ہر دور کا انسان اپنی زندگی کا مفہوم سمجھنے اور کسی بڑے مقصد کو شناخت کرنے کے لیے بے تاب رہا ہے۔ زندگی کا حقیقی مفہوم تلاش کرنے ہی کی خاطر سوچنے کا عمل بھی شروع ہوا اور یوں ہر دور میں ایسے مفکرین موجود رہے جنہوں نے سوچنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کے حقیقی مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ ہم روئے ارض پر صرف اس لیے تو یقیناً نہیں بھیجے گئے کہ سانسوں کی گنتی پوری کریں‘ کھائیں پئیں‘ بڑھاپے کی منزل تک پہنچیں اور جسم کی سکت ختم ہو جانے پر رختِ سفر باندھ کر رخصت ہوجائیں۔زندگی وہ ہے جس میں سوچ بھی ہو اور مقصد بھی۔ زندگی کا مفہوم تلاش کرنے کی ہر سنجیدہ کوشش کامیاب رہتی ہے۔ کامیاب یوں کہ اگر انسان مفہوم تک نہ بھی پہنچے تو مفہوم کی تلاش میں کی جانے والی ہر کاوش ہی اپنا صلہ آپ ہے۔
ہر انسان کو زندگی بھر بحرانوں کا سامنا رہتا ہے۔ کوئی بحران اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس پر آپ زیادہ متوجہ نہ بھی ہوں تو کوئی بات نہیں۔ اور کوئی بحران اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ذرا بھی عدم توجہ کا معاملہ ہوا اور سب کچھ داؤ پر لگا سمجھیے۔ ہر انسان کی زندگی مختلف حوالوں سے الجھنوں کا شکار رہتی ہے۔ انسانوں کے درمیان رہنے کی صورت میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی کا سفر اسی طور جاری رہتا ہے۔ ہمیں مشکلات اور مسائل کو قبول کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی بھی نہیں جو مسائل سے بچا ہوا ہو۔ سب کو اپنے اپنے حصے کے مسائل ملتے ہی ہیں۔ عام آدمی یہ تصور کرتا ہے کہ مسائل صرف افلاس کے ہاتھوں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ جنہیں ڈھیروں دولت ملی ہو ان کے لیے بھی مسائل کم نہیں ہوتے۔ اور مفہوم؟ وہ تو اور بھی مشکل مرحلہ ہے۔
قدرت نے جنہیں معاملات کو سمجھنے اور سوچنے کی توفیق عطا کی ہے وہ زندگی بھر زیادہ سے زیادہ مقصدیت کا حصول یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ کوشش ہی زندگی کا مفہوم سمجھنے یا متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ سوچنے اور زندگی کا مفہوم متعین کرنے کی سعی ہر وہ انسان کرتا ہے جو اس دنیا میں اپنی آمد کو کسی خاص مقصد کے تحت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ حق ادا کرکے جائے۔ یہ شب و روز یقیناً کچھ کرنے کے لیے عطا کیے گئے ہیں۔ خالص حیوانی سطح پر جینا ہی زندگی ہوتا تو اس کام کے لیے حیوانات کافی تھے۔ ہمیں یعنی انسانوں کو اس سطح سے بہت بلند ہوکر جینا ہے۔ جس ہستی نے ہمیں زندگی سی نعمت عطا کی ہے وہ یہی تو چاہتی ہے۔ نفسی امور سے متعلق علم کے چند بنیادی نظریات میں لوگو تھراپی بھی شامل ہے یعنی یہ کہ انسان اپنی زندگی کا مفہوم متعین کرے یا پھر تلاش کرے۔ کبھی کبھی ہم بہت اکتا سے جاتے ہیں‘ سلسلۂ روز و شب میں ہر طرف صرف روکھا پن دکھائی دیتا ہے‘ بیزاری نظر آتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہم زندگی کے مقصد یا مقاصد کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ سوچنا ہر انسان کا محض حق نہیں‘ فرض بھی ہے۔ سوچنے ہی سے طے ہوتا ہے کہ انسان اپنے وجود کو کس حد تک سمجھا ہے اور کہاں تک جانا چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو زندگی کی مقصدیت کے حوالے سے لاتعلق ہو۔ ہر انسان کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور سوچتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں ہے‘ کیا کرنا چاہتا ہے‘ کیا کرسکتا ہے‘ اور جب انسان زندگی کا مفہوم تلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس پر بیزاری اور اکتاہٹ سی چھا جاتی ہے۔ مفہوم کی تلاش کم و بیش ہر انسان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عام آدمی بہت سے معاملات میں روکھے پن کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس روکھے پن کو جھیلتا بھی ہے مگر اس کا ذہن اس نکتے کی طرف نہیں جاتا کہ یہ روکھا پن بہت حد تک اسی کا پیدا کردہ ہے۔ جب کوئی بھی انسان سوچنے کے عمل سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور زندگی میں مقصدیت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا تب ماحول ہی نہیں بلکہ اپنی ذات سے بھی اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے۔
جب بھی انسان زندگی کا مفہوم تلاش کرنے کی سعی سے دامن کش ہوتا ہے تب اپنا وجود خالی خالی سا محسوس ہوتا ہے۔ جب زندگی کا مفہم ہاتھ نہیں آتا تب ہر طرف سنّاٹا سا چھا جاتا ہے۔ فریڈرک نطشے نے کہا تھا کہ جو انسان اپنے وجود کی مقصدیت پر غور کرتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے وہ کسی بھی نوعیت کی صورتحال کے پیدا کردہ اثرات کو بخوشی جھیل سکتا ہے۔ نفسی امور کے معروف آسٹرین ماہر وکٹر فرینکل نے اپنی کتاب ''مینز سرچ فار میننگ‘‘ میں لکھا ہے کہ انسان کو کچھ بھی کرنے کی تحریک دینے والی سب سے بڑی چیز ہے زندگی میں مفہوم کی تلاش۔ جو اس مرحلے سے کامیاب گزرا وہی کامیاب ہوا۔ وکٹر فرینکل نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی جرمن فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد بدنامِ زمانہ حراستی مرکز ''آشوِز‘‘ میں وہ صعوبتیں برداشت کیں جن کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ زندگی کا یہ مرحلہ وکٹر فرینکل کو بہت کچھ سکھا گیا۔ ''آشوِز‘‘ میں زندگی کا سب سے مشکل دور گزارنے سے قبل بھی وکٹر فرینکل نے زندگی کے مفہوم کے حوالے سے بہت کچھ سوچا اور لکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی کا مفہوم تلاش کرنے سے متعلق لگن اگر کمزور پڑچکی ہو تو انسان اپنے وجود میں انتہائی نوعیت کا خلاء محسوس کرتا ہے۔ یہ خلا رفتہ رفتہ بیزاری کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے اور پھر انسان بیشتر معاملات میں
خاصی بے دِلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ بے دِلی کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایسے میں انسان باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی کچھ زیادہ نہیں کر پاتا اور کام کا معیار بھی بلند نہیں ہوتا۔ زندگی ہم سے مسلسل سوال کرتی رہتی ہے۔ ہر صورتحال ہمیں کسی نہ کسی حد تک جھنجھوڑتی ہے۔ کسی بھی صورتحال کے پہلو میں چند سوال ہوتے ہیں جن کا جواب اگر ڈھنگ سے نہ دیا جائے تو الجھنیں بڑھتی ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم مفہوم کی تلاش میں سرگرداں ہوں‘ کوئی مقصد متعین کریں اور اس کا حصول یقینی بنانے پر متوجہ ہوں۔ ہمیں قدم قدم پر کیا‘ کیوں اور کیسے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سوں کے ذہن میں یہ بے بنیاد تصور پنپتا رہتا ہے کہ ہم تو حالات کے ہاتھوں میں کھلونا ہیں یعنی اپنی مرضی سے کچھ زیادہ نہیں کرسکتے۔ ایسا نہیں ہے۔ حالات چاہے کچھ بھی ہوں‘ ہم اپنے لیے کوئی بھی پسندیدہ راستہ محض چُن ہی نہیں سکتے بلکہ اُس پر چل بھی سکتے ہیں۔ انسان بے اختیار بھی ہوتا ہے مگر صرف چند معاملات میں۔ مجموعی طور پر تو وہ اختیار کا حامل ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں کہیں بھی برائے نام ترقی بھی ممکن نہ ہو پاتی۔
جب انسان زندگی کا مفہوم تلاش نہ کرے یا ادھورے من سے کی جانے والی تلاش کے نتیجے میں ناکام رہے تو شدید نوعیت کی بیزاری اور بے دلی جنم لیتی ہے جو پورے وجود کو گھیر لیتی ہے۔ یہ کیفیت برقرار رہے تو انسان ایسی زندگی بسر کرتا ہے جس میں کسی اور کے لیے تو کیا‘ اپنے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی کو قابلِ رشک اور بارآور بنانا ہے تو مفہوم تلاش کرنا پڑے گا۔ جب تک زندگی کا کوئی مفہوم نہ ہو اور کوئی مقصد ذہن کے پردے پر نہ ابھرے تب تک انسان ادھورا سا رہتا ہے اور بامعنی انداز سے کچھ نہیں کر پاتا۔ کسی بھی حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے انسان کو سوچنا چاہیے کہ متعلقہ صورتحال میں وہ خود کیا کرتا۔ انسان سے سب کچھ چھینا جاسکتا ہے‘ کسی بھی صورتحال میں اپنی مرضی کا رویہ اختیار کرنے کا اختیار کبھی نہیں چھینا جاسکتا۔ یعنی یہ کہ انسان کے پاس کوئی جواز‘ کوئی بہانہ نہیں۔ زندگی کو واضح مفہوم کا حامل اور زیادہ سے زیادہ بامقصد ہونا چاہیے۔