بیٹھے بٹھائے کچھ ملتا ہے نہ ملے گا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہوا، پانی، روشنی جیسی نعمتیں ہمیں بیٹھے بٹھائے ہی تو ملی ہیں‘ درست! مگر یہ بھی تو سوچئے کہ یہ تو تمام نعمتیں سبھی کے لیے ہیں تو پھر انوکھی بات کیا ہوئی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سَحرؔ نے خوب کہا ہے ؎
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل؟
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے!
جی جناب! زندگی کا مزا تب ہے کہ جب ہم کچھ کریں‘ کچھ پانے کی کوشش کریں۔ بے مانگے مل جانے والی کوئی بھی چیز کیسی ہی قیمتی ہو، ہمارے لیے معمول کے درجے میں ہوتی ہے اس لیے اُس کے حصول پر شکر تو ادا کیا جاسکتا ہے‘ فخر نہیں کیا جاسکتا اور محض اُسی کے سہارے زندگی بسر نہیں کی جاسکتی۔ عمومی سطح پر لوگ صرف جینے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی یہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے کہ سانسوں کا تسلسل برقرار رہے۔ کیا واقعی زندگی کے لیے اتنا کافی ہے؟ یقینا نہیں۔ جب تک ہم شعوری سطح پر اپنے لیے چند اہم فیصلے نہ کریں‘ کچھ کر گزرنے کا ذہن نہ بنائیں تب تک بات نہیں بنتی، زندگی کا معیار بلند نہیں ہوتا اور یوں ہمارے لیے الجھنیں برقرار رہتی ہیں۔
اس دنیا میں صرف اُنہی کو کچھ ملتا ہے جو کچھ پانے کا ذہن بناکر یعنی اہداف متعین کرکے محنت کرتے ہیں‘ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، سکت سے کام لے کر دنیا کو کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں یعنی کوئی بھی چیز ہمیں کچھ نہ کچھ ادا کیے بغیر نہیں ملتی۔ یہ بات تمام انسانوں پر منطبق ہوتی ہے۔
کسی مقصد کے تحت بسر کی جانے والی راستے میں پڑی ہوئی گٹھڑی نہیں کہ ہاتھ لگی اور وارے نیارے ہوگئے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے بھرپور ذہنی تیاری کرنا پڑتی ہے، چند فیصلے کرنا پڑتے ہیں، چند اہداف مقرر کرنا پڑتے ہیں۔ اور اگر آپ نے کچھ کرنے کی ٹھانی ہے تو اِن تمام مراحل سے گزرنا ناگزیر ہے۔ عمومی سطح سے بلند ہوکر‘ ڈھنگ سے جینے یعنی کچھ پانے اور اپنا آپ منوانے کے لیے صلاحیت اور سکت کے ساتھ ساتھ بھرپور لگن بھی ناگزیر ہے۔
جو کچھ بھی ہم چاہتے ہیں اُس کا حصول بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ متعلقہ مراحل سے سبھی کو گزرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں کسی کو بھی استثنا نہیں ملتا۔ کسی غریب کے بچے کو کچھ بننے کے لیے جتنی محنت کرنا پڑتی ہے اُتنی ہی محنت کسی مالدار کے بیٹے کو بھی کرنا پڑتی ہے۔ مالدار کے بیٹے کو تھوڑا بہت سہارا ملتا ہے تو باپ کی کمائی کی بدولت باقی تمام معاملات تو سبھی کے لیے یکساں ہیں۔ اچھا ڈاکٹر بننے کے لیے جتنا کسی غریب کے بیٹے کو پڑھنا پڑتا ہے اُتنا ہی کسی مالدار کے بیٹے کو بھی پڑھنا پڑتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی بلے باز جب وکٹ پر کھڑا ہوتا ہے تو باؤلر کا مقابلہ اُسے تنہا کرنا پڑتا ہے۔ اِس حقیقت سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کہ وہ غریب کا بیٹا ہے یا امیر کا۔ زندگی کی اٹل سچائیوں کا سامنا سبھی کو یکساں سطح پر رہتے ہوئے کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کے معاملے میں سب برابر ہیں۔ زندگی اس معاملے میں سفّاک و غیر جانبدار ہے۔ کچھ کر دکھانے کے عمل میں محنت وہ بنیادی عنصر ہے جس سے کسی کو استثنا حاصل نہیں۔ زندگی کی اٹل سچائیاں کسی سے کوئی رعایت نہیں کرتیں۔ اس حقیقت کو شعرا اور افسانوی و غیر افسانوی ادب کے مصنفین نے ہر دور میں نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ کسی نے کہا ہے ع
رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
پنڈت دتاتریہ کیفیؔ کہتے ہیں ؎
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملا ہے
اسی بات کو علامہ اقبالؔ نے انتہائی خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے ع
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
بات اِتنی سی ہے کہ ہم کچھ کریں گے تو کچھ ہوگا‘ کچھ ملے گا، اگر بے کیے کچھ حاصل ہو بھی جائے تو دیرپا نہیں ہوتا۔ اور اگر ہم مان لیں کہ دیرپا ہوتا ہے تب بھی دل کو حقیقی سُکون عطا نہیں کرتا۔ کسی ارب پتی کے بیٹے کو ترکے میں اربوں یا کروڑوں روپے مل جائیں تو زندگی آرام سے گزرتی ہے مگر اس حقیقت کا سمجھنا لازم ہے کہ اپنی محنت کا نتیجہ انسان کو زیادہ سکھ دیتا ہے۔ تحفے میں ملی ہوئی چیز بھی اچھی لگتی ہے لیکن اگر وہی چیز اپنی محنت کی کمائی سے خریدی جائے تو دل کا عالم کچھ اور ہوتا ہے۔
زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے کی ایک ہی صورت ہے ‘ کہ اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے پر توجہ دی جائے، کسی بڑے ہدف یا چند چھوٹے اہداف پر پوری توجہ مرکوز کی جائے، پوری لگن کے ساتھ کام کیا جائے، جو کچھ حاصل ہو اُس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے، مزید کچھ حاصل کرنا ہو تو مزید محنت کی جائے اور ولولے کا گراف کسی بھی مقام پر نیچے نہ آنے دیا جائے۔مسابقت سب کے لیے ہے۔ ہاں! اگر کوئی منصوبہ سازی میں مہارت رکھتا ہو اور ایسا کرنے کا عادی بھی ہو تو بہت سے مسائل زیادہ الجھنیں پیدا نہیں کرتے اور دوسروں کے مقابلے میں خاصی کم محنت سے اور آسانی کے ساتھ مطلوب نتائج کا حصول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
ہمارے سامنے دو واضح ترین آپشن ہمیشہ موجود رہتے ہیں: کچھ خاص کیے بغیر عمومی سی زندگی بسر کریں یا بھرپور لگن کے ساتھ محنت کرتے ہوئے بہت کچھ پانے کی کوشش کریں۔ دوسرے آپشن ہی کو آپشن کہنا چاہیے۔ کچھ خاص نہ کرنا آپشن نہیں بلکہ معاملات کو جھیلنا ہے۔ ایسا کرنے سے گریز ہی انسان کو بلند کرتا اور دوسروں کی نظر میں محترم بناتا ہے۔ زندگی کسی بھی مقام پر بے مسابقت نہیں۔ عمر کے ہر مرحلے میں زندگی ہمارے سامنے کئی آپشن رکھتی ہے اور ہمیں بہترین آپشن اختیار کرتے ہوئے اُس کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ کچھ نہ کرنے کا آپشن تو آپشن ہے ہی نہیں اور اگر اِسے آپشن کہیے تب بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زندگی کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ کچھ نہ کیجیے تو کچھ نہیں ملتا۔ وہ تیر کبھی لذت نہیں دیتا جو اٹک کر رہ جائے‘ یعنی مزا تب ہی ہے کہ جب سینے کے آرپار چلے۔ بہت سوں نے مٹی سے سونا پایا ہے مگر ایسا تب ممکن ہو پایا ہے جب خاک کو خوب چھانا گیا یعنی محنت کا حق ادا کیا گیا۔ بات گھوم پھر کر محنت تک آجاتی ہے۔ ہر دور کے سوچنے اور لکھنے والوں نے عام آدمی کو سب سے بڑا پیغام جہدِ مسلسل کے حوالے سے دیا ہے یعنی یہ کہ اگر زندگی کو بامقصد، بامعنی اور بارآور بنانا ہے تو محنت کے بغیر بات بنتی نہیں، کچھ ملتا نہیں۔ اس معاملے میں زندگی سفاک حد تک انصاف پسند ہے۔ بہتر زندگی اور محنت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ اصول نظر انداز کرنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ زندگی جیسی نعمت ایک بار ملتی ہے۔ اس دنیا میں ہمارا قیام عارضی یعنی ایک خاص مدت کے لیے ہے۔ اس مدت کو زیادہ سے زیادہ بارآور اور یادگار بنانے کی ایک ہی صورت ہے: محنت کیجیے، کچھ بننے اور پانے کی کوشش کیجیے۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کی ایک معقول صورت یہ بھی ہے کہ محنت کے ذریعے زندگی کو مفہوم عطا کیجیے، دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ نافع ثابت ہونے کی کوشش کیجیے۔