"MIK" (space) message & send to 7575

قدم بڑھتے رہیں، رُکنے نہ پائیں

عملی زندگی میں قدم رکھتے وقت انسان کے ذہن میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ بننا چاہتا ہے مگر کر نہیں پاتا۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جسے سمجھنے کیلئے آئن سٹائن کی سی ذہانت درکار ہو۔ تعلیم کے مرحلے سے گزرنے کے بعد جوانی کی حدود میں قدم رکھنے پر انسان اُس شعبے کے بارے میں سوچتا اور فیصلہ کرتا ہے جس میں اُسے کچھ کر دکھانا ہو۔ یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں۔ اچھے اچھوں کو اس مرحلے میں الجھتے اور اٹکتے دیکھا گیا ہے۔ یہ بھی حیرت انگیز امر نہیں کیونکہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کے ذہن نئے اور اچھوتے خیالات سے جبکہ جسم توانائی سے معمور ہوتا ہے۔ بہت کچھ کرنے کی آرزو دل میں انگڑائیاں لے رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس سے کامیاب گزرنے کیلئے انسان کو رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ نئی نسل کو یہ بتانا لازم ہے کہ اُسے کیریئر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ بری طرح الجھ اور اٹک بھی سکتی ہے۔ 
کل شب ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد واپسی پر گھر کے نزدیک ایک ہوٹل کا رخ کیا۔ رات زیادہ ہوچکی تھی۔ ہم پیٹ کی آگ بجھانا چاہتے تھے اور وہاں چولھے ٹھنڈے پڑے تھے۔ یہ صفائی کا وقت تھا۔ فرش کی چمک دمک یقینی بنائے جانے کے بعد میزیں صفائی کے مرحلے سے گزر رہی تھیں۔ ہوٹل تقریباً خالی تھا۔ بیشتر پتیلے خالی ہوچکے تھے اور صرف دال رہ گئی تھی‘ سو وہی منگوالی۔ ایک نوجوان کو ہوٹل کی صفائی کرتے دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ وہ وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ اِس سے پہلے کہ ہم اُس سے کچھ پوچھتے، اُسی نے پوچھ لیا ''آپ کیا اخبار وغیرہ میں ہیں؟‘‘ 
ہمیں اُس کے درست اندازے پر کچھ خاص حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اِس شعبے میں کم و بیش 35 سال گزارنے کی بدولت ہمارے چہرے پر ''صحافی پن‘‘ نمایاں ہوچکا ہے! اور اب تو ''کالمیت‘‘ بھی وارد ہوچکی ہے۔ خیر! جب ہم نے نوجوان کی بات سُن کر اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے گفتگو کی اجازت چاہی۔ ہم نے کہا: آؤ بیٹھو۔ نوجوان نے اپنا نام مبین اعوان بتایا۔ اس نے یہ بتایا کہ وہ اخبارات و جرائد پڑھتا ہے اور کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران اُس نے ایک فلاحی ادارے کے تحت ویب ڈیزائننگ کا آن لائن کورس کیا ہے۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اُس سے چند جملوں پر مشتمل گفتگو نے اِتنا تو بتا ہی دیا کہ اُس کی زندگی اور دنیا ہوٹل تک محدود نہیں رہے گی۔ مبین ہوٹل کا ملازم ہے مگر بہت کچھ کرنے کا خواہش مند ہے۔ ہوٹل میں کام کرنے کے باوجود وہ اِس سطح سے خاصا بلند ہوکر، قدرے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا ہے۔ مبین کہتے ہیں بالکل واضح بات یا چیز کو۔ یعنی ایسا معاملہ جس کے بارے میں ذرّہ بھر شک نہ ہو۔ اللہ نے شیطان کو ''عدو المبین‘‘ یعنی کھلا، بالکل واضح دشمن۔ مبین کا ذہن بھی اُن کے نام کی طرح واضح ہے یعنی وہ کسی نچلے مرحلے میں اٹک کر لگی بندھی زندگی بسر کرنے کے بجائے کچھ کرنا چاہتا ہے اور چند برس بعد تھوڑا بہت آگے ضرور دکھائی دے گا۔ ہم نے اور بھی ایسے کئی نوجوان دیکھے ہیں جو عملی زندگی کے آغاز میں معمولی سی جاب ضرور کر رہے ہیں مگر پوری زندگی اس سطح پر نہیں رہنا چاہتے۔ زندگی نچلی سطح پر رہتے ہوئے بسر نہ کرنے کی خواہش ہی زندگی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ عملی زندگی کے اوائل میں انسان ایسا بہت کچھ کرتا ہے جو عبوری یا عارضی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں ہوتا کہ رُک کر اِسی میں زندگی گزار دی جائے۔ کسی نے طلبِ علم کے زمانے میں چاہے کچھ بھی پڑھ رکھا ہو، عملی زندگی کی ابتدا کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی پڑھا تھا وہ سب کچھ اپنی جگہ مگر زمینی حقیقت تو عملی دنیا ہی ہے۔ 
آج پاکستان کی نئی نسل کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی بھر کیلئے شعبہ منتخب کرنے کے مرحلے میں بُری طرح الجھ کر رہ جاتی ہے۔ ایک طرف تو سنجیدگی کا فقدان ہے اور دوسری طرف مسابقت کی نوعیت بھی قیامت ڈھاتی ہے۔ اب کسی بھی نمایاں شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے لازم ہے کہ نوجوان پوری ذہنی تیاری کے ساتھ قدم بڑھائیں۔ ہر شعبے میں پیش رفت کا یہ عالم ہے کہ دوسروں کے ساتھ چلنے کے لیے بہت کچھ پڑھنا اور سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ فطری علوم و فنون کے شعبے میں پیش رفت اِتنی زیادہ ہے کہ محض اَپ ڈیٹنگ کافی نہیں، اَپ گریڈیشن بھی ناگزیر ہے۔ نوجوان بہت کچھ پڑھتے ہیں اور تعلیم و تربیت کے اداروں میں سیکھنے کے مرحلے سے بھی گزرتے ہیں مگر جب وہ عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو معاملات کچھ کے کچھ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر پوری ذہنی تیاری کے ساتھ عملی زندگی شروع نہ کی جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ نئی نسل کو طلبِ علم کے زمانے میں بہت کچھ بتایا جانا لازم ہے تاکہ وہ زندگی کو بامعنی بنانے کے مرحلے میں غیر ضروری طور پر نہ الجھیں۔ کوئی بھی نوجوان جس شعبے میں جانا چاہتا ہے اُس کے بارے میں اُس کی بھرپور کاؤنسلنگ ناگزیر ہے۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر آگے بڑھنے کی صورت میں وہ قدم قدم پر الجھ سکتا ہے‘ اٹک سکتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ آج آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جنہوں نے عملی زندگی کی ابتدا میں اپنائے جانے والے عبوری نوعیت کے شعبے ہی کو حرزِ جاں بنالیا۔ جب انسان کسی فن میں طاق نہیں ہوتا تب ضرورت کے تحت کوئی بھی کام کرلیتا ہے تاکہ کچھ یافت ہوسکے۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں مگر ہاں! اِس مرحلے میں اٹک کر رہ جانا کسی بھی طور قابلِ ستائش نہیں۔ بہت سے کام انتہائی معمولی اور سطحی نوعیت کے ہیں مگر لوگ اُنہیں زندگی بھر کے لیے گلے لگاکر کیریئر کا درجہ دے بیٹھتے ہیں۔ ڈرائیونگ بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے جو کسی اچھے شعبے میں قدم جمانے تک کے لیے اختیار کیا جاتا ہے مگر بہت سے لوگ خود کو مرتے دم تک کے لیے ڈرائیور تصور کرلیتے ہیں اور پھر ذہن سے یہ تصور کھرچ کر پھینکنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اِسی طور بہت سوں کو زندگی ہوٹل میں ٹیبل مین کی حیثیت سے کام کرتے دیکھا ہے۔ وہ کبھی سوچتے ہی نہیںکہ زندگی کے دامن میں اُن کے لیے بہت کچھ ہے۔ ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی تھا
نوجوانی اور جوانی کے جوش و خروش میں انسان بہت سے کام کرسکتا ہے مگر ہر کام کو کیریئر کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ جوانی میں کئی شعبے محض اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ تب جوش و خروش کا عالم عجیب ہوتا ہے، جسم میں غیر معمولی توانائی پائی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان میں مہارت بڑھتی ہے اور سکت گھٹتی جاتی ہے۔ انسان کیلئے بہترین یا آئیڈیل صورتِ حال تو یہی ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم توانائی صرف کرکے زیادہ سے زیادہ معاوضہ پائے یعنی زورِ مہارت پر رہے۔ نئی نسل یہ بات اپنے طور پر نہیں سمجھ سکتی‘ اُسے سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔آج کا پاکستانی نوجوان بدلتے ہوئے زمانے کے تیور دیکھ کر آسانی سے طے نہیں کر پارہا کہ اُسے کیریئر کی حیثیت سے کیا اور کیسے کرنا چاہیے۔ یہ معاملہ کاؤنسلنگ کے ذریعے غیر معمولی ذہنی تیاری کا ہے۔ ہم جس میں جی رہے ہیں وہ عہدِ مسابقت ہے۔ کچھ بننا اور کرنا ہے تو پورے وجود کو بروئے کار لانا ہوگا۔ عزم کی بلندی کے ساتھ جوش و خروش کی نوعیت بھی غیر معمولی ہونی چاہیے۔مبین اور ایسے لاکھوں نوجوان کچھ کرنے کا عزم لے کر عملی زندگی کے میدان میں اترتے ہیں اور پھر کچھ نہ کچھ حاصل بھی کرلیتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ آنکھوں میں خواب ہوں اور خواب بھی بڑے! بڑے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے عمل بھی بڑا ہونا چاہیے۔ سوچ بڑی رکھیے گا تو زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنانے کی تحریک ملے گی۔ ؎ 
ملے گی ایک دن خواب کی منزل/ قدم بڑھتے رہیں، رکنے نہ پائیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں