"MIK" (space) message & send to 7575

کڑوی گولی

معاشرے تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اور تبدیلی کیا‘ یہ دور تو تبدیلیوں کا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا منظر تبدیل ہو جاتا ہے ع
یوں ہی دنیا بدلتی ہے، اِسی کا نام دنیا ہے
خیر! تبدیلی کب سب سے بڑی حقیقت نہیں تھی جو اس کے تسلسل پر حیرت ہو؟ ایک بس تبدیلی ہی تو ہے جو مسلسل ہے، دم بہ دم ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جس دور میں علامہ نے یہ بات کہی تھی‘ تب تبدیلی کا عمل تیز تھا نہ زیادہ حیرت انگیز۔ سبھی بدلتا تھا مگر توازن اور ترتیب کے ساتھ۔ اب یہ بات کچھ زیادہ اور آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ فی زمانہ ہر معاشرہ غیر معمولی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ گزرے ہوئے ادوار میں تفکر، تصور، ثقافت اور اقدار کے نام پر جو کچھ بھی پایا تھا یا تیار کیا تھا‘ اس کا بڑا حصہ داؤ پر لگ چکا ہے۔ یہ عمل جاری ہے اور ہم سے غیر معمولی سطح کے فکر و عمل کا تقاضا کر رہا ہے۔ اب گنجائش تساہل کی ہے نہ تاخیر کی۔ گام گام نئی الجھنیں پیدا ہوتی جارہی ہیں اور ہمیں ہر الجھن کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا ہے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے‘ یہ جاننا بھی ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ ہم باقی دنیا سے کسی طور کٹے ہوئے نہیں ہیں مگر ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم اپنا معاشرہ ہے۔ جو کچھ پاکستانی معاشرے میں ہو رہا ہے اُس کی تفہیم اور موقع کی مناسبت سے ردِعمل کی صورت میں بہتری کی کوشش ہمارے لیے ناگزیر معاملہ ہے۔ اس وقت معاملات خاصا عجیب رنگ لیے ہوئے ہیں۔ قومی چلن کا ایک بڑا حصہ خوش فہمی اور خوش گمانی پر مبنی ہے۔ ہم ضرورت سے کہیں زیادہ سادہ لوحی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کے دو عشرے مکمل ہوچکے ہیں۔ دنیا کہیں سے کہیں جاچکی ہے۔ عصری علوم و فنون میں پیشرفت کا بازار اس طور گرم ہے کہ اب تو کسی بھی بات پر حیرت نہیں ہوتی۔ کل تک جن چیزوں کے لیے شہنشاہ ترسا کرتے تھے وہ آج عام آدمی کو میسر ہیں اور وہ ذرا سی بھی حیرت کا شکار نہیں ہوتا۔ جو چیز معمولات کا حصہ بن جائے وہ کسی بھی درجے میں حیرت کا باعث نہیں بنتی۔ ایسے میں ضرورت سے زیادہ سادہ لوح ہونا خطرناک ہے۔ یہ دنیا کبھی ایسی نہیں تھی کہ جوں کی توں قبول کرلی جائے۔ ہمیں بہت کچھ سمجھنا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خود بخود سمجھ میں آنے والا نہیں۔ مادّی ترقی نے ہمیں بہت سے آسانیاں دی ہیں تو اُن کے پہلو بہ پہلو کئی دشواریوں سے بھی دوچار کیا ہے۔ ذہن کے لیے الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ ذہن پر اچھا خاصا زور دینے پر سمجھ میں آتے ہیں۔ بعض معاملات ایسے ہیں کہ اُن کا سمجھنا بہت حد تک ناگزیر ہے۔ اگر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے تو وہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں جن کا ہمیں پہلے ہی سامنا ہو۔
''سادگی‘‘ اور ''بھولپن‘‘ کے ساتھ جینا اہلِ پاکستان کے لیے اب بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لاتعداد ذہنوں میں یہ تصور اب تک نہ صرف موجود ہے بلکہ خاصا توانا ہے کہ معاملات کبھی نہ کبھی خود بخود درست ہوجائیں گے۔ اپنے طور پر طے کرلیا گیا ہے کہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، معاملات رفتہ رفتہ اپنی خرابیوں سے نجات پاکر ہمارے حق میں ہو جائیں گے۔ دنیا عمل کی طرف مائل ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا تو خیر ذکر ہی کیا، ترقی پذیر دنیا کے بھی بیشتر معاشرے خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلنے پر مائل رہنا ان معاشروں کا عمومی مزاج ہے۔ ان معاشروں کے لوگ جانتے ہیں کہ خود کو نہ بدلنے کا آپشن ہے ہی نہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ عمل سے دوری کو خرابی سمجھنے کا شعور اب تک پیدا نہیں کر پائے۔ تساہل پسندی کے باعث خیال و خواب کی دنیا میں رہنا قومی مزاج میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہم سبھی اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہوئے، چَھلتے ہوئے جی رہے ہیں۔ یہ صریح زیاں ہے مگر افسوس کہ اس زیاں کا احساس بھی باقی نہیں رہا۔
