ہم عام طور پر کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھ کر کچھ کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ کامیاب انسانوں کی زندگی میں دولت بھی ہوتی ہے اور شہرت بھی۔ ہم انہیں دیکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیں بھی ملنا چاہیے۔ کسی بڑے کھلاڑی، فنکار، بزنس مین یا سیاستدان کو دیکھ کر ہمارا دل کہتا ہے کہ کچھ کیا جائے، کامیابی کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ کسی کی کامیابی سے تحریک پانا مستحسن ہے مگر یاد رکھیے کہ تحریک پانے کا یہ طریقہ درست نہیں۔ کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھ کر ہم تھوڑی سی تحریک پاتے ہیں اور وہ بھی وقتی نوعیت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی کامیاب انسان سے کچھ بھی اُسی وقت سیکھا جاسکتا ہے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ وہ کن مراحل سے گزر کر کامیابی کی منزل تک پہنچ سکا ہے۔ ہم سورج کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ وہ کس قدر روشن ہے اور کائنات کے ہر کونے کو روشن رکھتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ سورج ایک چراغ ہے اور ہمیں روشن و گرم رکھنے کی خاطر اُسے جلنا پڑتا ہے! جو اپنی آگ میں جلتے ہیں‘ وہی کچھ کر پاتے ہیں، کچھ دے پاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جسے سمجھنے کے لیے ذہن پر بہت زور دینا پڑے۔ جب پاکستان قائم ہوا تب ابتدائی دور میں کسی بھی شعبے کی کوئی کَل سیدھی نہ تھی۔ تمام معاملات کچھ کے کچھ ہوئے جاتے تھے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی آگے بڑھنے کی راہ آسانی سے دکھائی نہ دیتی تھی۔ سبھی پریشان تھے۔ بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی تھی۔ بھارت سے آنے والے بیشتر گھرانے بے سَر و سامان تھے۔ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا تھا۔ ایسے میں فنونِ لطیفہ سے محظوظ ہونے کا ہوش کِسے تھا؟ اور اِس کی گنجائش بھی کہاں تھی؟
ملک کے ابتدائی دور میں فلم انڈسٹری کا بھی بہت برا حال تھا۔ تین چار سال تک تو کسی کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے۔ خیر! 1953ء کے بعد فلم انڈسٹری نے کچھ جان پکڑی تو فلمیں باقاعدگی سے ریلیز ہونے لگیں۔ ابتدائی دور میں مقبول ترین فلمی گلوکار عنایت حسین بھٹی، علی بخش ظہور، منیر حسین اور سلیم رضا تھے۔ ایسے میں شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے 1956ء میں فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ چار بڑے، کامیاب گلوکاروں کی موجودگی میں خود کو منوانا مہدی حسن کے لیے آسان نہ تھا۔ اُنہوں نے خود یہ بات کہی تھی کہ ابتدا میں اُن کی آواز ایسی پتلی تھی جیسے کوئی بچہ گارہا ہو۔ پھر اُنہوں نے کئی سال کے ریاض کے ذریعے آواز کو بہتر بنایا۔ اِس دوران اُنہیں فلمی دنیا میں برائے نام بھی کامیابی نہ مل سکی۔
مہدی حسن نے 1956ء میں ''شکار‘‘ کے لیے ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کا لکھا ہوا گیت ''میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے‘‘ گاکر فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ اِسی فلم میں انہوں نے ''نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہو جائے‘‘ بھی گایا۔ فلم ناکام رہی۔ مہدی حسن کو ''شکار‘‘ کے بعد ''سسرال‘‘ (1963ء) تک صرف 9 گانے مل پائے! آج کسی سے پوچھئے کہ کیا وہ اس نوعیت کا دباؤ برداشت کرسکتا ہے تو جواب نفی میں ملے گا۔ تب مہدی حسن شہنشاہِ غزل نہیں تھے۔ اُن کی تو آواز بھی پوری طرح پختہ نہیں تھی۔ فن کے اسرار و رموز بھی وہ ابھی سیکھ ہی رہے تھے۔ ''شکار‘‘ کے گانے ریکارڈ کرانے کے بعد اُنہیں ریڈیو پاکستان کے لیے باضابطہ طور پر منتخب کرکے اے کیٹگری دی گئی۔ ریڈیو پر گانے کا معاوضہ؟ ایک گھنٹے کا پروگرام کرنے کے صرف 35 روپے ملا کرتے تھے! مہدی حسن نے ہمت بالکل نہیں ہاری اور فلموں میں کامیابی ملنے تک ریڈیو پاکستان پر پوری لگن کے ساتھ گاتے رہے۔ اس دوران انہوں نے نجی محفلوں میں گانے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کا عمل بھی جاری رکھا۔ اُن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر ریڈیو پاکستان میں ملازم تھے۔ وہ غزلوں کی دُھنیں ترتیب دینے کے معاملے میں مہدی حسن کی معاونت کرتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مہدی حسن کو مستقبل کے لیے تیار ہونے میں بھی مدد دی۔
مہدی حسن کی مستقل مزاجی اور لگن رنگ لائی اور دنیا نے انہیں تسلیم کیا۔ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوگیا۔ ان کی آواز بہت نفیس و نازک تھی جو فلموں کے لیے زیادہ موزوں نہ تھی۔ ابتدائی دور میں اُنہوں نے جی ایم دُرانی کے رنگ میں گیت گائے۔ تب ان کی آواز پتلی تھی۔ جب آواز پختہ ہوئی تب انہوں نے ایسی غزل سرائی کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ مہدی حسن نے کیریئر کی ابتدا میں حالات کو جس طور برداشت کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ عزت ان کے لیے ہے جو میدان میں ڈٹے رہیں، مقابلے سے دست بردار نہ ہوں۔ ذرا پھر سوچئے کہ 7 سال میں صرف 9 گیت! ایسے میں تو کوئی بھی ہمت ہار سکتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ کیریئر کے ابتدائی مرحلے ہی میں غیر معمولی کامیابی کے خواہش مند ہوتے ہیں اور جب کامیابی نہیں ملتی تو ہمت ہار کر محنت ترک کردیتے ہیں۔ جن لوگوں میں صلاحیت برائے نام ہوتی ہے وہ بھی پہلے ہَلّے میں بھرپور کامیابی چاہتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات کس قدر وقیع ہے کہ مہدی حسن نے غیر معمولی صلاحیت کے ہوتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں ناکامی سے دل برداشتہ ہونے کے بجائے ڈٹے رہنے کو ترجیح دی، حالات کا جبر برداشت کیا۔ انہیں اپنے فن اور لگن دونوں پر بھروسہ تھا۔ قوتِ ارادی بھی اُسی وقت کچھ کر دکھاتی ہے جب بندے کو کچھ آتا ہو۔ مہدی حسن کو شہنشاہِ غزل کے طور پر اپنے سامنے پاکر رشک محسوس کرنا اور بات ہے اور اُن کے شہنشاہِ غزل بننے تک کے عمل پر نظر ڈال کر کچھ سیکھنا اور بات۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں کسی بھی شعبے کے نمایاں ترین افراد میں وہ لگن خال خال دکھائی دی ہے جو مہدی حسن کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ یہ بات کم لوگ محسوس کر پاتے ہیں کہ مہدی حسن نے شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد جو کچھ کیا وہی کچھ انہوں نے جدوجہد کے دور میں بھی کیا یعنی معیار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ جب دنیا نے انہیں تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ شہنشاہِ غزل کے درجے پر فائز نہ ہوئے تھے تب بھی انہوں نے اپنا فن بروئے کار لانے میں تساہل برتا نہ بُخل۔ ایسی ہوتی ہے لگن اور ایسا ہوتا ہے ڈٹے رہنا۔
آج کے پاکستانی معاشرے کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو صرف صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں بلکہ کامیابی کا انتظار کرنا بھی جانتے ہوں۔ صلاحیت کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ حالات کا جبر بھی برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ ہر بڑے آدمی نے اِسی طور کامیابی حاصل کی ہے۔ ہم بالعموم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کو کامیابی ملی ہے تو اُس کے ساتھ کتنی دولت اور شہرت آئی ہے۔ یہ سب کچھ یقینی بنانے کے لیے انسان کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اُن تک ہماری نظر نہیں جاتی۔ ہم کسی کی عظمت دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں، اُسے رشک سے دیکھتے ہیں مگر اُس کی جدوجہد سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مہدی حسن کا چاند چڑھا تو دنیا نے دیکھا مگر ریڈیو پاکستان کے سٹوڈیوز کے میکانیکی ماحول میں انہوں نے خود کو پروان چڑھانے کیلئے جو جدوجہد کی اُس کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب وہی رہتے ہیں جو سب کچھ جھیلتے ہوئے کامیابی کا انتظار کرنا جانتے ہیں۔ یہ قوتِ ارادی کا معاملہ ہے۔ اس نوعیت کا تحمل غیر معمولی تربیت ہی سے ممکن ہو پاتا ہے۔ جس نے اپنی صلاحیت کو پروان چڑھانے پر زیادہ محنت کی ہے وہی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا بھی اچھا وقت آئے گا۔ محنت رائیگاں نہیں جاتی مگر محنت کو بار آور ہوتی ہوئی دیکھنے کے لیے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ مرحلہ بیشتر کے لیے جاں گُسل ثابت ہوتا ہے۔ مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لینے سے انسان یہ سیکھتا ہے کہ پے در پے ناکامیوں کے باوجود کس طور ڈٹے رہنا ہے۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ انسان ہمت نہ ہارے اور اچھے وقت کا انتظار کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرنے کے لیے بھی تیار رہے۔