فطری علوم و فنون کی بھی عجیب ہی دنیا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، اِس شعبے کے ماہرین اپنی پسندیدہ ڈگر پر چلتے رہتے ہیں یعنی لوگوں کو بات بات پر چونکانے سے باز نہیں آتے۔ رائی کا پہاڑ بنانا صرف فکشن رائٹرز کی پسندیدہ روش نہیں‘ فطری علوم و فنون کے ماہرین بھی یہی کام ذرا منظم انداز سے کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالتے ہیں۔ ایک زمانے سے ماہرین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، کسی بھی معاملے میں تحقیق کا بازار گرم کرکے ٹوپی سے انڈا یا کبوتر برآمد کرسکتے ہیں۔ہم مزاح کے قائل رہے ہیں۔ مطالعے کے معاملے میں بھی ہم فکاہیہ ادب کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ ہلکا پھلکا لکھنے والوں کو پڑھنے میں ہم نے ہمیشہ زیادہ دلچسپی لی ہے۔ اداکاری میں بھی ہمیں وہی فنکار اچھے لگتے ہیں جو ہنسنے ہنسانے پر یقین رکھتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ڈھائی تین عشروں کے دوران ایسا ماحول پیدا کیا ہے کہ جانے مانے کامیڈین بھی خود کو اُن کے آگے پژمردہ سا محسوس کرنے لگے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ بہت سے کامیاب کامیڈینز کے لیے زیادہ کمانے کھانے کے مواقع اب رہے نہیں! ماہرین اپنی باتوں سے ایسی کامیڈی فرمارہے ہیں کہ لوگ اُن سے متعلق خبروں کو پڑھ کر ہنستے ہنستے دُہرے ہو جاتے ہیں۔بعض معاملات میں تو ماہرین نے طے کرلیا ہے کہ غضب ڈھاتے رہیں گے۔ معاشرتی معاملات کا بھی کچھ یہی کیس ہے۔ ماہرین جب شخصی ارتقا کے حوالے سے کچھ کہنے پر آتے ہیں تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ قلم توڑ دیتے ہیں، قیامت سی ڈھا دیتے ہیں۔ معاشرتی معاملات میں ماہرین جب کچھ بیان کرنے پر آتے ہیں تو رائی کے دانے کو پربت اور پربت کو رائی کا دانہ ثابت کرنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً اگر وہ کام میں دلچسپی نہ لینے والوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو قیامت خیز قسم کی نکتہ آفرینی کرتے ہیں۔ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کام کرنے کو اچھا گردانتے ہیں یا کم نہ کرنے فضیلت کے قائل ہیں!
اب آئیے تازہ ترین آئٹم کی طرف۔ فطری علوم و فنون کے ماہرین کہتے ہیں کہ سائنسی طریقے سے ثابت ہوگیا ہے کہ کسی بھی بُری عادت کو چھوڑنے یا اچھی عادت کو اپنانے کے لیے 66دن درکار ہوتے ہیں۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق لندن کے یونیورسٹی کالج میں 96 افراد کے معمولات پر 12 ہفتوں تک تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کسی بھی نئی اچھی عادت کو اپنانے میں دو ماہ سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ شخصی رجحان یا اوصاف کی بنیاد پر یہ مدت تھوڑی کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ محققین ٹموتھی پائیکل اور ایلیسن ناستاسی کا کہنا ہے کہ بُری عادت کے نقوش ذہن پر بہت گہرے ہوتے ہیں اِس لیے اُسے چھوڑنے کے مقابلے میں کسی نئی عادت کو اپنا قدرے آسان ہوتا ہے۔
محققین کی جاںگُسل کاوشوں کے نتائج سر آنکھوں پر‘ مگر کوئی ہمیں یہ تو بتائے کہ کسی بھی بُری عادت کو چھوڑنے کی مدت اُنہوں نے کیسے طے کی؟ کیا انسان کے اندر کوئی میٹر لگا ہوا ہے؟ محققین نے تجربات کی مدد سے کیا ثابت کیا ہے اور کیا نہیں‘ یہ تو ہمیں معلوم نہیں مگر ہاں! اِتنا ہم ضرور جانتے اور مانتے ہیں کہ ''جے کی عادت جائے نہ جی سے، نیم نہ میٹھا ہوئے چاہے کھاؤ گڑ گھی سے!‘‘ مطلب یہ ہے کہ انسان میں جو بھی عادت پختہ ہوجاتی ہے وہ کسی طور جاتی نہیں اور اِس سلسلے میں واضح مثال یہ ہے کہ نیم کے پتوں کو گُڑ اور گھی کے ساتھ بھی کھائیے تو وہ میٹھے نہیں ہوتے۔ ہمارا مشاہدہ کچھ اِسی نوعیت کے معاملات کی نشاندہی کرتا ہے۔
کوئی ماہرین سے پوچھے کہ بات بے بات تحقیق کا بازار گرم کرنے کی بُری عادت وہ کیوں ترک نہیں دیتے؟ معقول معاملات اور موضوعات پر تحقیق سے کوئی کسی کو کہاں روک رہا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ محض اپنی ضرورت کے تحت ماہرین اور محققین کسی بھی موضوع کو رگڑا دیتے ہیں یا پھر کوئی نیا موضوع تراش کر کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔66 دنوں کا ذکر کچھ اِس طور کیا گیا ہے گویا کسی پیر کا دیا ہوا تعویذ ہو یا پھر کسی کمپیوٹر میں فیڈ کیا ہوا کوئی پروگرام۔ نہ تو کوئی اچھی عادت 66 دنوں میں اپنائی جاسکتی ہے اور نہ کوئی بُری عادت اِس مدت میں چھوڑی جاسکتی ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی اچھی عادت شدت اختیار کرتے کرتے بُری بن جاتی ہے اور اپنے اپنانے والے کو بھی بُرا بنادیتی ہے۔ماہرین کی بات مان لی جائے تو بُرے دوستوں سے بھی گلو خلاصی بھی 66 دنوں میں ہو جانی چاہیے مگر دیکھا گیا ہے کہ عمر گزر جاتی ہے، بُری عادتوں کی طرح بُرے دوست بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ فی زمانہ دوستی کا معاملہ ایسا ہے کہ دوست بہت اچھے ہوں تب بھی انسان خسارے میں رہتا ہے کیونکہ ڈھنگ سے دوستی نبھانے میں اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ آج کا انسان عجیب دو راہے پر، بلکہ تراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف تو وہ ہزار جتن سے وقت بچاتا ہے اور پھر بچائے ہوئے وقت کو خاصی بے ذہنی یا ''بے غوری‘‘ کے ساتھ بُری عادتوں یا بُرے دوستوں پر لُٹا دیتا ہے! دیکھنے والے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں جب ضائع ہی کرنا تھا تو اِتنی محنت کرکے وقت بچایا کیوں تھا!ساٹھ ستر سال پہلے کا انسان مزے میں تھا۔ آج کی سی بلا جواز تیزی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ع
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں
والی کیفیت نہ تھی۔ زبردستی کی ہماہمی سے زندگی کا تیا پانچا نہیں ہوا تھا۔ سادگی کو زندگی کے انتہائی بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل تھی۔ تب بھی انسان کے لیے ایک دن چوبیس گھنٹوں ہی کا تھا مگر چونکہ وقت کا ضیاع یقینی بنانے والے معاملات برائے نام تھے اس لیے لوگ خاصا وقت بچانے میں کامیاب ہوتے تھے اور اُس بچائے ہوئے وقت کو پسندیدہ مشاغل کی تکمیل کے لیے بروئے کار لاتے تھے۔ اُس دور کے انسان کو ایک بڑی سہولت یہ بھی میسر تھی کہ ذہن میں الجھنیں پیدا کرنے والے ماہرین ناپید تھے! ایسا نہیں تھا کہ آج جو کچھ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے کل اُس کے برعکس کچھ کہا جائے۔ چشمِ فلک کی خوش نصیبی کہ اِس نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب ماہرین خال خال تھے اور اپنی کہی ہوئی بات سے مُکرتے یا زبان سے پھرتے نہیں تھے!ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں اُس میں بُری عادت کو ترک کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف نہ تھا۔ لوگ کسی بھی بُری عادت کو ترک کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے تھے۔ اور دوسری طرف اچھی عادت کو اپنانے کے معاملے میں بھی وہ مشکل درپیش نہ تھی جس کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا ع
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
ماہرین نے بہت مزے سے کہہ دیا کہ انسان کسی بھی بُری عادت کو آٹھ دس ہفتوں میں ترک کرسکتا ہے۔ اور یہ کہ اچھی عادت کو اپنانے میں نسبتاً کم تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔ فی زمانہ ایک بہت ہی بُری عادت یہ ہے کہ لوگ ہر معاملے میں ماہرانہ رائے جاننے کے مشتاق رہتے ہیں اور تنوع بھی تلاش کرتے رہتے ہیں! لوگ شوق کے ہاتھوں ایک ہی معاملے میں دس دس ماہرین کی آرا سے یوں ''مستفیض‘‘ ہوتے ہیں جیسے کسی تاریک سرنگ سے گاڑی گزر رہی ہو! اور پھر کسی معقول، منطقی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کی آرا پر ضرورت سے بڑھ کر بھروسہ کرنے والوں کا ہم نے ایسا ہی انجام دیکھا ہے۔ بے چارے بہت دور سے چلتے ہوئے آتے ہیں اور چورنگی پر پہنچ کر طے نہیں کر پاتے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ اور پھر چورنگی کے ''گول دائرے‘‘ میں گھومتے رہتے ہیں!آج کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یا سب سے بُری عادت ہے ماہرانہ رائے کے تالاب میں ڈبکی لگاتے رہنا۔ ماہرین کو اپنی صلاحیتوں پر بہت ناز ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ کسی بھی بُری عادت سے آٹھ دس ہفتوں میں جان چھڑائی جاسکتی ہے تو آج کے انسان کی رہنمائی کریں، ماہرانہ رائے کی دلدل سے نکلنے میں اُس کی مدد کریں۔ اگر اِس بُری عادت سے چھٹکارا پانے کا کوئی طریقہ ماہرین سجھا سکیں تو ہم اُن کی صلاحیتوں کا لوہا مان جائیں گے۔