"MIK" (space) message & send to 7575

افغانستان میں پھر آگ بھڑکانے کی تیاری؟

افغانستان کا بھی کیا نصیب ہے کہ کچھ دن سکون سے گزرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے یا ہونے لگتا ہے۔ افغان امن عمل پاکستان کے بھرپور تعاون سے کامیابی کی طرف تیزی سے رواں ہے۔ افغان مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے حالیہ دورۂ پاکستان نے امکانات کو توانا کیا ہے اور خدشات کی گرد بٹھائی ہے۔ یہ سب کچھ بھلا ایسی آسانی سے کیونکر ہضم کیا جاسکتا ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے کہا ہے کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کو کرسمس تک نکال لیا جانا چاہیے۔ 29فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت امریکا کو افغانستان سے اپنے فوجی مئی 2021 ء تک واپس بلانے ہیں۔ اب صدر ٹرمپ نے طے شدہ منصوبے سے بہت پہلے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کرکے معاملات کو خرابی کی طرف دھکیلنا شروع کردیا ہے۔ قومی سلامتی کے امور میں امریکی صدر کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ 2021ء کے اوائل تک افغان سرزمین پر امریکی عسکری موجودگی کو اڑھائی ہزار تک محدود کردیا جائے گا۔ یہ کٹوتی اب تک کے منصوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔ منصوبے میں اس نوعیت کی حیرت انگیز تبدیلی پر سیاسی اور سٹریٹجک امور کے تجزیہ کار بھی حیران ہیں۔ یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا شاید افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی کو صفر کی حد تک لے جانا چاہتا ہے۔ 
صدر ٹرمپ نے جو ڈرامائی اعلان کیا ہے وہ بہت حد تک انتخابی ماحول کے زیر اثر بھی ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں ہوا کہ صدر ٹرمپ کا ٹوئٹ امید ہے‘ منصوبہ یا پھر حکم۔ وہ امریکا کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔ اگر وہ چاہیں کہ اُن کے ٹوئٹ پر پوری طرح عمل ہو یعنی افغانستان سے امریکی فوجیوں کو کرسمس تک واپس بلا لیا جائے تو ایگزیکٹو آرڈر بھی دیا جاسکتا ہے۔ فوج اپنے کمانڈر انچیف کے حکم پر عمل کی پابند ہوگی۔ کانگریس کی رضامندی نہ ہو تب بھی صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے اپنی بات منواسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدارتی انتخابی مہم کے آخری لمحات میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں ایسی متنازع بات کیوں کہی ہے؟ کیا وہ افغانستان میں کوئی بڑی منفی تبدیلی یقینی بنانا چاہتے ہیں؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ 
افغانستان میں طالبان کی پوزیشن ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران خاصی کم رفتار سے مستحکم ہوتی رہی ہے۔ اگر طالبان کی پوزیشن قابلِ ذکر حد تک مضبوط نہ ہوئی ہوتی تو امریکا مذاکرات کے لیے رضامند بھی نہ ہوتا۔ طالبان ایک طرف تو یہ چاہتے ہیں کہ جو معاہدہ امریکا سے طے پایا ہے اس پر پورا عمل کیا جائے اور اگر جو بائیڈن بھی صدر منتخب ہوں تو انخلا کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ کا طالبان نے خیر مقدم کیا ہے۔ اس ٹوئٹ سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور پوزیشن زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔ اگر افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء زیادہ تیزی سے ممکن بنایا گیا تو طالبان کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ افغان حکومت سے اپنی بات منوانے کے حوالے سے زیادہ مستحکم پوزیشن میں آجائیں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا اگر طے شدہ منصوبے سے ہٹ کر کیا گیا تو خرابیاں بڑھیں گی۔ محض 80 دن میں یہ عمل مکمل کرنے کی صورت میں صورتحال خاصی پیچیدہ ہو جائے گی۔ افغانستان کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔ حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں پُرتشدد واقعات اب بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ایسے میں طالبان کو من مانی سے روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ 
