یہ تو سبھی کی خواہش ہے۔ جی ہاں! سب یہی تو چاہتے ہیں کہ زندگی اچھی طرح گزرے مگر یہ کوئی جادو کا معاملہ تو ہے نہیں کہ کہا اور ہوگیا۔ جادو کی نگری ہوا کرتی تھی یا نہیں‘ یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں! اِتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ ہم جس میں جی رہے ہیں وہ حقیقت کی دنیا ہے اور اس دنیا میں جادو‘ وادو کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں زمینی حقیقت ہی سب کچھ ہے۔ بیٹھے بٹھائے کچھ بھی نہیں ملتا۔ جو کچھ بھی ہمیں درکار ہے وہ کسی نہ کسی طور حاصل کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور اچھی زندگی؟ یہ تو ستاروں کو چھونے والا معاملہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور حقیقی مسرت کا حصول ناممکن تو نہیں مگر ایسا آسان بھی نہیں کہ بات منہ سے نکلے اور پوری ہو جائے۔ حقیقی مسرّت محض اُس کے حصول کا فیصلہ کرلینے سے حاصل نہیں ہو جاتی۔ جو کام ہمیں اچھے لگتے ہیں اور جن میں گم رہنے سے دل کو خوشی ملتی ہے اُن میں گم رہنے ہی سے ہم زیادہ سے زیادہ مسرّت یقینی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ہر وہ انسان مسرّت سے ہم کنار ملتا ہے جو زندگی سے پیار کرتا ہے‘ ڈھنگ سے جینے میں دلچسپی لیتا ہے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ بیزاری سے واضح بیزاری کا اظہار کیا جائے۔ جو لوگ کسی جواز کے بغیر بیزار سے رہتے ہیں وہ اپنی شخصیت کو گھن لگاتے رہتے ہیں۔ ہمیں بخشی جانے والی زندگی بیزاری، اداسی، بے حسی اور دیگر غیر ضروری رجحانات کے لیے ہرگز نہیں۔ ڈھنگ سے وہی لوگ جی پاتے ہیں جو اس بات کو سمجھتے ہیں کہ زندگی کے نام پر عطا کی جانے والی سانسیں ضائع کرنے کی چیز نہیں۔ جوناتھن فیلڈز نے دنیا گھوم کر بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے‘ اس نے مفکرین، مصلحین، محققین اور دیگر اہلِ دانش سے بات کی ہے۔ مذہبی پیشواؤں سے بھی ملاقات کی ہے اور یہ جاننا چاہا کہ انسان زیادہ سے زیادہ مسرّت کا حصول کس طور یقینی بناسکتا ہے۔ اس نے فطری علوم و فنون اور روحانیت میں تعلق بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوناتھن کا تجربہ ہمیں ''ہاؤ ٹو ہیو اے گڈ لائف‘‘ (اچھی زندگی کیسے بسر کریں) میں ملتا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے جوناتھن نے بتایا ہے کہ اچھی زندگی بسر کرنا ناممکن تو نہیں مگر ہاں! اس کے لیے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ اس میدان میں مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے ہوا کرتا ہے!
کیا ہم محض 30 دن میں اپنی زندگی کا رخ بدل سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں جوناتھن نے لکھا ہے کہ زندگی کا رخ تو کسی ایک لمحے ہی میں بدل جاتا ہے۔ مگر اُس سمت بڑھنا انسان سے بہت کچھ طلب کرتا ہے، بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے اور دوسرا بہت کچھ اپنانا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات رونما ہو جانے والا معاملہ نہیں۔ 30 دن میں ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، ایک نئی زندگی کی ابتدا کرنے کے حوالے سے ذہن بناسکتے ہیں اور کوئی لائحۂ عمل مرتب کرکے ایسا بہت کچھ کرسکتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ ساتھ خود ہمیں بھی حیران کردے۔ مذکورہ کتاب کا ہر باب کسی نہ کسی واقعے یا کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ یوں ہر باب ایک کورس (نصاب) کا سا درجہ رکھتا ہے۔ اگر آپ اس کتاب کے ہر باب میں بیان کی جانے والی کہانی پر غور کریں گے تو کچھ نہ کچھ ایسا کرنے کی تحریک ضرور ملے گی جس سے زندگی کی معنویت میں اضافہ ممکن ہو۔ جوناتھن فیلڈز کہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اُسے کسی کہانی یا ناول کی طرح نہ پڑھا جائے بلکہ جو کچھ پڑھا جائے اُس سے لطف کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے مطابق اپنی طرزِ فکر و عمل کو تبدیل کرنے پر بھی توجہ دی جائے تاکہ زندگی میں کچھ تو نیا رنگ اور کشش پیدا ہو۔
جو لوگ چاہتے ہیں کہ زندگی زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہو اور حقیقی مسرّت کا حصول ممکن بنایا جائے انہیں یہ نکتہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اچھی زندگی کوئی مقام نہیں جس تک پہنچا جائے۔ اچھی زندگی تو وہ عینک ہے جس سے ہم دنیا کو دیکھتے ہیں اور اپنی مرضی کا ماحول تیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت حد تک ہماری پسند و ناپسند پر منحصر ہے۔ زندگی کس طور گزرنی چاہیے اس کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے لازم ہے کہ انسان کی صحت بہت اچھی ہو، وہ تمام ضروری لوگوں اور اداروں سے رابطے میں رہے اور یہ بھی طے کرے کہ اُسے اس دنیا میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔ خراب صحت کے ساتھ ہم اپنے کسی بھی معاملے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے سکتے۔ انسان اپنے حصے کا ہر کام اچھی طرح اور پورے من کے ساتھ اُسی وقت کرسکتا ہے جب صحت کا معیار بلند ہو۔ اِسی طور یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ آپ زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے تمام متعلقہ افراد سے رابطے میں رہیں اور اُن تمام اداروں سے بھی آپ کا تعلق استوار رہے جو آپ کی زندگی میں کچھ نہ کچھ معنویت پیدا کرسکتے ہوں۔ اگر آپ اس دنیا سے کچھ چاہتے ہیں تو اسے کچھ دینا پڑے گا۔ یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ اس دنیا کو کیا دے پائیں گے۔ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں کچھ ایسا کیوں نہ کیا جائے جو اس دنیا کو کسی نہ کسی حوالے سے اَپ گریڈ کرے؟ اچھی زندگی کے لیے تجسّس بنیادی شرط ہے۔ آپ کو کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ جب آپ کچھ نیا سیکھیں گے تو کچھ نیا کرنے کی امنگ اور لگن پیدا ہوگی۔ اسی میں زندگی کا حسن پوشیدہ ہے۔ کچھ نیا کرنے کے لیے جوش اور ولولہ بنیادی شرط ہے۔ جب کوئی انسان پورے جوش و خروش کے ساتھ کچھ نیا کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب زندگی کو نیا رنگ ملتا ہے، اس کے زیادہ بارآور ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اچھی زندگی بسر کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ہمیں مختلف محاذوں پر متحرک رہنا پڑتا ہے۔ تجسّس، پیش بینی، انہماک، مہارت اور خدمت بنیادی محاذ ہیں۔ آئیے ان محاذوں کا الگ الگ جائزہ لیں۔آپ میں تجسّس کا مادّہ کبھی ماند نہیں پڑنا چاہیے۔ کچھ نیا جاننے کی خواہش ہی انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتی ہے اور یوں وہ حقیقی مسرّت سے ہم کنار ہو پاتا ہے۔ تجسّس ہی انسان کو نئی دنیاؤں کی تلاش کے لیے متحرک کرتا ہے۔ اس دنیا کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ تجسّس ہی کی بدولت ملا ہے۔ پیش بینی کی صلاحیت کو پروان چڑھانا بھی ناگزیر ہے۔ جس دنیا میں آپ جی رہے ہیں وہ کچھ مدت کے بعد کیسی ہوجائے گی اس کا اندازہ لگانا بہت اہم ہے۔ ممکنہ تبدیلیوں کو محسوس کرنا اور اُن کی تصویر ذہن میں تیار کرنا لازم ہے۔ اِسی صورت آپ خود کو کچھ نیا کرنے پر مائل ہو پائیں گے اور یوں زندگی حقیقی مسرّت سے زیادہ قریب ہوسکے گی۔ اس دنیا کو انہی شخصیات نے کچھ دیا ہے جنہوں نے آنے والے دور کی تصویر ذہن میں تیار کی اور جلد رونما ہونے والی تبدیلیوں کا معقول حد تک اندازہ لگایا۔
انہماک کے بغیر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ آپ جس شعبے میں ہیں اُس میں اپنے آپ کو کھپا دیجیے۔ کچھ کر پانے اور پانے کا معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے کام میں گم ہو جائیے۔کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت ہی زندگی میں کچھ معنویت پیدا کرتی ہے۔ اپنے پیشہ ورانہ معاملات میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے ہی ایسا کچھ کر پاتے ہیں جسے دنیا دیکھے اور سراہنے سے پہلے حیران رہ جائے۔ مہارت ہی کی بدولت انسان فرق پیدا کر پاتا ہے۔ خدمت کا جذبہ انسان کو عظمت سے ہم کنار کرتا ہے۔ جو لوگ کچھ حاصل کرنے سے زیادہ دینے پر یقین رکھتے ہیں وہ سب کی آنکھوں کے تارے ہوتے ہیں۔ جب ہم خلوص کے ساتھ کچھ دینے پر مائل ہوتے ہیں تب حقیقی مسرّت ہمیں تلاش کرتی ہے۔ یہی ہے اچھی زندگی۔ خلوص کے ساتھ خدمت کا جذبہ پایا جائے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی اچھی زندگی کی تلاش ختم ہوئی۔