کسی قوم کا بھٹکنا حیرت انگیز بات نہیں۔ دنیا میں ایسی بیسیوں مثالیں ہیں کہ قومیں بھٹک گئیں، شدید خسارے سے دوچار ہوئیں۔ اصل مسئلہ بھٹکنا نہیں، بھٹکنے کے بعد راہِ راست پر آنے سے گریز ہے۔ کم و بیش ہر دور میں دنیا بھر میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ قوم بھٹکتی ہے تو کچھ لوگ آگے بڑھ کر اُسے درست راہ دکھلاتے ہیں اور اُس پر گامزن ہونے کے قابل بننے میں مدد بھی دیتے ہیں۔ قائدین کا کام ہی قوم کو درست راہ پر لانا اور اُس پر گامزن رکھنا ہوتا ہے۔ یورپ کی مثال بہت نمایاں ہے۔ ہزار سال سے بھی زائد مدت کی جہالت اور بے عملی کے بعد پانچ سو سال قبل وہاں ایسے اہلِ علم و فن سامنے آئے جنہوں نے غیر معمولی محنت کے ذریعے معاشروں کو درست کیا۔ پورے یورپ میں علم پسندی کی ایسی تحریک اٹھی جس نے ایک نئی دنیا بنانے اور بسانے کی ٹھانی اور یہ تحریک بہت حد تک کامیاب بھی رہی۔ یورپ میں علم دوستی اصلاً کلیسا کے جبر کے خلاف ردِعمل کی ایک شکل تھی مگر اس نے عوام کو طاقت بخشی، انہیں اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حوصلہ بھی دیا اور شعور بھی۔ یورپ میں یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا کہ جنہوں نے خود کو قیادت کا اہل سمجھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ جنہیں ہم نے قائدین کا درجہ دے رکھا ہے وہ خود اب تک غلط روش پر گامزن ہیں۔ ہمیں راستہ دکھانے کے دعویدار قدم قدم پر دھوکا کھارہے ہیں اور قوم کو بھی دھوکے پہ دھوکا دیے جارہے ہیں۔ معاملہ جب اتنی گراوٹ کا شکار ہو تو اصلاحِ احوال کی صورت کیونکر نکلے؟ سیاست ہو یا معیشت، مذہب ہو یا ثقافت ... کم و بیش ہر معاملے میں حقیقی اہلیت کے حامل قائدین کا فقدان ہے۔ نام نہاد قائدین کی خرابیوں میں کردار کی خامی سب سے نمایاں ہے۔ حقیقت پسندی کو زندگی کا بنیادی شعار بنانے کا وقت آچکا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے، معاملات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اُس کے پیشِ نظر پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ یہ وقت حقیقت کا سامنا کرنے کا ہے مگر ہم نے شتر مرغ کی راہ پر گامزن رہنے کو ترجیح دی ہے۔ شتر مرغ کی طرح ہم بھی ریت میں سَر دباکر یہ سمجھتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ حقیقت سے نظر چرانے کی روش ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہی۔ وعدے ہیں، دعوے ہیں اور بڑھکیں ہیں۔ جذباتیت نمایاں ہے۔ وقت کو جیسے تیسے دھکا دیا جارہا ہے۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ بہت کچھ تیزی سے بدلتا جارہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ نئی سوچ اپنائی جائے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرہ سمت سے محروم ہوچکا ہے۔ ایسے میں پورے معاشرے کو کسی بھی طرف ہانکا جاسکتا ہے۔ اصلاحِ احوال اُسی وقت ممکن ہے جب ہم خوش فہمی اور سادہ لوحی کی دنیا میں رہنے کے بجائے حقیقت کی دنیا میں رہنا سیکھیں۔ حقیقت سے نظر چرانے کی روش نے ہمیں ہر اہم مرحلے پر ناکامی سے دوچار کیا ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ بحرانوں کا سامنا کرتے کرتے عام آدمی کا مزاج کچھ کا کچھ ہوچکا ہے۔ اب وہ الجھنوں سے نجات پانے کے بجائے اُن کے ساتھ ساتھ چلتے رہنے کا عادی ہوچکا ہے۔ یہ روش ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت پسندی کڑوی گولی ہے مگر اب ہمیں یہ کڑوی گولی نگلنی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں