"MIK" (space) message & send to 7575

پوچھنے والے جیتے

علم کا حصول ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس پیچیدہ عمل کو آسان بنانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ ایک اچھا اور آزمودہ طریقہ ہے سوال کرنا۔ سوال کرنا ایک فن ہے جس میں مہارت کے ذریعے انسان کسی بھی شعبے سے متعلق بنیادی باتیں تیزی سے اور اچھی طرح جان سکتا ہے۔ سوالوں کے ذریعے صرف معلومات یا علم ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ ان کی مدد سے دوسروں کو بہت کچھ کرنے کی تحریک بھی دی جاسکتی ہے، لوگوں سے احسن طریقے سے جُڑا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اپنے ذہن میں ابھرنے والے خیالات کو دوسروں تک آسانی سے پہنچا سکتا ہے۔ کسی بھی کورٹ روم میں بیٹھ کر دیکھیے! فریقین کے وکلا سوالوں ہی کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر جج کو بیچ میں بولنا پڑے تو وہ بھی سوال ہی کا سہارا لیتا ہے۔ یاد رکھیے! اگر آپ کو دوسروں سے کچھ جاننا ہے تو اُن کے سامنے حقائق بیان کرنے سے گریز کیجیے اور سوالوں کی مدد سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں کو متاثر کرنا یا کچھ کرنے کی تحریک دینا چاہتے ہیں وہ دوسروں کو سُننے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور دوسروں کو سُننے کا حقیقی لطف اُس وقت ہے جب اُن سے سوال کیے جائیں۔ درست سوال ہی درست معلومات کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔
فی زمانہ کسی بھی معاملے میں مطلوب معلومات تک پہنچنے کے بہت سے ذرائع ہیں۔ ہم انٹر نیٹ کے ذریعے بھی بہت کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ کتابوں اور سمعی و بصری مواد کے ذریعے بھی بہت کچھ جانا جاسکتا ہے گوکہ انتخاب کا مرحلہ ہمارے لیے الجھنیں ضرور پیدا کرتا ہے۔ کسی انسان سے براہِ راست کچھ معلوم کرنا البتہ اب بھی ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ کسی سے کچھ بھی معلوم کرنے کے لیے درست ترین سوالوں کا ہونا لازم ہے۔ سوال کی درستی ہی معلومات کی درستی یقینی بناتی ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عمومی سطح پر بہت سے لوگ از خود کچھ زیادہ بیان نہیں کر پاتے اور دوسری طرف بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ بولنے پر آتے ہیں تو سوچے اور سمجھے بغیر بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں کام کی باتیں آسانی سے معلوم نہیں ہو پاتیں۔ سوال ہی وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر ہم مطلوب معلومات تک پہنچتے ہیں۔بالکل درست اور متوازن سوالات انسان کو درست معلومات فراہم کرنے کی راہ سُجھاتے ہیں۔ ہر انسان کے ذہن میں بہت کچھ بھرا ہوتا ہے۔ اگر اُس سے کسی موضوع پر کچھ کہنے کو کہا جائے تو وہ شروع ہو جاتا ہے اور جو بھی خیال ذہن کے پردے پر ابھرے‘ بیان کردیتا ہے۔ سوالات موزوں ہوں اور بروقت پوچھے جائیں تو متعلقہ فرد صرف وہی کچھ بیان کرتا ہے جو ہمیں جاننا ہو۔ انٹرویو کے دوران سوالات ہی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ اُنہی کے ذریعے مطلوب معلومات حاصل ہو پاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو دے رہا ہو تو انٹرویو کرنے والا فرد یا پینل وہی کچھ پوچھتا ہے جس سے امیدوار کی شخصیت کھل کر سامنے آئے، اُس کی قابلیت کا درست اندازہ ہو اور یہ بھی کہ اُس میں کام کرنے کی لگن کس حد تک ہے۔ انٹرویو کرنے والا پینل اگر امیدوار کی ذاتی پسند و ناپسند میں الجھ کر رہ جائے تو مطلوب معلومات نہیں مل پاتیں۔ اگر کسی معروف اور اپنے شعبے کی انتہائی کامیاب شخصیت کا انٹرویو کیا جارہا ہو تو سوالات کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اُس نے بھرپور محنت کرنے کی لگن اپنے اندر کس طور پیدا کی اور وہ استعداد کس طور حاصل کی جو کامیابی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہے۔
گفتگو کے دوران یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ وہی سوالات کارگر ثابت ہوتے ہیں جو کسی کو بولنے کی تحریک دیں۔ ہمیں اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمیں معلوم کیا کرنا ہے۔ جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں تو پھر سوالات کا تعین بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ گفتگو کے دوران اُس سے ایسے سوال کیے جائیں جو اُسے اِدھر اُدھر لے جانے کے بجائے راہِ راست پر رکھیں۔ موضوع کے اعتبار سے موزوں ترین سوال انسان کو ڈھنگ سے بہت کچھ بیان کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ سوال صرف کورٹ روم یا ملازمت کے لیے انٹرویو کا نہیں‘ ہر معاملے میں موزوں ترین سوالات ہی ہماری راہ آسان کرتے ہیں۔ کسی کے پاس بولنے کے لیے بہت کچھ ہو بھی تو وہ سب کا سب ہمارے کام کا نہیں ہوتا۔ اگر ناموزوں سوالوں کے ذریعے کسی کو بولنے کی تحریک دی جائے تو مطلوب معلومات مشکل سے حاصل ہو پاتی ہیں۔ اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ دو ڈھائی گھنٹے کی گفتگو میں بھی کام کی چند ہی باتیں معلوم ہو پاتی ہیں۔ اگر ہم سوال کرنے کا ہنر جانتے ہوں تو روزمرہ ملاقاتیں بھی بہت کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔ یومیہ بنیاد پر ہونے والی ملاقاتوں سے بھی ہمیں بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہو کہ ہمیں معلوم کیا کرنا ہے اور اُس کے لیے موزوں ترین سوالات کیا ہوسکتے ہیں۔
ہر ملاقات ایک انٹرویو ہی تو ہوتی ہے۔ معاملہ معاشی ہو یا معاشرتی‘ ہر ملاقات ہمارے لیے ایسے انٹرویو کا درجہ رکھتی ہے جس کی مدد سے ہمیں کام کی بہت سی باتیں معلوم ہوسکتی ہیں۔ موزوں ترین سوالات ہماری مشکل آسان کرتے ہیں۔ جب ہم کچھ معلوم کرنے کا ذہن بناتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ کس مرحلے پر کون سا سوال پوچھنا ہے۔ بہت سے لوگ بیان تو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر اُنہیں غیر محسوس طور پر سوالوں کی حاجت رہتی ہے۔ جب کوئی کچھ پوچھتا ہے تو وہ بولنے پر مائل ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ذہنی پیچیدگی نہیں‘ انسانی فطرت کا اہم جُز ہے۔ کچھ لوگوں کی تربیت ہی اِس ڈھب سے کی جاتی ہے کہ وہ بلا ضرورت بولنے سے گریز کرتے ہیں اور جب موزوں ترین سوالات کے ذریعے کچھ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب وہ ما فی الضمیر بیان کرنے کی بھرپور تحریک پاتے ہیں۔
سوالات کب کام نہیں آتے؟ کلاس روم میں بھی وہی طلبہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو ٹیچر سے موزوں ترین سوال کرکے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والا اشکال دور کرتے ہیں۔ ٹیچر کے ذہن میں بہت کچھ ہوتا ہے کیونکہ پڑھنا اور پڑھانا ہی اُس کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ بتانا چاہتا ہے مگر اپنے طور پر تو وہ کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔ اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ طلبہ کیا جاننا چاہتے ہیں۔ اگر وہ طلبہ کی ضرورت سمجھے بغیر بولنا شروع کرے گا تو اپنا اور اُن کا وقت ہی ضائع کرے گا۔ تعلیم و تعلّم کے مرحلے میں اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ کن باتوں کا ابلاغ کیا جانا ہے۔ طلبہ کو اپنے نصاب سے متعلق اہم ترین سوالات ذہن میں ترتیب دینے چاہئیں تاکہ ٹیچر سے گفتگو کرتے وقت غیر ضروری باتوں سے بچنا ممکن ہو۔ ٹیچر بھی اُنہی طلبہ کو پسند کرتے ہیں جو اچھی تیاری کے ساتھ اُن سے گفتگو کریں۔ ایسے طلبہ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کیا معلوم کرنا ہے اور کس طور اپنے اور ٹیچر کے وقت اور توانائی کا ضیاع روکنا ہے۔ بچوں کو اگر اسکول کی سطح پر سوال کرنے کی عادت ہو تو یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ کر وہ ٹیچر سے کام کی باتیں معلوم کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں۔ سوال کرنے کی عادت اچھی گفتگو کا فن بھی پروان چڑھاتی ہے۔
گفتگو کو بے ربط اور غیر مطلوب باتوں کا ملغوبہ بننے سے روکنا اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہمیں درست اندازہ ہو کہ جاننا کیا ہے۔ مطلوب معلومات کے حصول کے لیے موزوں ترین سوالوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج کی دنیا عملاً معلومات کا سمندر ہے۔ ایسے میں اپنے مطلب کی معلومات تک پہنچنا آسان نہیں۔ اس مرحلے سے بطریقِ احسن گزرنے میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ذہن بنانے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ ذہن بنانے کا مطلب ہے سوالات کا تعین۔ بہت سی باتیں کام کی تو ہوتی ہیں مگر ہمارے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ ایسی باتیں جاننا ہمارے لیے لازم ہی نہیں۔ ہمیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہمارے کام کا ہے وہ ہمارے کان میں پڑے اور ذہن تک پہنچے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں