کسی بھی انسان کے نصیب میں اور کچھ لکھا ہو یا نہ لکھا ہو، ایک بات تو طے ہے کہ اُس کے نصیب میں کئی دنیاؤں میں تقسیم ہوکر زندگی بسر کرنا تو لکھا ہی ہوا ہے۔ ہر انسان یادوں کے ذخائر کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ تلخ و شیریں یادیں انسان کے لیے سب سے بڑے اثاثے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہر انسان مرتے دم تک مختلف النوع یادوں کے ساتھ رہتا ہے۔ یادیں کسی بھی حال میں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے جتنا زور لگالیں، یادوں سے دامن چھڑانا کسی طور ممکن نہیں ہو پاتا۔ معاملہ بیک وقت مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ وقت کا کام ہے گزرنا۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور یادوں کا مجموعہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، ہر طرح کی یادوں کا ساتھ برقرار رہتا ہے۔ انسان کو اللہ نے یہ صفت خوب عطا کی ہے کہ وہ مرتے دم تک یادوں سے کام لیتا رہتا ہے ۔ہر اچھا معاملہ ہمیں اچھی طرح یاد رہتا ہے اور ہم اُس کے تاثر سے کچھ نہ کچھ اچھا تاثر، فرحت اور توانائی کشید کرتے رہتے ہیں۔
ہزاروں سال سے یادوں کا سلسلہ جاری تھا۔ انسان گزرے ہوئے زمانے میں بھی زندگی بسر کرتا آیا تھا۔ گزرے زمانوں کے مخصوص حصے انسان کے حافظے میں یوں زندہ رہا کرتے تھے کہ اُن سے گلو خلاصی ممکن نہ ہو پاتی تھی۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ سبھی بدلتا چلا گیا۔ گزشتہ ڈھائی تین عشروں میں ایسا بہت کچھ ہوا ہے جس نے دنیا کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ وہ دور ہوا ہوگیا جب گزرے زمانوں کے حصے حافظے میں محفوظ رہا کرتے تھے اور ہم اُن کی یادوں کے سہارے جیا کرتے تھے۔آج کا انسان گزرے ہوئے تمام زمانوں کے انسانوں سے عجیب ہے۔ معاملہ محض عجیب ہو رہنے تک محدود نہیں۔ آج کا انسان یادوں کے معاملے میں بھی غیر معمولی بحران سے دوچار ہے۔ چار پانچ ہزار سال کے دوران انسان کو ایسے بحران کا سامنا کرنا ہی نہیں پڑا تھا اس لیے ہم اُن ادوار کے انسانوں میں وہ ذہنی پیچیدگی بھی نہیں دیکھتے جو آج کے انسان کا نصیب ہوکر رہ گئی ہے۔ آپ نے کبھی اِس نکتے پر غور کیا ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں میں انسان کو اپنے سے پہلے کی دنیا کا بہت کچھ ترکے میں ملا کرتا تھا اور وہ ترکہ بہت حد تک زندگی بھر ساتھ رہا کرتا تھا۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کی طرف کم ہی لوگ متوجہ ہو پاتے ہیں۔ گزرے ہوئے ادوار کے انسانوں کو بہت سے معاملات میں اُس الجھن کا سامنا نہیں تھا جس کا سامنا آج کے انسان کو قدم قدم پر کرنا پڑ رہا ہے۔ آج بہت کچھ ایسا ہے جو کسی بھی طور ہمارے لیے نہیں، ہمارے کام کا نہیں مگر پھر بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ غیر ارادی سطح پر ہے یعنی آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ آپ کو بہت کچھ اپنانا ہی پڑتا ہے۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی بلکہ حیران کن پیش رفت نے ایسا بہت کچھ ممکن بنادیا ہے جو کسی بھی درجے میں ہمارے حقیقی مفادات سے وابستہ نہیں مگر پھر بھی ہم مجبور ہیں کہ اُسے گلے لگائے رہیں۔ آج کا انسان کم و بیش ہر معاملے میں مشینوں اور آلات کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ مشینوں اور آلات کا یوں محتاج ہے کہ اُن کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور تک سوہانِ روح محسوس ہوتا ہے۔ آج کی زندگی فطری انداز کو اس حد تک ترک کرچکی ہے کہ اب اگر کوئی گزرے ہوئے زمانوں کے مطابق سادہ زندگی بسر کرنا چاہے‘ یعنی اس حوالے سے شعوری کوشش کرے تو سب کو عجیب دکھائی دیتا ہے۔ زندگی اوّل تا آخر تصنع سے یوں آلودہ ہوچکی ہے کہ اُس کی تطہیر کرنے بیٹھیے تو بہت کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ دور کیوں جائیے‘ اِسی بات پر غور کیجیے کہ آج کا انسان اپنے وجود تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ یہ سمٹنا بہت حد تک تحت الشعوری ہے یعنی ہم جو کچھ کر رہے ہیں اُس کا کچھ خاص احساس ہمیں بھی نہیں ہو پاتا۔ معمولات میں ایسا بہت کچھ شامل ہے جس پر ہمارے شعور کا اجارہ نہیں۔ تحت الشعور اپنا کام کر رہا ہے۔بہت سے تو ایسے ہیں جو لاشعور کی حدود میں جی رہے ہیں اور اگر کوئی اُنہیں بتائے تو وہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ متوجہ۔ معاملہ اچھائیوں تک محدود رہے تو لاشعوری کی حالت میں جینا بھی خسارے کا سودا نہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بُرائیوں میں مبتلا ہیں اور احساس دلائیے تو ہوں ہاں کرتے ہوئے اپنی راہ پر گامزن رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بیسویں صدی نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے۔ فطری علوم و فنون کی غیر معمولی اور انقلابی نوعیت کی پیشرفت کے نقطۂ نظر سے یہ فیصلہ کن صدی کہی جاسکتی ہے۔ بیسویں صدی ہی کے دوران کم و بیش تمام معاشروں کا انسان یوں تبدیل ہوا کہ اُس کے لیے اپنے آپ کو پہچاننا بھی دشوار ہوگیا۔ تبدیلی کا عمل اِس نوعیت کا رہا ہے کہ انسان نے اس طرف متوجہ ہونا، سوچنا اب تک شروع نہیں کیا ہے۔ آج کی دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ یہ الجھن دراصل سلجھن سے پیدا ہوئی ہے۔ انسان نے جب اپنے مادّی مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کیں تب ایسا بہت کچھ ایجاد اور دریافت کیا جس کی مدد سے زندگی کو آسان بنانا ممکن ہوا۔ یہاں زندگی سے مراد ظاہر کی دنیا ہے۔ انسان کو یومیہ بنیاد پر جن مسائل کا سامنا رہا ہے اُنہیں حل کرنے کے لیے جو کچھ ایجاد یا دریافت کرنا لازم تھا وہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ محض ڈھائی تین سو سال پہلے تک انسان جن مسائل کو حل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ اب یوں حل ہوئے ہیں کہ اُن سے متعلق سہولتوں کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور تک محال ہے۔ دو ڈھائی سو سال پہلے تک جو سہولتیں شہنشاہوں کو بھی میسّر نہ تھیں وہ آج کے انسان کو یوں میسّر ہیں کہ اب اُن پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ آسانیوں نے مشکلات کو جنم دیا ہے۔ کل کا انسان زندگی بھر تگ و دَو کرتا رہتا تھا۔ اُس کے بہت سے عمومی مسائل بھی حل ہونے میں محض وقت نہیں لیتے تھے بلکہ ذہن و جسم کی توانائی نچوڑ لیا کرتے تھے۔ چند سو میل کا سفر بھی انسان کی چُولیں ہلادیتا تھا۔ شدید گرمی میں گھر کے ماحول کو ٹھنڈا رکھنا جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ انسان اپنے علاقے میں اُگنے والی سبزیوں اور پھلوں کے سوا کچھ خاص حاصل نہ کر پاتا تھا۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر پائی جانے والی اشیا کے حصول اور استعمال کا تصور تک ناپید تھا۔ انسان کے لیے عمومی نوعیت کا سفر بھی انتہائی دشوار تھا۔ سوچا جاسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تجارتی اموال کو ہزاروں میل سے کس طور لایا جاتا ہوگا اور اُس کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہوگی۔ آج کے انسان کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عمومی سطح پر اُس کے بیشتر مسائل حل ہوچکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔
مختلف شعبوں میں اِتنی ترقی ہوچکی ہے کہ انسان کا ذہن واضح طور پر خلا محسوس کرنے لگا ہے۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے کسی فرد سے سیل فون پر وڈیو کال ہی کو لیجیے۔ یہ سہولت گزرے ہوئے زمانوں میں سوچی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ آج کا انسان ایسی ہی بہت سی سہولتوں سے اس حد تک ہم کنار ہے کہ اب اُس کے لیے آسانیوں نے الجھنوں کا سامان کیا ہے۔ پہلے کی دنیا میں ایسا بہت کچھ تھا جو انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے جدوجہد کی راہ پر گامزن رکھتا تھا۔ بہت سے عمومی مسائل کے حل کی کوشش بھی اُس کا ذہن نچوڑ لیتی تھی۔ زندگی میں جاں فِشانی کا عنصر نمایاں تھا۔ وہی کامیاب رہتا تھا جو کچھ سوچ کر عمل کی راہ پر بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ گامزن رہتا تھا۔ آج کا انسان اِس حوالے سے ذہنی و روحانی خلا کا شکار ہے۔ ظاہر یوں بدلا ہے کہ آسانی ہی آسانی دکھائی دیتی ہے مگر باطن مزید الجھ کر رہ گیا ہے۔ اخلاقی سطح پر قابلِ رشک مقام تک پہنچنا کل بھی خواب تھا اور آج بھی خواب ہے۔ نفسی، روحانی اور اخلاقی معاملات میں آج کے انسان کی بھرپور تربیت لازم ہے۔