"MIK" (space) message & send to 7575

زرخیز ذہن‘ زرخیز نتائج

جو زمین اچھی فصل دیتی ہے‘ اُسے زرخیز کہتے ہیں۔ بعض علاقے قدرتی طور پر ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں کی زمین اچھی فصل دیتی ہے۔ یہ تو ہوا قدرت کا معاملہ۔ کیا ایسے علاقوں کی زمین ہر حال میں اچھی فصل دیتی ہے؟ جی نہیں! زمین اگر اچھی ہو اور فصل زیادہ دیتی ہو تب بھی اُس پر محنت کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ اچھی فصل دیتی رہے۔ زمین کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو زرعی زمین سے کچرا نکال کر پھینکنا پڑتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے یا بڑھانے سے متعلق ماہرین کے جو مشورے ہیں‘ اُن پر خاطر خواہ حد تک عمل کیا جائے۔ زمین کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے اُسے بہت کچھ دینا پڑتا ہے۔ اگر زمین اچھی ہو مگر اُسے کھارا پانی دیا جاتا رہے تو پیداواری صلاحیت رفتہ رفتہ دم توڑتی چلی جاتی ہے۔ کھاد معقول یا مطلوب مقدار میں نہ دی جائے تو اچھی زمین بھی اچھی فصل نہیں دیتی۔ بیج اگر گھٹیا ہو یا اعلیٰ معیار کا نہ ہو تو اچھی زمین عمدہ فصل دینے سے انکار کردیتی ہے۔
جو معاملہ زمین کا ہے‘ وہی ذہن کا بھی ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو ذہن عطا کیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے خزانے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمیں آج اپنے ماحول میں بلکہ پوری دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے‘ وہ ذہن کی کارفرمائی ہے۔ ہر چیز پہلے ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے اور اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی وہ حقیقی شکل اختیار کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ ذہن کو دو بنیادی کاموں کے لیے خلق کیا گیا ہے ... یاد رکھنا اور سوچنا۔ سوچنے کا عمل یاد رکھنے کے عمل سے ہٹ کر نہیں۔ جو کچھ ہمارے حافظے میں ہوتا ہے‘ اُسی کو بروئے کار لاکر ہم سوچتے ہیں۔ سوچنے کا عمل بنیادی طور پر تجزیے کا عمل ہے۔ ہم کسی بھی معاملے میں اپنا حافظہ ٹٹولتے ہیں‘ اس کے بعد متعلقہ معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس تجزیے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔ یہ ہے سوچنے کا عمل! اس عمل میں تجزیے کے بغیر بات بنتی نہیں۔ جس میں تجزیہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے وہی اچھی طرح سوچ سکتا ہے۔ خوب سوچ سمجھ کر جو رائے قائم کی جاتی ہے‘ وہی وقیع ہوتی ہے، کچھ اثر رکھتی ہے، کچھ کر دکھاتی ہے۔
ہمارے ذہنوں میں عمومی سطح پر جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اُسے سوچنے کا عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سوچ اُسی وقت پنپتی ہے جب ہم غیر ضروری معاملات سے دامن چھڑاتے ہوئے کام کی باتوں پر متوجہ ہوتے ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ ہمیں سوچنے کی تحریک ضرور دیتا ہے مگر سوچنے کی توفیق صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جو واقعی اس طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ عام آدمی ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی میلے کی سیر کو نکلے اور سب کچھ دیکھتا ہوا پنڈال سے باہر آجائے۔ یہ دنیا بھی میلے کا سا انداز رکھتی ہے۔ جو لوگ اس کی رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں انہیں سوچنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ہمیں میلے کی سیر بھی کرنی ہے اور اس میں اپنے لیے کوئی کردار بھی ڈھونڈنا یا پیدا کرنا ہے۔
ویلری برٹن نے اپنی کتاب ''رِچ مائنڈز، رِچ ریوارڈز‘‘ میں بتایا ہے کہ یہ دنیا ان کے لیے ہے جو میلے کی سیر والی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کا سوچتے ہیں۔ سوچنے کی توفیق اسی وقت ملتی ہے جب انسان کچھ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی بڑا ہدف متعین کرلیا جائے تو سوچنے اور سوچ کو عملی شکل دینے کی راہ بھی نکل ہی آتی ہے۔ مت بھولیے کہ ذہن کا بنیادی کام ہے یاد رکھنا اور سوچنا۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ ذہن میں محفوظ رہتا ہے۔ حافظے کی کوئی حد نہیں۔ ہم جو کچھ بھی ذرا سی توجہ سے دیکھتے ہیں وہ ذہن پر نقش ہو جاتا ہے اور کبھی نہیں مٹتا۔ حافظے کی کوئی حد نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس پر غیر ضروری چیزوں کا بوجھ لادتے چلے جائیں۔ حافظے کو بھرتے چلے جانے سے ذہن کی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اگر ہم ناپسندیدہ باتوں سے بچنے کے بجائے ان پر متوجہ ہوں تو حافظے میں خلل واقع ہوتا ہے۔ انسان کے لیے کم و بیش ہر معاملے میں لازم ہے کہ صرف ان امور کا دھیان رکھے جو اسے پسند ہوں اور کام کے بھی ہوں۔ ذہن کو بھرتے چلے جانے سے ہاتھ آئی ہوئی کامیابی بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
بالعموم وہی باتیں ہمارے حافظے میں زندہ یا متحرک رہتی ہیں جن پر ہم نے توجہ دی ہو۔ ہم روزانہ بیسیوں معاملات دیکھتے ہیں۔ دیکھی ہوئی ہر چیز یا ہر بات زیادہ دیر یاد نہیں رہتی اور کھسک کر لاشعور کی نذر ہو جاتی ہے۔ تحت الشعور میں وہی باتیں تادیر متحرک رہتی ہیں جن پر ہم نے تھوڑی بہت توجہ دی ہو۔ جن باتوں پر ہم زیادہ متوجہ ہوتے ہیں وہ کم و بیش ہر وقت ذہن میں متحرک رہتی ہیں اور ہمارے معاملات کا حصہ بنتی ہیں۔
ذہن کمرے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آپ اس کمرے کو سجانا چاہتے ہیں تو اس میں غیر ضروری اشیا بھرنے سے گریز کیجیے۔ ایک اچھا ڈرائنگ روم انسان کو خوش گوار احساس دیتا ہے، سوچنے پر مائل کرتا ہے۔ بالکل اسی طور منظّم ذہن بھی انسان کو سوچنے کے لیے مطلوب ماحول فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ماحول میں ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے جو ہمارے لیے نہیں ہوتا یا ہمارے کام کا نہیں ہوتا۔ اگر ہم غیر متعلق باتوں اور غیر متعلق معاملات پر متوجہ رہیں تو سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ غیر ضروری باتوں سے بھرا ہوا ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ویلری برٹن لکھتی ہیں کہ ذہن سے کام لینے کے لیے اُسے توانا رکھنا لازم ہے۔ ذہن کو توانا رکھنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک معقول صورت یہ ہے کہ پُرسکون نیند یقینی بنائی جائے۔ خلل سے پاک، پُرسکون نیند ذہن کے لیے سب سے بڑا ٹانک ہے۔ نیند اگر اچھی ہو تو ذہن اپنے آپ کو ٹٹولتا ہے اور غیر ضروری باتوں کو ایک طرف ہٹادیتا ہے۔ سوچنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے یہ عمل لازم ہے۔ سوچنے والے ذہن ہی کو کچھ مل پاتا ہے۔ لوگ زندگی بھر سوچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر ڈھنگ سے سوچنے کی پوزیشن میں مشکل سے آ پاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ذہن کا فضول باتوں سے بھرا ہوا ہونا ہے۔ حافظے میں وہی باتیں متحرک رہنی چاہئیں جو ہمارے کام کی ہوں یا بہت حد تک متعلق ہوں۔
ذہن کی زرخیزی میں اضافہ کرنے والا سب سے بڑا عامل ہے شعوری عمل۔ جب ہم طے کرتے ہیں کہ کچھ کرنا ہے تب ہی کچھ ہو پاتا ہے۔ تحت الشعور سے یا لاشعوری طور پر اچھا کام مشکل ہی سے ہو پاتا ہے۔ ہر اچھے یا مثبت عمل کے لیے ذہن بنانا پڑتا ہے، ارادہ کرنا پڑتا ہے۔ وہی کام ڈھنگ سے ہو پاتا ہے جو ارادے کے ساتھ ہو۔ ذہن کچھ کرنے پر اسی وقت مائل ہوسکتا ہے جب اس کے پاس سوچنے اور طے کرنے کی گنجائش ہو۔ ذہن کی زرخیزی میں اضافے کے لیے لازم ہے کہ اسے فضول اور غیر متعلق معاملات سے بچایا جائے۔ ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنے مشاہدے کو بھی قابو میں رکھیں۔ ہر ماحول دھارے کے مانند ہوتا ہے۔ اگر آپ خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے تو اس دھارے میں بہتے چلے جائیں گے۔ ایسی حالت میں آپ کا اپنے وجود پر اختیار کم ہی ہوگا۔ خود کو دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ماحول سے کیا لیا جائے اور کیا چھوڑ دیا جائے۔
ذہن کو توانا و زرخیز رکھنا ہماری انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر ذہن ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہ رہے تو تمام معاملات الجھ جاتے ہیں۔ ذہن الجھا ہوا ہو تو منفی سوچ تیزی سے ابھرتی ہے۔ مثبت سوچنے کے لیے مشاہدے کے معاملے میں انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ آپ کو پوری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ طے کرنا پڑے گا کہ کن معاملات سے تعلق رکھنا ہے اور کن معاملات کو یکسر نظر انداز کردینا ہے۔ ذہن جس حد تک سوچنے کی حالت میں رہے گا ہمیں اسی قدر اچھے نتائج ملیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں