اکیسویں صدی کے بارے میں طرح طرح کی پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔ اقتدار کی بساط پر بہت کچھ تبدیل ہو جانے کی باتیں سیاسی، سفارتی اور سٹریٹیجک امور کے ماہرین دو عشروں سے کر رہے ہیں۔ ماہرین کی آرا سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیاں رونما ہوتی جارہی ہیں۔ ایک بڑی‘ اور بہت سوں کے لیے حیرت انگیز تبدیلی یہ ہے کہ امریکا پیچھے ہٹ رہا ہے۔ امریکا خود یعنی تنہا پیچھے ہٹتا تو کوئی بات نہ تھی‘ مشکل یہ ہے کہ وہ بہت حد تک ''گھسیٹا خان‘‘ ثابت ہو رہا ہے یعنی دوسروں کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ رہا ہے اور معاملات گھسٹتے چلے جارہے ہیں!
تاریخ گواہ ہے کہ امریکا کچھ بھی انوکھا نہیں کر رہا۔ ہر عہد کی سپر پاور نے وہی کچھ کیا ہے‘ جو امریکا نے کیا ہے اور ہر عہد کی سپر پاور اگر کمزور پڑی ہے تو اپنے ہی بوجھ سے کمزور پڑی ہے۔ اس معاملے نے امریکا کو بھی استثنا نہیں دیا۔ ہر سپر پاور کی طرح امریکا بھی دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنے کے بعد اپنی حدود میں سمٹ رہا ہے۔ یہ وہ اپنی مرضی سے نہیں کر رہا‘ حالات اُسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، پھیلنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور امریکا کے لیے وہ حد آچکی ہے۔ وہ اگر اپنی حدود میں سمٹ رہا ہے تو یہ فطری امر ہے مگر ساتھ ہی ساتھ خطرناک بھی ہے۔ خطرناک اس لیے کہ جو خرابیاں امریکا نے پیدا کی ہیں ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت آسانی سے ختم نہیں ہوگی۔ ہو ہی نہیں سکتی! یہ امریکا کی شرارتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ جہاں پانی ہوا کرتا تھا وہاں اب صرف صحرا ہے یا دلدل ہے۔ امریکا نے کئی خطوں کو تاراج کیا، پامال کیا۔ جن ممالک سے مطلب پورا ہونے کے آثار دکھائی نہ دیے اُنہیں برباد کرنے میں اُس نے دیر لگائی۔ طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ایوانِ صدر میں آمد کے بعد سے جو کچھ اب تک کیا ہے‘ اُس کے نتیجے میں امریکا کے حوالے سے دنیا کو بہت سی تبدیلیاں محسوس ہوئی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ عہدِ صدارت میں قدم قدم پر ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ سنائی دیا ہے۔ کم و بیش سات عشروں تک امریکا نے دنیا بھر میں پاؤں اور پَر پھیلائے اور ہر کمزور کو دبوچ کر نچوڑا، اپنے مفادات کی چوکھٹ پر قربان کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری کوشش کی ہے کہ امریکا دنیا بھر میں اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑاکر صرف اپنے وجود کو دیکھے، اپنے آپ پر متوجہ ہو۔ جو کچھ ڈونلڈ ٹرمپ نے چاہا وہ اُن کی ذاتی پسند و ناپسند کا مظہر تو کسی طور نہیں ہوسکتا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ ایسی اندھی بہری تو ہرگز نہیں ہوسکتی کہ ایک شخص منصبِ صدارت پر فائز ہوکر کچھ بھی کرتا پھرے اور اُس کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہ کی جائے۔ اب یہ بات بہت سوں کی سمجھ میں آتی جارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بظاہر غیر سنجیدہ اور بڑھک باز قسم کے سیاستدان کو امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے دیا گیا تھا تو یقینا کوئی نہ کوئی مصلحت کارفرما ہوگی۔ معاملات کی نوعیت اور شدت بتارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو لایا گیا تھا تاکہ چند ایک اہم اور آف بیٹ قسم کے فیصلے آسانی سے کرائے جاسکیں اور کسی کو زیادہ حیرت بھی نہ ہو۔ اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ سے کام لیا جاچکا ہے؟ کیا بیشتر بین الاقوامی معاملات میں امریکا کا گریزپا ہونا طویل المیعاد پالیسی کا حصہ ہے؟ یہ بات تو طے ہے کہ جو کچھ امریکی صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک کیا ہے‘ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ہی کا عکاس رہا ہوگا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ امریکا نے مستقبل بعید کے حوالے سے کوئی بڑی تیاری کی ہے۔ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ اُسی تیاری کا حصہ ہے۔
امریکا اب بیرونی ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ وہ اب تک یورپ کی سلامتی کا ذمہ دار رہا ہے مگر اب وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوکر صرف اپنا گھر آنگن درست کرنے کی سوچ کا حامل ہے۔ اُسے اپنی مارکیٹ کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ وہ اپنے اندرونی سسٹم کو درست کرنا چاہتا ہے۔ امریکا میں اندرونی سطح پر اچھی خاصی ٹوٹ پھوٹ واقع ہوچکی ہے۔ نسل پرستی ایک بار پھر عفریت کی صورت منہ پھاڑ کر سامنے آگئی ہے۔ امریکا نے بہت کچھ سکھایا ہے‘ اب بھی سکھا رہا ہے۔ ہم جیسے ممالک کو اب تو اپنی اصلاح پر متوجہ ہونا چاہیے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اب کسی کو کچھ دینے کے موڈ میں نہیں۔ امریکی عوام کا عمومی مزاج بھی تبدیل ہوچلا ہے۔ 'سب سے پہلے امریکا‘ اب بہت حد تک امریکی عوام کے دل کی آواز ہے۔ اہلِ امریکا نے اب تک عملاً ثابت نہیں کیا کہ جو کچھ اُن کے حکمرانوں نے بیرونِ ملک کیا ہے اُس کے کفّارے کے بارے میں کچھ سوچا گیا ہے۔ امریکا نے کئی خطوں کو تباہی سے دوچار کیا مگر ان کی تعمیرِ نو پر برائے نام بھی خرچ نہیں کیا۔ اب بھی متعدد ممالک امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والا خسارہ بھگت رہے ہیں۔
ہمیں بھی اپنے آپ پر توجہ دینی ہے۔ ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ جس امریکا پر ہم اب تک تکیہ کیے بیٹھے ہیں اب تو اسے بھی اپنی اصلاح کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ ایران کی زبان میں کہیے تو امریکا جیسا ''شیطانِ بزرگ‘‘ بھی خود کو سُدھارنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ پاکستان جیسے متعدد ممالک نے امریکا اور یورپ کی حاشیہ برداری کی اور برباد ہوئے۔ ان حاشیہ برداروں کے لیے سب سے بڑا خسارہ قومی غیرت کے معاملے میں تھا۔ امریکا و یورپ کے حاشیہ بردار ممالک کی اشرافیہ اپنے ہی لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈال کر خود کو توانا کرتی آئی ہے۔ وقت بدلا ہے تو واحد سپر پاور کو بھی اپنی بقا کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر ملک کے لیے تمام معاملات میں کوئی نہ کوئی حد تو آتی ہی ہے۔ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ اب ہماری حد آچکی ہے۔ ہم جس سپر پاور کو ستون سمجھ کر اب تک اُس سے چمٹے ہوئے ہیں اب تو وہ بھی لرز رہی ہے، آنے والے دور کی سچائیوں کا سوچ سوچ کر کانپ رہی ہے۔ ایسے میں اس بات کی گنجائش کہاں ہے کہ ہم زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کریں؟ یہ وقت سیکھنے کا ہے۔ ہمیں امریکا اور یورپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ کل جب یہ بھرپور طاقت کے حامل خطے تھے تب انہوں نے بہت سے خطوں کو خرابیوں سے دوچار کیا تھا۔ تب بھی ان سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا مگر ہم نے کچھ بھی سیکھنا گوارا نہ کیا۔ امریکا کی غاصبانہ پالیسیوں کو بخوشی قبول کرنے کی روش نے ہمیں خرابیوں سے دوچار کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپ نے اپنی راہ الگ کی ہے۔ اسے ایسا کرنا ہی تھا کیونکہ اس کے گھر آنگن سے جڑے ہوئے خطوں میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ یورپ کے لیے یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ امریکا سمٹ رہا ہے۔ وہ بیرونی ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ یورپ اور دیگر خطوں کے دفاع کی ذمہ داری سے بھی وہ سبکدوش ہوا چاہتا ہے۔ ایسے میں یورپ کے لیے اپنا راستہ الگ کرنا لازم ہوچکا ہے۔
اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں پاکستان جیسے کمزور ممالک کے لیے کئی اسباق ہیں۔ امریکا اور یورپ سے آس لگائے رہنا اب ہمارے لیے کسی بھی طور سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔ یورپ بھی بدحواسی کے عالم میں ہے۔ امریکا کو دیکھ کر خود کو بدلنے اور مسلم دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کے بجائے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے والی حرکتیں کر رہا ہے۔ فرانس اور ہالینڈ اس معاملے میں بہت نمایاں ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ وقت نے اب تاخیر کی گنجائش چھوڑی ہے نہ تساہل کی۔ اپنی اصلاح پر مائل ہونا ہے اور جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کرنا ہے۔ اس دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے بقا کے مسئلے سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات ہم سے بھی تیز تر اقدامات کے متقاضی ہیں۔