کون سا معاملہ ہے جس میں بے باکی لازم نہیں؟ زندگی کا کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی حد تک بے باکی کا متقاضی نہ ہو۔ ہمیں قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیلنج درپیش ہوتا ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے ہمیں بے باکی کا مظاہرہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ بے باکی سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان سوچے سمجھے بغیر آگ میں کود پڑے۔ یہ تو جذباتیت کا معاملہ ہوا۔ بے باکی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے تمام معاملات پر غور کرے اور پھر ہر اس معاملے کو کماحقہٗ نمٹانے کی کوشش کرے جس کے نمٹائے نہ جانے سے دوسرے معاملات بگڑتے ہوں۔ ویسے تو خیر ہر معاملے میں بے باکی ہی فرق پیدا کرنے والا بنیادی محرک ہے مگر قیادت کے معاملے میں بے باکی واقعی گیم چینجر ہے یعنی بروقت بروئے کار لائے جانے سے یہ ایسے نتائج پیدا کرتی ہے جن کا ہم نے صرف خواب دیکھا ہوتا ہے۔ Molly Fletcherنے ''Fearless at Work‘‘ میں بے باکی پر خاصی وقیع بحث کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ بے خوف ہوکر جینے میں کوئی نہ کوئی بڑا مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ جو اقدار آپ کو کسی بلند مقصد کی طرف لے جاتی ہوں وہ آپ میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ یہ اقدار اگر ڈھنگ سے بروئے کار لائی جائیں تو آپ کے ہر ردِعمل اور فیصلے کو قابلِ رشک بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر چھوٹا لمحہ ہمارے لیے امتحان ہوتا ہے۔ جہاں ہم پھنس کر رہ گئے ہوں وہ چند لمحات ہماری زندگی پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔
مولی فلیچر نے کیریئر کے دوران جو کچھ دیکھا‘ پڑھا اور سوچا ہے وہ سب کا سب اس کتاب میں نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کنسلٹنٹ کی حیثیت سے اپنے کرم فرماؤں سے ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا ہے اور اُن کے تجربے سے اپنے قارئین کو مستفید کرنے کی اچھی سعی کی ہے۔ وہ ر لکھتی ہیں کہ قیادت کے معاملے میں صرف بے باکی ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ قائد ہی نہیں جو بے خوف نہ ہو۔ جہاں جو کچھ کرنا ہے وہاں قائد کو وہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ بے جا خوف سے نجات پاکر ہم اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق سوچ سکتے ہیں۔ اس کا مثبت اثر ہمارے فیصلوں پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ یہ مشکلات ہی تو ہیں جو ہمیں آگے بڑھاتی ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں ہمارا ذہن زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔ اگر ہم بے جا طور پر حواس باختہ نہ ہوں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکل صورتِ حال کا سامنا کریں تو مسائل کے حل کی راہ سُوجھتی ہے۔ صورتِ حال جب چیلنج بن جاتی ہے تب ہم کچھ سوچنے اور کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ اس عمل ہی میں زندگی کا حُسن مضمر ہے۔
قیادت اور بے باکی کا تعلق مبادیات سے ہے، یعنی یہ کہ ہم کن اقدار پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ بے باکی لمحۂ موجود میں رہنے کا نام ہے۔ جب کوئی خوف کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا ہے تب وہ لمحۂ موجود سے بھرپور لطف کشید کر رہا ہوتا ہے۔ بے باکی ہمیں سکھاتی ہے کہ گزرے ہوئے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھنے اور آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر بدحواس ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم لمحۂ موجود میں رہتے ہوئے اپنے لیے امکانات تلاش کریں۔ کامیابی کی طرف لے جانے والا راستہ یہی ہے۔ بہت سے چھوٹے معاملات ہمیں بڑی کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چھوٹی باتوں کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ زندگی ہم سے ہر معاملے میں بھرپور توجہ کی طالب رہتی ہے۔ اگر بھرپور کامیابی درکار ہے تو ہر معاملے پر خاطر خواہ توجہ دینا ہوگی۔ ہم کامیابی کی طرف سے تیزی سے اُسی وقت بڑھتے ہیں جب ہم لگی بندھی زندگی کو تج کر ایسی زندگی اپناتے ہیں جس میں بے خوفی ہو۔ بے خوف ہوکر جینے میں بہت سے فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ ایسی صورت میں انسان اپنی مرضی کے مطابق جی سکتا ہے۔ بہت سے لوگ کیریئر اور معاشرتی تعلقات کے حوالے سے ڈرتے رہتے ہیں اور یوں انہیں ایسے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا جو اُن کی پسند کے ہوں۔ تجسّس ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ ایسے میں اگر خوف دامن گیر رہے تو بات بنتی نہیں۔ تجسّس کی بدولت ہم نئی دنیا تلاش کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ پرانی دنیا سے نکلتے وقت محسوس ہونے والے خوف کو نظر انداز کرنے ہی سے معاملات درست ہو پاتے ہیں۔ زندگی میں نئی کہانی کی بہت اہمیت ہے۔ لگی بندھی زندگی بسر کرنے والوں میں آگے بڑھنے کی لگن کمزور پڑتی جاتی ہے۔ نئی کہانی کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں کچھ تو نیا ہونا چاہیے۔ ندرت اور جدت ہی سے زندگی کا حسن برقرار رہتا ہے۔ ہمیں بہت سے معاملات میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تھوڑا بہت دباؤ ہمارے لیے اچھا بھی ہوتا ہے کیونکہ ہم کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں، کچھ کرنے کی امنگ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔ اگر زندگی دباؤ کے بغیر ہو تو بالعموم پتھریلی سی ہو جاتی ہے یعنی اُس میں رونق باقی رہتی ہے نہ دل کشی۔ ایسے میں پورا ماحول بے جان سا دکھائی دینے لگتا ہے۔
الفاظ کچھ نہیں ہوتے‘ اصل چیز ہے عمل! ہم بہت کچھ سوچتے اور کہتے ہیں مگر فرق اُسی وقت رونما ہوتا ہے جب ہم کچھ کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ عمل ہی ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ سُجھاتا ہے۔ بہت زیادہ سوچنے سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ خوف عمل ہی سے دور ہو سکتا ہے۔ بے خوفی کو زندگی کا بنیادی شعار بنانے سے ہم آرام طلبی یا تن آسانی چھوڑ کر واضح سوچ اپناتے ہیں۔ کچھ کر گزرنے کی لگن ہمیں واضح سوچ کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ ذہن پر کوئی غیر ضروری دباؤ نہ ہو تو انسان ڈھنگ سے جینے کی راہ پر مائل ہوتا ہے۔ بھرپور کامیابی کے لیے سوچ کا واضح ہونا لازم ہے۔ خود کو پہچانیے۔ دیکھیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا ہے۔ اپنے بارے میں ہر معاملہ ذہن میں واضح ہو تو عمل کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔ اگر ذہن واضح نہ ہو تو وقت، وسائل اور توانائی تینوں کا کا ضیاع ہوتا ہے۔ وہ ایسے کہ ہم ان تینوں کے معاملے میں دوسروں کی مرضی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ یوں زندگی بے عملی اور خوف کی نذر ہو جاتی ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے خوف کو گلے لگائیے۔ جی ہاں! خوف سے جان چھڑانے کے بجائے اُسے گلے لگانا لازم ہے۔ بے باکی کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھئے۔ یہ نکتہ ہر گام ذہن نشین رہے کہ خوف کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اُس پر فتح پائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے شعور کو اہم لمحات شناخت کرنا سکھانا ہے۔ بے جا طور پر کسی خطرے کو گلے لگانا اچھی بات نہیں مگر جہاں ضروری ہو وہاں خطرہ مول لینے میں کچھ ہرج نہیں۔ خطرہ مول لینے کی ذہنیت بھی محنت سے سیکھی جاسکتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں خوف سے نظر چرانے کے بجائے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا سیکھئے۔ کسی بھی صورتحال سے بے جا طور پر ڈرنا ہمارے مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔ ہر معاملے میں ڈرتے رہنے سے عمل کا جذبہ سرد پڑتا چلا جاتا ہے۔ جو انسان خطرات مول لینا سیکھ جاتا ہے وہ غیر ضروری طور پر نہیں ڈرتا۔ جہاں اپنی بات پر ڈٹ جانا لازم ہو وہاں ڈٹے رہیے اور جہاں دوسروں کی بات ماننا لازم ٹھہرے وہاں دوسروں کو تسلیم کیجیے۔ مولی فلیچر نے ''فِیئر لیس ایٹ ورک‘‘ کے ہر باب میں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایسے مشوروں سے نوازا ہے جن پر عمل کرکے ہم زندگی کا معیار بلند کرسکتے ہیں، بے باکی سے فیصلے کرسکتے ہیں۔ ایسے میں حکمتِ عملی کے مطابق کام کرنا بھی ممکن ہو جاتا ہے اور مطلوب نتائج آسانی سے یقینی بنائے جاسکتے ہیں۔ بس اتنا یاد رہے کہ پیشہ ورانہ زندگی ہو یا معاشرتی معاملات‘ بے جا خوف ہمیں جکڑ دیتا ہے۔ ایسی حالت میں صرف بے عملی کا آپشن رہ جاتا ہے۔ بہت سوں کو یہ آپشن بہت پسند ہوتا ہے۔ اِسے سے زیادہ مزے کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کچھ کرنا ہی نہ پڑے!