بہت کچھ ہے جو ہمیں ہر حال میں سہنا اور جھیلنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی قدم قدم پر امتحان لیتی ہے۔ ہر معاملے میں ہمارے لیے کسی نہ کسی حد تک آزمائش چھپی ہوتی ہے۔ بعض روزمرہ معاملات بھی ہم سے بہت کچھ طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ ایثار پہلے نمبر پر ہے‘ جس نے ایثار سے کام لینے کا ہنر سیکھا وہ سب کی نظر میں مقبول ٹھہرا۔ بہت سے معاملات چاہتے ہیں کہ ہم تحمل کی روش پر گامزن ہوں۔ یہ روش انسان کو غیر معمولی توقیر اور بڑی کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ چھوٹی موٹی آزمائشیں صرف ہمارا مقدر نہیں‘ ہر دور کے انسان کو اِن کا سامنا رہا ہے۔ اور اس مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر طے ہو پاتا ہے کہ کوئی کامیاب ہو پایا یا نہیں۔ ڈھنگ سے جینا ہے تو تحمل بنیادی شرط ہے۔ جس میں تحمل نہیں‘ وہ کبھی کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتا۔ مگر ہاں! یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کس قدر تحمل لازم ہے اور تحمل کی حد کہاں ختم ہوتی ہے۔ یہ بھی توجہ سے سیکھا جانے والا ہنر ہے۔ بہت سوں کو اس حالت میں دیکھا گیا ہے کہ تحمل کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر زندگی بھر اِس کے اسیر رہتے ہیں یعنی جہاں ذرّہ بھر تحمل سے کام نہ لینا ہو وہاں بھی کامل تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور غیر متعلق مہروں سے بھی مات کھا جاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں بھی ایسا بہت کچھ ہے جو ہمیں برداشت کرنا ہے۔ تحمل کی عادت کو پروان چڑھائے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ لوگ معمولی سی بات پر بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ بات بات پر جھنجھلا جانا، بھڑک اٹھنا کسی بھی اعتبار سے کوئی انتہائی پسندیدہ روش نہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے والوں کو بالآخر ناکامی کے گڑھے میں گرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ہر دور کے انسان کی طرح کے آج کے انسان کو بھی یومیہ بنیاد پر آزمائشوں کا سامنا رہتا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں پسند و ناپسند کے مرحلے سے گزرتا ہے۔ جو کچھ پسند نہ ہو وہ دوسروں کی خوشی کی خاطر پسند کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا، اُن کے جذبات کا احترام کرنا بہت اچھی عادت ہے مگر اس عادت کی بھی ایک منطقی حد ہے۔ جہاں یہ حد ختم ہو وہاں سے آگے اپنی بات منوانے کا معاملہ شروع ہوتا ہے۔ تحمل سے کام لیتے رہنے کی عادت اگر مزاج پر حاوی ہو جائے تو انسان ''شرما حضوری‘‘ میں یعنی کسی جواز کے بغیر بہت کچھ برداشت کرتے ہوئے الجھنوں کا سامنا کرتا رہتا ہے۔
پاکستانی قوم کا مزاج بھی بہت عجیب ہے۔ بہت سے ایسے معاملات کو بھی جھیلا جاتا رہا ہے جنہیں جھیلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یومیہ معاشی معاملات ہی لیجیے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنی آمدن کو ذہن میں رکھتے ہوئے بجٹ تیار کرتے ہیں اور اُسی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ بجٹ کے مطابق بسر کی جانے والی زندگی میں بہت کچھ معیاری ہوتا ہے کیونکہ انسان کوشش کرتا ہے کہ وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے یعنی جو کچھ بھی کمایا جائے اُس کا نعم البدل ہاتھ لگے۔ ایسے لوگ یومیہ بنیاد پر سبزی ترکاری کی خریداری میں بھی غیر معمولی ذہانت اور احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خریداری کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہماری آمدن کا نعم البدل کیا ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں کسی پر ترس کھانے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ جو بیچنے نکلا ہے اُسے بہترین ہی پیش کرنا چاہیے اور خریدار کو تو خیر دیکھنا ہی ہے کہ اُس کی آمدن کا نعم البدل کیا ہوسکتا ہے۔ اقتصادیات کی زبان میں کہیے تو یوں ہے کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے اُس کی بہترین قدر ملنی چاہیے۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے محض تحمل کافی نہیں۔ ایسا ہوتا تو آج کوئی دُکھی دکھائی نہ دیتا۔ تحمل سے جینے اور جھیلتے جانے میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق سمجھنا بھی پڑتا ہے اور اس حوالے سے اپنی روشن کا تعین بھی کرنا پڑتا ہے۔ آج ہمیں غیر معمولی مہنگائی کا سامنا ہے۔ یہ مہنگائی کچھ تو قدرتی حالات کی پیدا کردہ ہے اور کچھ ہماری اپنی طرزِ فکر و عمل کا نتیجہ ہے۔ جب ہم سوچے سمجھے بغیر خریداری کرتے ہیں تب مہنگائی کو بڑھاوا ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے ہمیں جو کچھ درکار ہے وہ ہمارے پاس ہونا ہی چاہیے مگر یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ سوچیں اور ہو جائے۔ ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ ذرا گھمائی اور جو چاہیے وہ حاضر ہوگیا۔ جو کچھ ہم دن رات ایک کرکے کماتے ہیں اُسے ذہانت اور تحمل سے خرچ کرکے ہی ہم کچھ ایسا حاصل کر پاتے ہیں جو ہماری زندگی کا معیار بلند کرے۔
فی زمانہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن خریداری کا کلچر تیزی سے پنپ رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ دکان یا گودام کرائے پر لیے بغیر کوئی کچھ فروخت کرے اور گھر بیٹھے کمائے مگر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ جو کچھ گھر کے بہت نزدیک کسی بھی دکان سے دستیاب ہو وہ سب بھی آن لائن خریدا جائے؟ بہت سے آن لائن سٹورز رکنیت دیتے ہیں یعنی وہاں رجسٹر ہوکر آپ بھی فروخت کے لیے کچھ بھی پیش کرسکتے ہیں۔ آپ کو کسی بھی چیز کی وہ قیمت وصول کرنی ہے جس میں آپ کے منافع کے علاوہ آن لائن سٹور کا بھی شیئر اور ڈیلیوری چارجز شامل ہوں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو اپنے گھر کے نزدیک کسی بھی دکان سے محض سو یا ایک سو بیس روپے میں دستیاب ہوسکتا ہے وہ آن لائن سٹور سے خریداری کی صورت میں ڈھائی سو روپے میں پڑتا ہے! معاملات کو جھیلتے رہیے تو ایسے ہی نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ محض خرید و فروخت تک محدود نہیں۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بچوں کے معاملے میں لوگ سوچے سمجھے بغیر، محض جذباتی ہوکر کچھ بھی خرید لیتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں کہ تھوڑا سا تحمل اپناتے، کچھ سوچ لیتے تو اچھا تھا۔ بچوں کے لیے کوئی بھی چیز خریدتے وقت والدین بالعموم جذباتی ہو اٹھتے ہیں اور اس جذباتیت ہی کا دکاندار بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
معیاری انداز سے جینے کے لیے احساس اور شعور کو متحرک رکھنا لازم ہے۔ زندگی ہم سے درست فیصلے چاہتی ہے۔ کم و بیش ہر معاملے میں فیصلے کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ معاشی ہی نہیں‘ معاشرتی یا خالص نجی و باطنی معاملات بھی ہم سے فیصلے چاہتے ہیں۔ درست فیصلے ہمیں معیاری زندگی کی طرف تیزی سے بڑھاتے ہیں۔ گھر کے ماہانہ بجٹ کا معاملہ ہو یا بچوں کی تعلیم و تربیت کا، دوستوں کی محفل ہو یا کاروباری حریفوں سے پنجہ آزمائی کا مرحلہ، ہر معاملے میں ہمیں ممکنہ بہترین فیصلے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ کسی جواز کے بغیر یا محض ترس کھاتے ہوئے ڈھیل دکھانا، معاملات کو جھیلتے رہنا ہمارے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ الجھنیں اُسی وقت بڑھتی ہیں جب آپ مطلوب احساس و شعور کو بروئے کار لائے بغیر بڑھتے چلے جانے پر یقین رکھتے ہوں۔ بیشتر معاملات میں سرسری اور طائرانہ انداز بالآخر الجھنیں بڑھاتا ہے۔
پاکستان میں تو خیر سے معاملہ یوں ہے کہ لوگ کیریئر جیسے معاملے میں بھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ایسے میں یومیہ بنیاد پر فیصلے؟ یہ تو بہت دور کی منزل رہی۔ وقت بہت کچھ سکھانا چاہتا ہے بلکہ سیکھنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ہم ہیں کہ نہ سیکھنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔ کچھ نہ سیکھنا بھی آپشن تو ہے مگر یہ آپشن صرف خرابی کی طرف لے جاتا ہے۔ بیشتر پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ تصور خاصا راسخ ہوچکا ہے کہ معاملات کو جھیلتے رہیے، یہ کبھی نہ کبھی خود بخود درست ہو جائیں گے۔ ایسا پہلے کب ہوا ہے کہ اب ہوگا؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ معاملات کبھی درست ہوتے نہیں، درست کیے جاتے ہیں۔
جھیلتے رہنا غیر فعال ہونے کی سب سے روشن علامت ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے یہ عادت ترک کرنا لازم ہے۔ معاملات کو کسی ٹھوس جواز کے بغیر برداشت کرتے رہنے سے پورا وجود مشکلات کی زد میں رہتا ہے۔ ہر دور میں وہی کامیاب رہے ہیں جنہوں نے پورے احساس و شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے جینے کی کوشش کی ہے۔