عالمی عسکری اتحاد کے دیگر ارکان اب بھی طالبان سے لڑنے میں افغان حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ اگر امریکا نے تیزی سے اور پروگرام سے بہت پہلے انخلا کی کوشش کی تو عالمی عسکری اتحاد کے دیگر ارکان کے لیے بھی ایسا کرنا ناگزیر ہوگا۔ وہ لاجسٹکس‘ انٹیلی جنس اور دوسرے بہت سے امور میں امریکا پر منحصر ہیں۔ یہ ممالک امریکا کی مدد کے بغیر افغانستان میں اپنے فوجیوں کو تعینات نہیں رکھ سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے کم و بیش تمام بڑے شہر اشرف غنی حکومت کے کنٹرول میں ہیں مگر اس کے لیے معاملات اُسی وقت تک درست ہیں جب تک امریکی فوجی وہاں تعینات ہیں۔ انخلاکے معاملے میں امریکی صدر کی عجلت پسندی یورپی اتحادیوں کو بھی مشکل میں ڈال دے گی۔ امریکا کے بیشتر اتحادی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق انخلا کو ترجیح دیں گے کیونکہ ایسی صورت میں ہڑبونگ نہیں مچے گی اور معاملات کو خوش اُسلوبی سے طے کرنا آسان ہوجائے گا۔ 
سب سے بڑا مسئلہ لاجسٹکس کا ہے۔ یورپی ممالک کی بات تو بعد میں ہوگی‘ اس معاملے میں تو امریکا بھی مشکلات کا شکار رہا ہے۔ امریکی فوج کا اچھا خاصا سامان پاکستان کے ذریعے نکالا جاتا رہا ہے‘ مگر اب ایسا کرنا شاید ممکن نہ ہو کیونکہ صدر ٹرمپ نے وقت کے لحاظ سے معاملات کو بند گلی میں پہنچادیا ہے۔ عاجلانہ انخلا کسی حد تک امریکا کے لیے تو ممکن ہوسکتا ہے مگر اس کے اتحادیوں کے لیے ایسا کرنا ایسا آسان نہ ہوگا۔ اتحادیوں کا بہت سا فوجی اور غیر فوجی ساز و سامان بھی افغانستان پھنسا ہوا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ جس مشینری اور آلات کو بروقت نکالنا ممکن نہ ہوگا اُنہیں امریکا اور اُس کے اتحادی تلف کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ وہ طالبان یا کسی اور گروپ کے ہاتھ نہ لگیں اور حکومت کے خلاف استعمال کرکے مزید خرابیاں پیدا نہ کی جائیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے قبل از وقت اور مکمل انخلا کا عندیہ دیا جانا حیرت انگیز نہیں۔ وہ بظاہر یہی چاہتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ملک میں معاملات درست نہ رہیں۔ امریکا کو افغانستان کے معاملے میں شدید ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکی قیادت نے طے کرلیا ہو کہ وہاں سے نکلتے وقت ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ نئی خانہ جنگی شروع ہونے میں زیادہ وقت نہ لگے۔ اس وقت امریکا اندرونی سطح پر غیر معمولی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں وہ بیرونِ ملک اپنی ہزیمت پر پردہ ڈالنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ 
یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ کابل میں اشرف غنی کی حکومت کو طالبان زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ کٹھ پتلی حکومت ہے کیونکہ مغرب کے سہارے قائم ہے۔ اگر امریکیوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان کو منصوبے سے بہت پہلے چھوڑ دیا تو کچھ بعید نہیں کہ طالبان کابل حکومت پر دباؤ بڑھادیں اور اپنی بات منوانے کے لیے عملاً بھی کچھ کریں۔ تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کے قبل از وقت یا عاجلانہ انخلا سے طالبان کو تشدد کا گراف بلند کرنے کے لیے شہ ملے گی۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ صدارتی انتخاب کے حوالے سے اپنی کمزور پڑتی ہوئی پوزیشن کے پیش نظر کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے‘ وقتی طور پر ہی سہی‘ امریکی سیاست میں تھوڑی سی تو ہلچل مچے اور اُنہیں سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ امریکی فوج کی بیرون ملک مہم جوئی اور ہلاکتیں امریکی سیاست پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دور میں بیرون ملک عسکری سطح پر کچھ ایسا نہیں ہوا جسے وہ اپنے کھاتے میں ڈال کر کچھ کریڈٹ لے سکیں۔ انخلاکے حوالے سے صدر ٹرمپ کی ممکنہ مہم جوئی یقینی طور پر اندرونی کھپت کے لیے ہے تاکہ ووٹرز کی تھوڑی سی توجہ حاصل ہوسکے۔ اس مہم جوئی سے افغانستان میں بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ گویا ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 
پاکستان کی معاونت سے افغانستان میں امن یقینی بنانے کی کوششیں بہت حد تک کامیاب دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر کی طرف سے جاتے جاتے اچھے خاصے معاملات کو خرابی کی نذر کرنے کی کوشش کسی بھی حال میں قابلِ قبول نہیں۔ اس حوالے سے امریکی قیادت سے رابطہ کیا جانا چاہیے تاکہ معاملات کو خرابی کی طرف جانے سے سے روکا جاسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں