کیا ہے وہ ہمارا بھلا ہی تو چاہتی ہے۔ ہم اچھی طرح کیسے جئیں یہ بات بھی قدرت نے ہماری نفسی اور فکری ساخت میں ودیعت کردی ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں۔ کوئی بھی یہ دعویٰ کرتے ہوئے مظلومیت کا لبادہ نہیں اوڑھ سکتا کہ اُس کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہ تھا۔ اختیار ہم سب کو ملا ہے۔ یہ اختیار کتنا ہے اور کن معاملات تک محدود ہے اِس پر البتہ بحث کی جاسکتی ہے۔ ہمیں زندگی بھر آپشنز ملتے رہتے ہیں۔ یہ آپشنز ہی ہمارے لیے اصل چیلنج ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال میں ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ کیا کرنا چاہیے اِس حوالے سے ذہن سازی ہمارے لیے لازم ہے۔ ہم زندگی بھر اس حقیقت سے متصادم رہتے ہیں کہ ہمیں بہت کچھ کرنے کا اختیار سونپا گیا ہے۔ اس حقیقت سے متصادم رہنے کے بجائے اِسے گلے لگانا چاہیے۔ کسی بھی صورتِ حال میں کئی آپشنز کا ہونا ہمارے لیے ذہنی الجھن کا باعث ضرور بنتا ہے؛ تاہم لازم ہے کہ ہم غور و فکر کی عادت ڈالیں اور بہترین آپشن منتخب کریں۔ جب ہم ذہن کو بروئے کار لاتے ہیں تب بہترین آپشن کے منتخب ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہم جو چاہیں وہ کرسکتے ہیں۔ کم و بیش ہر معاملے میں ہمارے لیے اچھا خاصا اختیار موجود ہوتا ہے۔ ہم اپنی پسند کی راہ منتخب کرکے اُس پر گامزن بھی ہوسکے ہیں۔ سوال پیشہ ورانہ معاملات یعنی کیریئر کا ہو یا معاشرتی تعلقات کا‘ ہر معاملے میں ہمارے پاس آپشنز کی کمی ہوتی ہے نہ اختیار کی۔ چند ایک معاملات میں ہمارے لیے اختیارات مسدود کردیے جاتے ہیں مگر اس بنیاد پر پوری زندگی کو جبر زدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہم زندگی بھر انکار اور اقرار کے مرحلے میں رہتے ہیں۔ یہ مرحلہ ہماری ذہنی صلاحیتوں کی حقیقی آزمائش ہے۔ ہمیں یومیہ بنیاد پر بھی فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور دور اندیشی کی بنیاد پر بھی۔ چند امور فوری توجہ اور فیصلوں کے طالب ہوتے ہیں اور بعض اہم معاملات ہم سے وسیع النظری اور دور اندیشی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ زندگی کا ہر معاملہ پیچیدہ نہیں ہوتا؛ تاہم چند معاملات تلوار کی دھار پر چلنے جیسے ہوتے ہیں۔ ذرا سی چُوک ہوئی اور آپ گئے کام سے۔
زندگی انکار اور اقرار دونوں سے عبارت ہے۔ جہاں انکار کرنا ہو وہاں انکار ہی زیب دیتا ہے اور جہاں اقرار لازم ہو وہاں انکار پر ڈٹے رہنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر انکار اور اقرار کے الٹ پھیر کا سامنا رہتا ہے۔ بعض معاملات میں انکار کی اہمیت زیادہ ہے اور بعض میں اقرار کی۔ یہ کھیل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ ہمیں بیشتر معاملات میں دانش و حکمت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر صورتِ حال ہمارے سامنے آپشنز رکھتی ہے۔ موزوں ترین آپشن کے لیے اقرار اور باقی تمام آپشنز کے لیے انکار لازم ہوتا ہے۔ ہمیں کب کس طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا یہ پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔ ہمیں زندگی بھر مختلف چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی بھی چھوٹا یا عمومی نوعیت کا چیلنج ہمارے لیے مشکلات پیدا نہیں کرتا۔ ہماری حقیقی آزمائش اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی بڑا چیلنج اچانک ابھر کر سامنے آتا ہے اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے‘ اس کا فیصلہ ہمیں ہی کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام ہمارے لیے کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ کسی اور کو ہماری صلاحیت و سکت اور حدود کا علم نہیں۔ کبھی کبھی انسان کسی کام کی صلاحیت اور سکت کا حامل تو ہوتا ہے مگر عمل کی طرف نہیں جاتا کیونکہ مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ عمل سے گریز کیا جائے۔ یہ روش تمام معاملات میں کام نہیں آتی کیونکہ جہاں عمل لازم ہو وہاں عمل سے گریز ہمارے لیے الجھن پیدا کرتا ہے۔ بہت سوں کا مزاج ایسا پیچیدہ ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں اگر انکار کر بیٹھیں تو پھر اُنہیں اقرار کی طرف لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ اور یہی لوگ اگر کچھ کرنے پر بضد ہوں تو اُنہیں ایسا کرنے سے روکنا بھی چھوٹا موٹا دردِ سر نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں بسر کی جانے والی زندگی محض الجھنوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ہر شعبے میں ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو محض اپنے مزاج کے باعث غیر معمولی کامیابی یقینی بنانے کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ ایسے لوگوں کا بنیادی مسئلہ اقرار و انکار کے درمیان پائے جانے والے بنیادی تکنیکی فرق کو سمجھنے میں ناکام رہنا ہے۔ ہر صورتِ حال ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم انکار اور اقرار کا موازنہ کرکے اپنے لیے موزوں ترین آپشن منتخب کریں۔ معاملہ اقرار کا ہو تو انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے میں معاملے کے کسی بھی پہلو کو انکار کے حوالے سے نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف جو صورتِ حال صرف انکار چاہتی ہے وہاں انکار سے انکار خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے۔
بیشتر معاملات میں اہمیت انکار کی ہوتی ہے۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہمیں کسی بھی صورتِ حال کے پنجرے میں بند کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ اگر ہم وقت کے موزوں ترین موڑ پر انکار نہ کریں تو بات ایسی بگڑتی ہے کہ پھر بہت محنت کرنے پر بھی بنتی نہیں۔ بہت سے مواقع پر ہچکچاہٹ پر مبنی ہمارا رویہ ہمیں انکار کی منزل سے دور لے جاتا ہے اور ہم خواہ مخواہ کسی ایسی صورتِ حال کے اسیر ہو جاتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے ہمارے حق میں نہیں جارہی ہوتی۔
اقرار و انکار کے مرحلے سے ہمیں یومیہ بنیاد پر بھی گزرنا ہوتا ہے۔ گاڑی چلانے ہی کی مثال لیجیے۔ گاڑی چلاتے وقت بیسیوں بار طے کرنا ہوتا ہے کہ کہاں رفتار گھٹانا ہے، کہاں دوسروں سے تیز ڈرائیونگ کرنی ہے۔ خالی سڑک پر کم رفتار سے کی جانے والی ڈرائیونگ ہمارے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ جہاں ٹریفک زیادہ اور قدرے بے ہنگم ہو وہاں تیز رفتاری مصیبت کھڑی کردیتی ہے۔ اِسی طور روزمرہ استعمال کی اشیا خریدتے وقت بھی ہمیں اقرار و انکار کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اصل مشکل اُس وقت کھڑی ہوتی ہے جب زندگی پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہونے والے فیصلے کرنے کے لیے ہمیں کہیں انکار اور کہیں اقرار سے کام لینا ہوتا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ کوئی ایک غلط فیصلہ کیریئر پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بالکل اِسی طور درست فیصلہ ہمارے لیے بہت سے فوائد یقینی بناتا ہے۔ اقرار و انکار کے مرحلے سے بخوبی گزرنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ مزاج کی تہذیب بھی لازم ہوتی ہے۔
ہم بہت سے معاملات میں محض اپنے مزاج کی بنیاد پر غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔ جہاں دانش و حکمت سے کام لینا لازم ہو وہاں مزاج کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی۔ ہمارے مزاج میں پائی جانے والی کجی دانش کے فوائد کو بھی ٹھکانے لگادیتی ہے۔ جو یہ طے کرچکے ہیں کہ زندگی بامقصد انداز سے بسر کرنی ہے یعنی کچھ بننا اور کچھ کر دکھانا ہے اُن کے لیے لازم ہے کہ اپنے مزاج میں پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کریں، ناپختگی سے جان چھڑائیں اور کم و بیش تمام معاملات میں دانش و حکمت سے مستفیض ہونے کی عادت کو پروان چڑھائیں۔ جہاں انکار لازم ہو وہاں انکار ہی کیا جائے اور جہاں اقرار کیے بغیر کام نہ بنتا ہو وہاں انکار سے یکسر گریز کیا جائے۔ اس معاملے میں غیر جانبدار اور مثبت سوچ کا بنیادی کردار ہے۔ مثبت اور تعمیری سوچ ہی ہمیں اقرار و انکار کا فرق سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ ہنر بھی از خود نہیں آتا‘ پورے انہماک اور جاں فشانی سے سیکھنا پڑتا ہے۔