وقت ہی سب کچھ ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کا اصلاً تعلق وقت سے ہے۔ کوئی بھی کام کس طور کرنا چاہیے اور کیوں کرنا چاہیے‘ یہ سب کچھ بہت اہم سہی مگر سب سے بڑھ کر یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی کام اُسی وقت کرنا چاہیے جب وہ واقعی کیا جانا چاہیے۔ ہمیں یونہی اندازہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی کام کے کرنے کا موزوں ترین وقت کون سا ہے۔ اس حوالے سے ذہن کو فعال رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ جاننا اور سیکھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی کام کے کیے جانے کا موزوں ترین وقت یعنی ٹائمنگ جاننا ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہمیں مرتے دم تک فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ ہر فیصلہ ٹائمنگ کے معاملے میں ہم سے معقول ترین رویے کا طالب رہتا ہے۔ کسی بھی سطح اور نوعیت کے فیصلے کی کامیابی کا مدار ٹائمنگ پر ہے۔ بازار میں ایسی ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں جن میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام کیسے کیا جائے۔ اب چند ایک کتابیں اس موضوع پر بھی مل جاتی ہیں کہ کوئی بھی کام کیا ہی کیوں جائے۔ ہاں! کسی بھی کام کی بہترین یا موزوں ترین ٹائمنگ شناخت کرنے کا فن سکھانے والی کتابیں خال خال ہیں۔ ڈینیئل پنک نے ''وھین : دی سائنٹفک سیکریٹس آف پرفیکٹ ٹائمنگ‘‘ میں بتایا ہے کہ کسی بھی معاملے میں سب سے اہم عامل ہے ٹائمنگ۔ زندگی کا ہر معاملہ ٹائمنگ سے شروع ہوکر ٹائمنگ پر ختم ہوتا ہے۔ ڈینیئل پنک نے مختلف شعبوں میں کم و بیش 700 سٹڈیز کا جائزہ لینے کے بعد ٹائمنگ کے حوالے سے چند نتائج اخذ کیے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی سطحوں پر ٹائمنگ وہ حقیقت ہے جس سے کسی بھی طور صرفِ نظر ممکن نہیں۔ جو لوگ ٹائمنگ کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے یا کم اہمیت دیتے ہیں اُن کی زندگی میں مسائل نہ صرف بڑھتے ہیں بلکہ پیچیدہ تر بھی ہوتے جاتے ہیں۔
ایک حقیقت ایسی ہے کہ محض اس دنیا پر موقوف نہیں بلکہ پوری کائنات کیلئے ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ ہر معاملہ ابتدائی مرحلے سے گزر کر پختگی کی طرف مائل ہوتا ہے، پختہ ہوتا ہے اور پھر پختگی کی منزل سے بڑھ کر تھکن اور اضمحلال کی طرف جاتا ہے اور آخر میں ختم ہو جاتا ہے۔ کسی بھی تہذیب کی تاریخ پڑھئے، یہی حقیقت ہر معاملے میں کارفرما ملے گی۔ یہ حقیقت یا اصول ریاستوں، اقوام اور معاشروں پر بھی اطلاق پذیر ہے۔ اگر زیادہ دور جانے کی ہمت نہیں ہے تو صرف دن پر غور کیجیے۔ جی ہاں! ہر دن تین مراحل سے گزرتا ہے۔ سورج نکلتا ہے تو رات رخصت ہوتی ہے اور توانائی کا احساس ہم میں جاگزیں ہوتا ہے۔ فجر سے ظہر تک ہم میں غیر معمولی توانائی ہوتی ہے۔ پھر دن ڈھلنے لگتا ہے تو ہمارے وجود میں توانائی کی سطح بھی گرتی چلی جاتی ہے۔ اور سورج کے غروب ہونے کے بعد ہم میں توانائی خاصی کم رہ جاتی ہے۔ ہر دن خصوصیات کے حوالے سے ان تین کیفیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے والے ٹائمنگ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
لوگ عام طور پر اس حقیقت کو زیادہ قابلِ توجہ نہیں سمجھتے کہ صبح کے اوقات میں کام کرنے والے زیادہ کامیاب اور زیادہ خوش رہتے ہیں۔ صبح چار بجے سے گیارہ بجے تک جسم میں توانائی کی سطح خاصی بلند رہتی ہے۔ توانائی کی یہ بلند سطح انسان کو مختلف کام بہتر طریق سے انجام تک پہنچانے میں غیر معمولی مدد دیتی ہے۔ جو لوگ علی الصبح بیدار ہوکر کام شروع کرتے ہیں وہ زیادہ اور بہتر کام کرتے ہیں۔ صبح گیارہ یا دن کے بارہ بجے بیدار ہوکر معاشی سرگرمی میں مصروف ہونے والوں کو کچھ زیادہ ہاتھ نہیں آتا۔ اگر کوئی رات دیر سے سوئے اور دن چڑھے اٹھے تب بھی اُس میں توانائی کی مطلوب سطح نہیں پائی جاتی۔ صبح کے اوقات میں ماحول کی تازگی انسان کو زیادہ توانائی فراہم کرتی ہے۔ صبح کے اوقات میں پڑھنے والے طلبہ کلاس روم اور کمرۂ امتحان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو طلبہ سکول جانے سے قبل یعنی علی الصبح ٹھنڈے اور پُرسکون ماحول میں کچھ دیر پڑھتے ہیں وہ کلاس روم میں خاصی آسانی سے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ بچوں کے لیے البتہ صبح کی نیند بہت اہم ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا کی اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس نے ریاستی حکومتوں سے باضابطہ استدعا کی ہے کہ مڈل اور ہائی سکول کے طلبہ کو صبح ساڑھے آٹھ بجے سے قبل سکول نہ بلایا جائے یعنی انہیں نیند پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔ امریکا کی سات ریاستوں میں تیس ہزار سے زائد طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ علی الصبح سکول نہ بلائے جانے کی صورت میں ان کی کارکردگی کا معیار بلند ہوا۔ ہمیں زندگی بھر مختلف معاملات میں کس طرح اور کیوں سے کہیں زیادہ کب پر توجہ دینی چاہیے‘ آئیے! اس معاملے کو ایک روزہ کرکٹ میچ کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچاس اوور کے میچ میں ہر ٹیم چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سکور کرے۔ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم پر بالعموم زیادہ دباؤ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے سامنے کوئی ہدف نہیں ہوتا۔ اُسے ہدف دینا ہوتا ہے۔ اگر وہ ہدف دینے کو بھی دباؤ سمجھے تو کھیل چکی اور جیت چکی۔ ایک روزہ کرکٹ میچ میں دوسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو بہت سوچ سمجھ کر کھیلنا پڑتا ہے کیونکہ اُس کے سامنے ایک ہدف ہوتا ہے۔ اُے پوری حکمتِ عملی ہدف کے مطابق ترتیب دینا ہوتی ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میچ میں ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کو اپنی اننگز دس دس اوورز میں تقسیم کرکے حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوتی ہے۔ مخالف ٹیم کے باؤلرز کی لیاقت اور مہارت دیکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ ابتدائی دس اوورز احتیاط سے جھیلنا پڑتے ہیں تاکہ وکٹ ضائع نہ ہو۔ بیسویں اوور تک کھیل میں تھوڑی تیزی لانا پڑتی ہے تاکہ اننگز کے وسط تک پہنچتے پہنچتے سکور معقولیت کی حد کو چُھو رہا ہو۔ اننگز کی تیسری دہائی یعنی اکیسویں سے تیسویں اوور تک تیز پھر سنبھلتے ہوئے تیز بیٹنگ کرنا پڑتی ہے تاکہ ہدف تک پہنچنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تیسویں اوور کے بعد چالیسویں اوور تک کھیل میں مزید تیزی لانا پڑتی ہے اور سنگلز، ڈبلز کا موقع ضائع کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ چالیسویں اوور کے بعد غیر معمولی طور پر محتاط رہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ مرحلہ مار دھاڑ کا ہے۔ اگر کوئی ٹیم چالیسویں اوور کے بعد بھی مار دھاڑ سے گریز کرے تو ہدف تک پہنچنا جوئے شیر لانے جیسا ہو جاتا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کا جب اچھا وقت چل رہا تھا تب شاہد آفریدی کو ٹائمنگ کے مطابق استعمال کرنے سے کئی بار میچ جیتنا ممکن ہوا۔ شاہد آفریدی گیم چینجر تھے۔ وہ ایسے وقت میدان میں اتارے جاتے تھے جب مخالف ٹیم کے باؤلرز کی دُھنائی مقصود ہوتی تھی۔ متعدد مواقع پر ایسا ہوا کہ شاہد آفریدی میدان میں آئے، محض بیس پچیس بالز تک میدان میں رہے اور اس دوران پچاس ساٹھ رنز سکور کرکے میچ کا رخ تبدیل کیا اور رخصت ہوگئے۔ یوں بعد میں آنے والوں کا کام آسان ہوگیا۔
زندگی کو ایک روزہ میچ کی طرز پر بسر کیجیے۔ جس وقت جو کچھ کرنا لازم ہو اُس وقت وہی کچھ کرنا چاہیے۔ زندگی مختلف مراحل میں مختلف تقاضے کرتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر کام کرنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں آپ کو جو وقت دیا گیا ہے وہ پوری احتیاط کے ساتھ بروئے کار لانا ہے۔ اپنے وقت کے کس مرحلے میں آپ کو کیا کرنا ہے یہ اندازہ لگانا لازم ہے۔ اِسی طور آپ زیادہ انہماک کے ساتھ کام کرسکیں گے، ڈھنگ سے جی سکیں گے۔ وقت کے بہترین استعمال کے حوالے سے بازار میں درجنوں کتابیں دستیاب ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے آپ سمجھ پائیں گے کہ ہمیں کب کیا کرنا چاہیے اور یہ کہ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کا موزوں ترین وقت کون سا ہے۔ وقت کو بالعموم اور ٹائمنگ کو بالخصوص نظر انداز کرنے کا مطلب ہے اپنے پاؤں پر کلہاڑی‘ بلکہ کلہاڑا مارنا۔