صد شکر کہ کراچی میں پایا جانے والا انتہائی خوف کا ماحول ختم ہوچکا ہے۔ معاشی پریشانیاں اور اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لُوٹ مار‘ چھینا جھپٹی اور نفع خوری جیسی چند برائیاں برقرار ہیں‘ تاہم اصل مسئلہ حل ہوچکا ہے یعنی لوگ قدرے بے خوف ہوکر جی رہے ہیں۔
جب کراچی میں ہر طرف خوف کا راج تھا تب مافیا نما سیٹ اپ سے ٹکرانے کی ہمت کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں کرتی تھی۔ ایسے میں مذہبی جماعتیں حق ادا کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اُن کا تنظیمی ڈھانچہ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ ناحق کے خلاف بولنا فطری سا ہو جاتا ہے۔ کراچی کے مسائل کی نشاندہی اور عوام میں اپنے حقوق کا شعور بیدار کرنے میں جن مذہبی جماعتوں نے اپنا حصہ ڈالا اُن میں جماعتِ اسلامی واضح طور پر نمایاں رہی ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے اہلِ کراچی بے نیاز ہوں تو ہوں‘ لاعلم خبر ہرگز نہیں۔ اہلِ کراچی کو اُن کے حقوق سے باخبر کرنے اور اس حوالے سے متحرک کرنے کا ڈول بھی جماعتِ اسلامی ہی نے ڈالا ہے۔ جب شہر آسیب زدہ سا تھا تب سے اب تک جماعتِ اسلامی کی قیادت ہی میں وہ لوگ متحد ہوتے تھے جو کراچی کو شکنجے میں کسنے والوں کے خلاف کچھ بولنا چاہتے تھے۔ تب کچھ بولنا موت کو دعوت دینے جیسا تھا۔
کراچی کو نئی زندگی دینے سے متعلق باتوں کا موسم چل رہا ہے۔ شہر کو اُس کے حقوق سے محروم رکھنے کا نتیجہ بھی سب کے سامنے آچکا ہے۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ شہر کو نئی زندگی دینے کے حوالے سے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے۔ لوگ انتہائی بنیادی سہولتوں کو بُری طرح ترس رہے ہیں۔ جو شہر کے سٹیک ہولڈر بنے پھرتے تھے وہ اپنی جیبیں بھرکر اِدھر اُدھر ہوگئے۔ عوام نے جنہیں کم و بیش تیس سال تک شہر پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنے کا اختیار دیا وہ صرف ذاتی مفادات کی تکمیل تک محدود رہے۔ اُنہیں اس بات سے یکسر کوئی غرض نہ تھی کہ شہر اور اہلِ شہر پر کیا گزرتی ہے۔ اُنہیں اگر غرض تھی تو صرف اپنی تجوریاں بھرنے سے۔ اس کی بھی ایک حد مقرر تھی جو آچکی ہے۔ شہر کے فنڈز میں خورد برد کا معاملہ ہو یا شہری اداروں کی من مانی کے خلاف آواز اٹھانے کا‘ جماعتِ اسلامی اور اُس کی ہم خیال تنظیموں کا کردار نمایاں طور پر بے باک رہا ہے۔جب شہر پر خوف کے سائے منڈلا رہے تھے تب یعنی چار سال قبل جماعتِ اسلامی کے علاوہ تحریکِ انصاف نے بھی میدان میں آنے کا فیصلہ کیا اور شہر کو خوف و ہراس سے نجات دلانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ایسی کوشش کی جس کی افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب شہر میں نام نہاد سٹیک ہولڈرز کے خلاف کچھ کہنا اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنے جیسا تھا تب حافظ نعیم الرحمٰن اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عارف علوی اور اُن کے رفقا نے بھی میدان میں آکر قابلِ ذکر حد تک اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ دونوں جماعتوں کی یہ کوششیں کامیاب رہیں اور شہر خوف کے سائے سے نکل پایا۔
شہر کو بہت کچھ درکار ہے۔ بنیادی ڈھانچا تباہ ہوچکا ہے۔ سیاسی بے چینی پنپتی جارہی ہے۔ شہر کی انتظامی تقسیم خطرناک حد تک بڑھائی جاچکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے شہر کے معاملات کو درست کرنے کے بجائے مزید بگاڑنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر کے معاملات پر کم و بیش چار عشروں سے متصرف رہتے ہوئے پیپلز پارٹی نے ایسا کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں شہرِ قائد کچھ بہتر ہو اور باقی صوبے کو بھی اس کا فائدہ پہنچے۔ جماعتِ اسلامی کو شہرِ قائد کی خدمت کے چند مواقع ملے ہیں اور اُس نے ثابت کیا ہے کہ پوری دیانت اور خلوص و لگن کے ساتھ کام کیا جائے تو اہلِ کراچی کے لیے ڈھنگ سے جینے کا ماحول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جماعتِ اسلامی کراچی کے اُس کے امیر نعمت اللہ خان کو سٹی ناظم بننے کا موقع ملا اور اُنہوں نے اپنی پوری مدتِ نظامت کے دوران ان تھک محنت اور بے مثال دیانت کے ساتھ شہر کو بہت کچھ دینے کی کامیاب کوشش کی۔ یہ متبادل قیادت کے لیے ابھرنے اور پنپنے کی گنجائش پیدا کرنے کا اچھا موقع تھا جو اہلِ کراچی نے بہت حد تک ضایع کیا۔ اگر اہلِ شہر نے شہر کو مافیا کی طرز پر چلانے والوں سے نجات پانے کا فیصلہ تب کرلیا ہوتا تو آج بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوتا۔ پی ٹی آئی بھی میدان میں آچکی تھی اور خود کو سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے منوانے کی خاطر اُن سے ٹکرا بھی رہی تھی جن کے خلاف کچھ بولنے سے پہلے بہت سوچنا پڑتا تھا۔ 2005ء کے آس پاس لوگوں کے سامنے آپشنز تھے۔ وہ چاہتے تو خوف کے سائے ہی میں زندہ رہنے کے بجائے بے خوف اور پُرسکون انداز سے جینے کی راہ چُن سکتے تھے۔ نعمت اللہ خان کی مدتِ نظامت ختم ہونے پر شہر کے معاملات ایک بار پھر اُنہی سٹیک ہولڈرز کو سونپ دیئے گئے جنہوں نے شہرکے معاملات درست کرنے اور لوگوں کو ڈھنگ سے جینے کا موقع دینے کے معاملے میں کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی۔ یہ موقع بھی ضائع کردیا گیا۔ اور اہلِ شہر شاید یہ بات بھی بُھول چکے ہیں کہ نام نہاد سٹیک ہولڈرز کے دورِ نظامت کے حسابات چیک کرنے کی بات آئی تو پُراسرار طور پر آگ لگی اور ریکارڈ خاکستر ہوگیا!
اب وقت آگیا ہے کہ اہلِ کراچی متبادل قیادت منتخب کریں‘ اُس پر بھروسا کریں‘ اُسے کام کرنے کا بھرپور موقع دیں۔ لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والوں نے شہر کا جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں اُنہی کو چوتھی یا پانچویں بار آزمانا آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے مترادف ہوگا۔ شہر کو نئی زندگی دینا لازم ہوچکا ہے۔ وفاق نے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان ہے۔ اس اعلان کو سُن کر بہت سوں کی رال ٹپک رہی ہے۔ یہ بالکل فطری بات ہے مگر اہلِ شہر کو بھی کچھ ایسا کرنا چاہیے جو فطری ہو۔ شہر کی قیادت کا حق اب اُن کا ہے جنہوں نے اہلِ شہر کو ان کے حقوق دلانے کے حوالے سے کھل کر میدان میں آنے کی ہمت کی ہے۔ شہر میں متبادل قیادت کے پنپنے کی گنجائش ہمیشہ رہی ہے۔ اس وقت بھی ہے۔ جماعتِ اسلامی‘ تحریکِ انصاف اور چند دوسری جماعتیں بھی میدان میں ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے لیے شہر کا نظم و نسق چلانا کوئی نیا تجربہ نہیں۔ 1980ء کے عشرے میں بھی جماعتِ اسلامی نے کراچی کو سنبھالا تھا۔ عبدالستار افغانی جیسے انتہائی دیانت دار اور درویش صفت میئر کی سربراہی میں شہر کے معاملات کو درست کرنے میں بہت حد تک مدد ملی تھی۔ پھر بالائی سطح پر کچھ اور طے کرلیا گیا اور شہر اُن کے حوالے کیا گیا جو اپنی ذات سے آگے دیکھنے کے عادی تھے نہ متمنی۔
شہر بہت بڑا ہے اور اسے ڈھنگ سے چلانا یقیناً کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ شہر کو غیر اعلانیہ طور پر تقسیم کرکے کئی جماعتوں کے حوالے کردیا جائے۔ نعمت اللہ خان نے بھی ہم خیال لوگوں کو جمع کیا تھا۔ اب پھر ایسا ہی کیا جاسکتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے ساتھ چند دوسری مذہبی جماعتوں اور دیگر سیاسی قوتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر لاکر ایک متبادل قیادت تیار کی جاسکتی ہے۔ سوال دیانت‘ خلوص اور سنجیدگی کا ہے۔ اس حوالے سے جماعتِ اسلامی کا نظم بے مثل رہا ہے۔ اہلِ شہر خود ہی سوچیں۔ بہت بڑا پیکیج دیکھ کر جن کی رال ابھی سے ٹپک رہی ہے اُنہیں مزید کوئی موقع دینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ اس وقت مسئلہ شہر کو خرابی سے دوچار کرنے والے اداروں کو نکیل ڈالنے کا ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ذاتی مفاد ایک طرف رکھ کر سوچتے ہوں اور محض دیانت دار نہیں‘ بے خوف بھی ہوں۔