بہت سے فلمی گیت اِتنی محنت سے لکھے اور گائے گئے کہ آج وہ ہماری نفسی ساخت کا حصہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ ماضی کے موسیقار ایسی دُھنیں تیار کرتے تھے جن پر گائے جانے والے گیت ہر اہم موقع پر یاد آئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ جیسے ہی کوئی ایسی ویسی صورتحال پیدا ہوتی تھی، ذہن کے پردے پر کوئی متعلقہ گیت نمودار ہوتا تھا اور ماحول کو زیادہ توانا کرکے دم لیتا تھا۔ ایسا ہی ایک المیہ گیت محمد رفیع مرحوم نے 1964 کی فلم ''خاندان‘‘ کے لیے گایا تھا جس کا مکھڑا تھا ؎
کل چمن تھا، آج اِک صحرا ہوا
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا
یہ گیت یوں یاد آیا کہ آج جس طرف بھی نظر دوڑائیے، ایک نئی دنیا دکھائی دیتی ہے۔ جو دنیا ایک مدت سے ہمارے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی وہ ایسی غائب ہوئی ہے کہ ایک جھلک دکھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا احساس و ادراک کم ہی لوگوں کے بس کی بات ہے۔ ہر دور کے انسان کو تبدیلی کا سامنا رہا ہے۔ تبدیلی کائنات کی سب سے اٹل حقیقت ہے۔ علامہ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
تبدیلی وہ حقیقت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ جب یہ سب کچھ سب کے لیے ہے تو ہمیں بھلا کیوں استثنا ملنے لگا۔ جو ہر دور کے انسان کا مقدر رہا ہے وہی ہمارا یعنی آج کے دور میں جینے والوں کا بھی نصیب ہے۔ جی ہاں! تبدیلی نے ہمیں بھی نہیں بخشا۔ بہت کچھ ملا ہے تو بہت کچھ ہاتھ سے جاتا بھی رہا ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ یہ سب تو اللہ کے نظام کا حصہ ہے۔ یہ کائنات اِسی طور چلتی آئی ہے یا چلائی جاتی رہی ہے۔ اللہ نے تبدیلی میں حُسن بھی رکھا ہے اور راحت کا سامان بھی۔ انسان گزرے ہوئے زمانوں سے ہٹ کر کچھ کرتا ہے تو بات بنتی ہے، زندگی کو نئی معنویت اور نیا حُسن عطا ہوتا ہے۔ تبدیلی چونکہ ہر دور کے انسان کا نصیب رہی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ عمل ہمارے وجود کو نئی جہتیں عطا کرنے کے لیے قدرت کی طرف سے کیا جانے والا خصوصی انتظام ہے۔ ہاں! اِس انتظام کے ہاتھوں کبھی کبھی ہمارے لیے ایسی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے جسے ڈھنگ سے جھیل پانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ آج کا انسان عجیب الجھنوں سے دوچار ہے۔ کل تک معاملہ یہ تھا کہ جب کوئی نئی چیز زندگی کا حصہ بنتی تھی تو متعلقہ پُرانی چیز بھی کسی نہ کسی حیثیت میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہتی تھی۔ نیا آتا تھا تو پُرانا جاتا نہیں تھا۔ انسان نے ہزاروں سال اِس طور گزارے کہ نئی چیزیں آتی تھیں، زندگی سے جڑتی جاتی تھیں اور پرانی چیزیں بھی زندگی کا حصہ بنی رہتی تھیں۔ یہ اللہ کا خاص کرم تھا کیونکہ انسان کے لیے ماضی سے جڑے رہنا بھی دل و دماغ کے استحکام کے لیے لازم ہے۔ انفرادی سطح پر بھی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہی لوگ ڈھنگ سے جیتے ہیں جو اپنے ماضی، تاریخ یا روایات سے جڑے رہتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں کو یکسر نظر انداز کرکے جینا شدید نوعیت کے اختلاجِ قلب و ذہن کا باعث بنتا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو ماضی کا پرستار نہیں؟ شاید کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اُس نے ماضی سے تعلق بالکل ختم کرلیا ہے۔ ماضی اچھا ہو یا بُرا، انسان کی نفسی ساخت کا حصہ رہتا ہے۔ ہاں! گزرے ہوئے زمانے کے برے حصوں کو زیادہ یاد نہ کرنے کی صورت میں دل کی تسکین کا سامان ہوتا رہتا ہے۔ ہر اچھی بات کے یاد آتے رہنے سے دل تسکین پاتا ہے، دماغ راحت محسوس کرتا ہے۔ بیسویں صدی انسان کے لیے بہت کچھ لائی۔ انسان نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال کے عمل میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے جو کچھ سوچا اور کیا تھا اُس کا نقطۂ عروج بیسویں صدی میں دکھائی دیا۔ یہ صدی فطری علوم و فنون کے حوالے سے ہر شعبے میں درجۂ کمال تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ مختلف معاشروں کے انسانوں نے ہزاروں سال کی محنت کے ذریعے جو کچھ ممکن بنانا چاہا تھا وہ بیسویں صدی میں ممکن ہوا۔
جو کچھ ہمیں بیسویں صدی میں مل پایا کیا وہ ہماری نفسی ساخت پر اثر انداز ہونے سے انکار کرسکتا تھا؟ یا کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں سے بچنا ہماری ذہنی ساخت کے لیے ممکن تھا؟ ان دونوں سوال کا جواب نفی میں ہے۔ تبدیلی نام ہی بدلنے کا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو اور ہم تبدیل نہ ہوں؟ بیسویں صدی میں بھی یہی ہوا۔ ہاں! اب کے معاملہ بہت آگے نکل گیا۔ انیسویں صدی عیسوی تک معاملہ یہ تھا کہ انسان فطری علوم و فنون کے حوالے سے مختلف شعبوں میں آگے تو بڑھتا تھا مگر قلب و ذہن میں اپنے گزرے ہوئے زمانوں کو بھی زندہ رکھنے میں کامیاب رہتا تھا۔ گزرے ہوئے ادوار کی ترقی ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ قلب و نظر کے استحکام کے لیے یہ انتظام قدرت کی طرف سے تھا۔ ذہن کی رسائی اُس مقام تک نہیں ہو پائی تھی جہاں پچھلا کچھ بھی یاد نہ رہے۔ ذہنی پیچیدگیاں ہر دور کے انسان کا مقدر رہی ہیں مگر اُن میں شدت زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی کیونکہ انسان تینوں زمانوں کے ساتھ جیتا تھا۔ ماضی کا ورثہ یا ترکہ بھی ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ یہ ایسی حقیقت تھی جو کسی بھی پریشان کن کیفیت میں ذہن کو الجھنے سے روکتی تھی، قلب و نظر کا استحکام ممکن بنائے رکھتی تھی۔ اکیسویں صدی کا انسان ذہنی پیچیدگیوں کے معاملے میں بہت بدنصیب ہے۔ وہ قدم قدم پر الجھ رہا ہے۔ سب کچھ نظر تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُسی کو زندگی اور کائنات سمجھ لیا گیا ہے۔ اور نظر کا معاملہ کیا ہے؟ ؎
کھا رہی ہے قدم قدم پہ فریب
اِس نظر کی بساط ہی کیا ہے!
آنکھ جو کچھ دیکھ پاتی ہے اُسے مکمل حقیقت سمجھا یا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اکیسویں صدی نے ظاہر ہی کو سب کچھ بنا ڈالا ہے۔ آج کسی بھی معاشرے یا خطے کے عام آدمی کے لیے محض دیکھ لینا ہی کافی ٹھہرا ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُس کے بارے میں سوچنے، متعلقہ معاملات پر غور کرنے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچ کر اپنے لیے بہتر راہ کا انتخاب ممکن بنانے والے خال خال ہیں۔ اب فطری علوم و فنون میں پیش رفت چونکہ انقلابی نوعیت کی ہے اِس لیے اُس کے اثرات کا دائرہ بھی تشویش ناک حد تک وسعت اختیار کرچکا ہے۔ انسان کے لیے قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیلنج اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ ذہن جس قدر پیش رفت یقینی بناتا جائے گا ہم اُتنے ہی الجھتے بھی جائیں گے۔ آج کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کے لیے لیے نئی زندگی ایک مستقل دردِ سر کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اِس باڑکے آگے بند باندھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جارہی۔ جو کچھ رونما ہو رہا ہے اُسے بلا چون و چرا تسلیم و قبول کرکے زندگی کا حصہ بنانے میں غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ع
جو آئے‘ آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
والی کیفیت نے خرابیوں کو مزید گہرائی و گیرائی فراہم کی ہے۔ فطری علوم و فنون میں ہر پیشرفت ہمارے لیے محض مثبت نتائج لے کر نہیں آتی۔ بہت کچھ ہے جو خرابی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے مگر ہم اِس طرف متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ ناگزیر ہوچکا ہے کہ ہم اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کریں اور جو کچھ سمجھ میں آئے اُس کے مطابق اپنے فکر و عمل کو معقولیت کی حدود میں رکھنے پر بھی متوجہ ہوں۔ زندگی اُسی وقت جامعیت اختیار کرتی ہے جب اُس میں کُلیت نمایاں ہوتی ہے یعنی کوئی بھی اہم جز نظر انداز نہ کیا جائے۔ انسان کے لیے ماضی سے مکمل کنارہ کشی صرف خسارے کا سَودا ہے۔ مادّی ترقی کا گراف چاہے جتنا بلند ہو جائے، روحانی ترقی ممکن بنائے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ ماضی سے رابطہ اُستوار رکھا جائے۔ پچھلی دنیا کو یکسر ترک کرکے ہم موجودہ دنیا کو بھی پورے دل سے نہیں اپناسکتے۔