"MIK" (space) message & send to 7575

ہچکولے

سلطان کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو دوسروں کی زندگی میں بھی ہوا کرتا ہے یعنی جو کچھ اُس پر بیتی ہے وہ کسی بھی درجے میں انوکھا یا حیرت انگیز نہیں۔ پھر بھی یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ سلطان دن رات اِسی اُدھیڑ بُن میں رہتا ہے کہ کسے یاد رکھے، کسے بھول جائے۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہ زندگی کی ایک تلخ مگر اہم حقیقت کو بھول بیٹھا ہے۔ سلطان کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ جو کچھ بھی ہوچکا ہے وہ اب تبدیل نہیں کیا جاسکے گا اور جو کچھ ہونے والا ہے اُسے تبدیل کرنا کسی حد تک ہمارے اختیار میں سہی مگر پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ کب کیا ہوگا۔ سلطان نے کیریئر کے طور پر غلط شعبے کا انتخاب کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا شعبہ منتخب کرنے کے معاملے میں اُس کا فیصلہ غلط تھا۔ کوئی بھی شعبہ صحیح یا غلط نہیں ہوتا، ہم انتخاب کے مرحلے میں سادہ لوحی کے ہاتھوں یا پھر عجلت پسندی کے باعث کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں جو بعد میں بڑے پچھتاوے کا مآخذ ثابت ہوتی ہے۔ سلطان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اُس نے بیک وقت کئی شعبوں میں دلچسپی لی۔ تعلیم کا سلسلہ مکمل ہونے تک اس کا ذہن واضح نہیں ہو پایا تھا کہ کس شعبے میں جائے۔ شش و پنج میں مبتلا رہنے سے معاملات الجھتے چلے گئے اور پھر یہ ہوا کہ کیریئر کے حوالے سے کوئی واضح راہ منتخب کرنے کا موزوں ترین وقت رخصت ہوگیا۔
سلطان کی خواہش اعلیٰ تعلیم کے حصول کی تھی۔ سلطان کا تعلیمی ریکارڈ اچھا تھا مگر مشکل یہ تھی کہ وہ متلون مزاج کا حامل تھا۔ کبھی کچھ سوچتا تھا اور کبھی کچھ۔ کسی سے مشورہ کرنے پر اُس نے زیادہ توجہ نہ دی۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے طور پر کیا جائے۔ ''سیلف میڈ‘‘ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کسی سے کوئی بات ہی نہ کرے، کسی بھی سطح پر معاونت طلب ہی نہ کرے۔ معاشرہ مل جل کر رہنے کے لیے ہے۔ ایسے میں سب کچھ اپنے طور پر کرنے کی ضرورت نہیں۔ عمومی سطح پر لوگ زیادہ مدد نہیں کرتے مگر توجہ دینے پر ایسا حلقہ تیار کیا جاسکتا ہے جو بے لوث جذبے کے ساتھ آپ سے تعاون کرے، کیریئر کو مستحکم کرنے میں مدد دے۔ سلطان سے ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ اُس نے کیریئر کے انتخاب کے معاملے میں ٹائمنگ کو اہمیت نہیں دی۔ ہر کام اپنے مخصوص فطری وقت پر ہوتا ہے۔ موقع نکل جائے تو ذہن الجھ جاتا ہے اور جذبۂ عمل سرد پڑ جاتا ہے۔ سلطان کے ساتھ یہی ہوا۔ اب وہ الجھ گیا ہے۔ محض بتیس سال کی عمر میں اُس کا ذہن اِتنا الجھ گیا ہے کہ وہ اپنے لیے موزوں ترین راہِ عمل منتخب کرنے میں شدید تناؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایک طرف گزرے ہوئے زمانے کا غم ہے اور دوسری طرف آنے والے زمانے کے بارے میں تشویش۔ جو وقت ہماری غلطی سے ضائع ہوچکا ہو وہ پچھتاوے کے بیج بوتا ہے۔ یہ پچھتاوا فکر و عمل کے لیے الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ جب ذہن غیر ضروری باتوں میں الجھا ہوا ہو تب منصوبہ سازی کے قابل نہیں رہتا یعنی ہم طے نہیں کر پاتے کہ آگے بڑھنے کے لیے کیا اور کیسے کرنا ہے۔
سلطان کی عمر زیادہ نہیں مگر ذہن کی الجھن بہت بڑھ گئی ہے۔ بتیس سال کی عمر جوانی ہی کہلائے گی مگر پھر بھی وہ وقت پر درست فیصلے نہ کر پانے کا غم پال بیٹھا ہے۔ سوچنے اور غم پالنے میں بہت فرق ہے۔ گزرے ہوئے زمانے میں ہم جو فیصلے نہیں کرسکے اُن کے بارے میں سوچنا فطری امر ہے۔ ایسا سوچنے سے ہم طے کر پاتے ہیں کہ اب ایسا کیا کرنا ہے جس سے ہمارے لیے مزید الجھنیں پیدا نہ ہوں اور درست فیصلوں کی راہ ہموار ہو۔ بہت سے منفی رجحانات عام ہیں۔ ایک منفی رجحان یہ بھی ہے کہ لوگ ماضی اور مستقبل کے درمیان لٹکتے، جھولتے رہتے ہیں۔ یہ روش کسی بھی طور سود مند نہیں۔ ماضی کے بارے میں زیادہ سوچ کر کڑھنے اور مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر غیر یقینیت کا شکار ہو رہنے سے کسی بھی بڑے کام کے لیے ذہن سازی مشکل ہوتی جاتی ہے۔ ہم زندگی بھر ماضی اور مستقبل کے درمیان ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔ یہ شش و پنج کی کیفیت ہمیں زندگی بھر ڈھنگ سے پنپنے نہیں دیتی۔ زندگی ہم سے بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ زندگی کا ایک بڑا مطالبہ ''شرحِ صدر‘‘ بھی ہے یعنی کسی بھی معاملے میں ہمارا ذہن مکمل طور پر واضح ہونا چاہیے۔ جب تک ذہن واضح نہیں ہوتا تب تک مستقبل کے لیے بہتر تیاری کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی۔ ہچکولے کھاتے رہنے کی کیفیت انسان کو کسی بھی بڑے کام کے لیے تیار نہیں ہونے دیتی یعنی کوشش کرنے پر بھی انسان ناکام رہتا ہے۔ سلطان جس مخمصے میں مبتلا ہے وہ لاکھوں نوجوانوں کا ہے۔ بروقت فیصلے کرنے سے گریز کی صورت میں کیریئر کو ڈھنگ سے ٹیک آف ہونے میں مدد نہیں ملتی۔ وقت کا ضیاع انسان کو اندر ہی اندر شکست و ریخت سے دوچار کرتا ہے۔ نئی نسل اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہے۔ نوجوان بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر متعلقہ منصوبہ سازی سے گریزاں بھی رہتے ہیں۔ مستقبل کے لیے منصوبہ سازی سے گریز پا رہنا انسان کو بہت سے معاملات میں شدید مشکلات سے دوچار رکھتا ہے۔
نئی نسل کو یہ بات سکھانے کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہمیں زندگی سے جو کچھ چاہیے وہ ملے گا ضرور مگر اپنے وقت پر۔ منصوبہ سازی کے ساتھ ساتھ تحمل بھی ناگزیر ہے۔ عجلت پسندی ہمیں خرابی اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ بہتر منصوبہ سازی کے لیے تحمل شرطِ اول ہے۔ ہماری رفتار اپنی جگہ اور قدرت کا طریق اپنی جگہ۔ قدرت نے جو کچھ جس وقت کے لیے طے کر رکھا ہے وہ اُسی وقت ہوگا۔ نئی نسل بعض معاملات میں عجلت پسندی کے ہاتھوں خاصے بُودے پن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ راتوں رات یعنی بہت تیزی سے بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش اگر حواس اور جذبات پر مسلط ہو جائے تو کوشش کرنے پر بھی کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔ شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہونے سے بچنا کامیابی کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ جب کوئی فیصلہ کرلیا جائے تو اُس کے بارے درست یا غلط ہونے کے بارے میں زیادہ نہ سوچا جائے۔ اور اگر اس سوچ سے چھٹکارا پانا ممکن نہ ہو تو فیصلے پر عمل ترک کردینا بہتر ہے۔ اگر منقسم ذہن کے ساتھ کسی فیصلے پر عمل کیا جائے تو مطلوب نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ایسے میں اچھی خاصی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ عجلت پسندی ہے۔ جوانی میں اعصاب، حواس اور جذبات کی عجیب ہی حالت ہوتی ہے۔ جسم میں چونکہ بھرپور توانائی ہوتی ہے اس لیے انسان چاہتا ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ حاصل کرے۔ ہر نوجوان عہدِ شباب کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے پر کمر بستہ رہتا ہے۔ یہ سب کچھ غلط بھی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ بہت کچھ کرنے کی خاطر دکھائی جانے والی عجلت پسندی بنتے کھیل کو بھی بگاڑ دیتی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت درست فیصلہ نہیں کر پاتی۔ اس حوالے سے غیر معمولی مشاورت یا کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ اپنے طور پر کچھ کرنے کی صورت میں بھی انہیں کچھ نہ کچھ مل کر ہی رہتا ہے؛ تاہم اِس میں کبھی کبھی بہت دیر بھی ہو جاتی ہے۔ عہدِ شباب چاہتا ہے کہ سب کچھ تیزی سے مل جائے۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوسکتا ہے اور وہ بھی حالات کی مہربانی سے۔ عمومی سطح پر تو سب کچھ فطری طریق ہی سے چل رہا ہوتا ہے۔ یہی بہترین طریق ہے۔ بہر کیف! گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرکے کڑھنے اور آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہنا کسی بھی اعتبار سے کوئی اچھا طریقِ فکر و عمل نہیں۔ اس معاملے میں نئی نسل کی بھرپور کاؤنسلنگ کی جانی چاہیے۔ سکول اور کالج کی سطح پر دوسرے بہت سے امور کے ساتھ ساتھ جذبات پر قابو پانے اور تحمل سے کام لینے کے طریقے بھی سکھائے جانے چاہئیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں