سالِ رواں کے اوائل میں کورونا کی وبا نے باقی دنیا کی طرح پاکستان کو بھی لپیٹ میں لیا تو بہت کچھ الٹ‘ پلٹ گیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس وبا کے نام پر جو ماحول پیدا کیا گیا تھا اس نے معاملات کو انتہائی خرابی کی طرف دھکیلا۔ کئی چھوٹے اور کمزور ممالک کی معیشت جواب دے گئی۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کے نام پر جو لاک ڈاؤن متعارف کرایا گیا اس نے معاملات کو شدید الجھن سے دوچار کیا۔ اس لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا جس کے نتیجے میں ایسی خرابیاں پیدا ہوئیں جو اب تک دم توڑنے کا نام نہیں لے رہیں۔ معاشی سرگرمیاں بحال تو ہو گئی ہیں مگر چار پانچ ماہ تک سبھی کچھ بند رہنے سے جو مشکلات پیدا ہوئیں‘ وہ تاحال برقرار ہیں۔ بیروزگاری اور افلاس کا گراف بلند ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا گراف بھی بلند ہوا ہے۔ اب کے بارشیں بھی غیر معمولی ہوئی ہیں‘ کئی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا جس کا منطقی نتیجہ اب پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کا معاملہ بہت ہی عجیب رہا ہے۔ قوم نے دوسری بہت سے باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کرلیا ہے کہ اگر کسی چیز کے دام ایک بار بڑھ جائیں تو پھر وہ نیچے نہیں آنے چاہئیں۔ حکومت کے لیے ٹف ٹائم یقینی بنانے کی خاطر ہر شعبے کے مافیا میدان میں آچکے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ مافیاز کی کارستانیوں نے عام آدمی کا ڈھنگ سے جینا دوبھر کردیا ہے۔
لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جو نقصان منطقی اور فطری تھا‘ وہ تو ہونا ہی تھا اور ہوا۔ اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم مزید بگڑ گئے ہیں۔ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے‘ وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے اور کتنے ہی دلائل پیش کرے، حقیقت یہ ہے کہ ہم یعنی ایک ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا سر ہے نہ پیر۔ تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے مگر تبدیلی کو یقینی بنانے کی خاطر سنجیدہ ہونے سے اب بھی گریز کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے بہت سے ممالک نے بہت کچھ سیکھا ہے‘ اپنی طرزِ زندگی کو تبدیل کیا ہے۔ حکومتوں کو غور و فکر کے ذریعے بہت کچھ تبدیل کرنے کی تحریک ملی ہے۔ کسی بھی خرابی کے بطن میں چند ایک اچھائیاں بھی ہوتی ہیں‘ ہر بحران اپنے ساتھ تھوڑا بہت راحت کا سامان بھی لاتا ہے۔ لاک ڈاؤن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ کیا ہم اس حقیقت کو نظر انداز کردیں کہ لاک ڈاؤن نے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے طرزِ حیات تبدیل کرنے کی تحریک دینے کی کوشش کی؟ اس وقت پورا پاکستان شدید نوعیت کی مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا انتہائی مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ عام استعمال کی دوسری بہت سی اشیا کے نرخ بھی عام آدمی کی قوتِ خرید کا منہ چڑا رہے ہیں۔ سب نے طے کرلیا ہے کہ مہنگائی کا مقابلہ اپنی عقل کے مطابق کیا جائے اور انفرادی سطح پر تو عقل یہی کہتی ہے کہ جسے جس حد تک ذبح کیا جاسکتا ہے‘ کیا جائے۔ اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سب نے طے کرلیا ہے کہ ایک دوسرے کو جس حد تک لُوٹا جاسکتا ہے‘ لُوٹ لیا جائے اور اس معاملے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہ کی جائے۔ کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جب بھی کسی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے تو لوگ اصل مہنگائی میں اپنے طور پر اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں؟ پٹرول اور سی این جی کے دام بڑھے ہیں مگر ایسے بھی نہیں بڑھے کہ کسی ایک شہر کی حدود میں کہیں جانے کے لیے رکشا، ٹیکسی والے 500 تا 800 روپے طلب کریں۔ کراچی میں بعض علاقوں کا درمیانی فاصلہ اچھا خاصا ہے‘ جب فاصلہ زیادہ ہوگا تو ایندھن بھی زیادہ خرچ ہوگا مگر رکشا ٹیکسی والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بعض علاقوں میں سڑکیں بہتر حالت میں ہونے اور انڈر پاسز کی بدولت سفر بہت آسان ہوچکا ہے۔ وقت بھی کم لگتا ہے اور ایندھن بھی زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود غیر معمولی کرایہ طلب کیا جاتا ہے۔ اگر پٹرول کا نرخ پانچ روپے فی لیٹر بڑھے تو رکشا، ٹیکسی کے کرایوں میں پچاس روپے سے زائد اضافہ کردیا جاتا ہے۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں اب عوام سے رکشا، ٹیکسی والے جی بھرکے وصولی کر رہے ہیں مثلاً کراچی میں رکشا والوں نے کم از کم کرایہ تقریباً 100 روپے متعین کرلیا ہے۔ محض تین چار کلو میٹر جانے کے بھی 200 روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔ بڑی سڑک پر کسی کو بس سٹاپ کے نزدیک ہی اترنا ہو تو زیادہ ایندھن خرچ نہیں ہوتا مگر رکشا، ٹیکسی والے اس پر بھی کم کرایہ وصول کرنے کا نہیں سوچتے اور زیادہ وصولی کرنے کی روش ہی پر گامزن رہتے ہیں۔
زیادہ وصولی صرف پبلک ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں‘ دکاندار بھی اپنی اپنی سہولت کے مطابق گاہکوں کو ذبح کرتے رہتے ہیں۔ ایک ہی چیز دس دکانوں پر دس مختلف نرخوں پر ملتی ہے۔ اشیائے خور و نوش کے دام قریب قریب ہوتے ہیں؛ تاہم دوسری بہت سی اشیا کے نرخوں میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے مثلاً ملبوسات کی خریداری ایک الجھا دینے والا عمل ہے کیونکہ ایک ہی سُوٹ کہیں تین ہزار میں دستیاب ہے تو کہیں چار ہزار میں اور کہیں وہی سُوٹ دو ہزار میں بھی مل جاتا ہے۔ ملبوسات، چپل، جوتے اور ایسی ہی دوسری بہت سی اشیا فروخت کرنے والے ایک ہی چیز کئی گاہکوں کو مختلف قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ملک بھر میں متعین کردہ قیمت والی دکانیں خال خال ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی دکانیں اور سٹور پائے جاتے ہیں جہاں ہر چیز ایک ہی دام کی ہوتی ہے۔ ایسے میں گاہک آسانی سے خریداری کرتا ہے اور اُس کی جیب پر ڈاکا بھی نہیں پڑتا۔ پاکستان میں بھی ایسی دکانیں اور سٹور متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ دکاندار ایک ہی چیز مختلف قیمتوں پر فروخت نہ کرے۔ یہ دکانداری نہیں‘ لُوٹ مار ہے۔
ملک میں مہنگائی ہے مگر کہاں ہے‘ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ جب ہر شخص اپنے اپنے شعبے کو لُوٹ مار کے لیے استعمال کر رہا ہے تو پھر مہنگائی کا رونا رونے کی ضرورت کیا ہے؟ جب بھی‘ کسی بھی سبب اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہر شعبے کے کاریگر اپنی اجرت بڑھادیتے ہیں۔ پلمبر، الیکٹریشن، مستری، مزدور، دھوبی، رنگ ساز، بڑھئی، ویلڈر، لوہار، مکینک، درزی، بھٹیارے اور دوسرے بہت سے کاریگر اپنے معاوضے میں من چاہا اضافہ کرکے لُوٹ مار شروع کردیتے ہیں۔ حالات کی تبدیلی کا اِن سے زیادہ فائدہ کوئی نہیں اٹھاتا۔ جب سبھی اپنے اپنے مقام پر وصولی میں لگے ہوئے ہیں تو پھر مہنگائی کا رونا کیوں؟ اور لطف کی بات یہ ہے کہ حالات کتنے ہی خراب ہوں اور گاہک چاہے کتنے ہی کم ہوں‘ کوئی اپنے نرخ یا چارجز گھٹانے کو تیار نہیں۔ خاصے بُرے حالات میں بھی لوگوں کو اس معاملے میں انتہائی غیر لچکدار ہی دیکھا گیا ہے۔ کوئی بھی اپنا مفاد معمولی سی حد تک بھی ترک کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سب اپنا اپنا معاوضہ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ دکاندار گاہکوں کی جیب خالی کرنے کے لیے نئے ہتھکنڈے اختیار کرتے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی طبقہ واقعی ستم رسیدہ ہے تو وہ ہے تنخواہ دار طبقہ۔ جن لوگوں کی تنخواہ معیّن ہے وہ مہنگائی کی چکّی میں بُری طرح پس رہے ہیں۔ اگر تنخواہ میں باقاعدگی سے اضافہ نہ ہو تو تنخواہ دار طبقے کے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینا عذاب کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا حکومت سے زیادہ اہلِ وطن کا اپنا فرض ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں اخلاقیات کا متعارف کرایا جانا لازم ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام اور سیاسی و سماجی قائدین مل کر کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر ایک دوسرے کو لُوٹنے سے مہنگائی ختم ہوسکتی تو پھر مہنگائی کہیں پائی ہی نہ جاتی۔