جینے کے بہت سے طریقے ہیں مگر سوال ڈھنگ سے جینے کا ہو تو انسان ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ڈھنگ سے جینا ممکن ہے، گوکہ اِس میں محنت کچھ زیادہ لگتی ہے۔ اور اگر کوئی چاہے کہ بس یونہی بلا مقصد جیے جائے تو ایسا کرنے میں بھی کوئی خاص رکاوٹ راہ کی دیوار نہیں بنتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ آسانی کا معاملہ ہے۔ اور اب یہاں سب آسانی ہی کا معاملہ تو چاہتے ہیں۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنے کے بجائے اُس سے کتراتے ہوئے چلیں اور اپنے دل کو کھوکھلی مسرت سے ہم کنار کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرا مستحسن طریقہ یہ ہے کہ انسان حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانش کو بروئے کار لائے اور کسی بھی پریشان کن کیفیت سے نظر چرانے کے بجائے اُس کے سامنے کھڑا ہو، ڈٹ جائے۔ کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے بہت سوں کو بے نقاب کر ڈالا۔ ہم نے اپنے احباب اور اہلِ علاقہ میں بہت سوں کو دیکھا کہ لاک ڈاؤن کو اللہ کی طرف سے سُکون کا وقفہ گردان کر خوش ہونے اور عمومی ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہوئے کچھ الگ سا کرنے کے بجائے محض پریشان رہے۔ عام آدمی کی طرزِ فکر و عمل میں اِتنی پیچیدگیاں در آئی ہیں کہ کچھ نہیں کھلتا کہ کون کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں۔ہر بحران ہمارے لیے پریشانی کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت راحت بھی لاتا ہے۔ مصیبت کے پردے میں چھپی ہوئی رحمت کو وہی شناخت کر پاتے ہیں جو ڈھنگ سے جینے کی راہ تلاش کرتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سید مقصود الحسن کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں کیا جانا چاہیے۔
بھائی مقصود اور ہم کالج میں ہم جماعت تھے۔ وہ زمانہ یومیہ بنیاد پر یاد آتا رہتا ہے۔ جب بھی فرصت کے چند لمحات میسر ہوتے ہیں تب ہم ''مینٹل ٹائم ٹریول‘‘ پر نکل پڑتے ہیں یعنی حسین یادوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ حسین دنوں کی یادیں کیسا سُکون بخشتی ہیں یہ بات تو وہی جان سکتا ہے جو ایسی یادوں سے فرحت کشید کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی میں کھوئے رہنا اپنی نوع کے اعتبار سے ذہنی مرض ہے مگر ہم نے اِس مرض کو کسی حد تک حرزِ جاں بنائے رکھنے میں کبھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ بھائی مقصود کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہ بھی عمومی حالت میں کسی پریشانی سے بہت الجھن محسوس کرنے پر حسین یادوں میں گم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کم و بیش ڈھائی عشروں سے امریکا میں ہیں۔ وہاں کے معاشرے میں رچ بس گئے ہیں مگر پھر بھی اپنے اصل ماحول کو نہیں بھولے۔ کراچی میں گزاری ہوئی زندگی اُن کے حافظے کا اٹوٹ انگ ہے اور وہ اِس انگ کے سنگ سنگ رہتے ہیں۔ بھائی مقصود نے کورونا کی وبا کے دوران اوروں کی طرح پریشان رہنے کو بہتر نہ جانا اور دانش سے کام لیتے ہوئے اپنے شوق کے اظہار پر توجہ دی۔ جب وہ کراچی میں تھے تب نغمہ سرائی کے شوقین اور شہنشاہِ غزل مہدی حسن کے دیوانے تھے۔ اُن کے گھر پر کئی بار ہم نے خاں صاحب کے آئٹم سُنے یعنی بھائی مقصود نے گاکر سُنائے۔ تب اُن کے ''فن‘‘ میں پختگی تو خیر نہ تھی مگر ہاں! خلوص بے انتہا تھا۔ ہم اُنہیں محض سُنتے ہی نہ تھے بلکہ داد بھی دیتے تھے۔ میزبان کا اِتنا حق تو ہوتا ہی ہے اور پھر وہ ہمارے دوست اور ہم جماعت بھی تو تھے! خیر، وہ زمانہ تو کب کا گیا۔ یہ بات ہمارے لیے خاصی طمانیتِ قلب کا ذریعہ ہے کہ بھائی مقصود نے نغمہ سرائی کے وصف کو ترک کرنے کے بارے میں نہیں سوچا اور اپنے لیل و نہار میں سُریلے پن کی انٹری برقرار رکھی۔ کورونا کی وبا کے دوران جب لاک ڈاؤن متعارف کرایا گیا تب جہاں اور بہت سوں کے مشاغل کو مہمیز ملی وہیں بھائی مقصود بھی کمر کس کر گلے کے میدان میں آگئے یعنی اچھی خاصی تیاری کے ساتھ گانے کی طرف مائل ہوئے۔ فرصت و فراغت کے لمحات نے دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دی اور بھائی مقصود نے مائیکروفون یوں تھاما کہ اب ''تائب‘‘ ہوتے دکھائی نہیں دیتے!
اب بھائی مقصود کے شب و روز محمد رفیع مرحوم، آنجہانی مکیش ماتھر اور آنجہانی کشور کمار گانگولی کے ساتھ بسر ہو رہے ہیں۔ اِن تینوں عظیم فنکاروں کے شاہکار قرار پانے والے گیتوں کو بھائی مقصود ''نئی زندگی‘‘ عطا کر رہے ہیں! مائیکروفون کے سامنے بھائی مقصود جو کچھ کرتے ہیں وہ سکہ بند گلوکاروں جیسا تو ہرگز نہیں مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ اُن کا ذوق اب تک بلند ہے اور وہ کوئی بھی ایسی ویسی چیز نہیں گاتے۔ پتا نہیں اُس دن ہم پر کیا گزرے گی جب وہ آج کے لیجنڈزکی ''تخلیقات‘‘ سے استفادہ کرنے کی طرف آئیں گے! بھائی مقصود گاتے تو خیر اچھا ہی ہیں اور گاکر خوش رہتے ہیں مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ؎
وہ مان کر بھی نہیں مانتے تو کیا غم ہے
کمال ہم تو ''اگر‘‘ اور ''مگر‘‘ کے دیکھتے ہیں!
بھائی مقصود شہنشاہِ غزل پر طبع آزمائی سے مجتنب رہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کھرج کے سُروں میں غوطہ زن ہونے کے بعد ابھرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا تو یہی ہے کہ اِس راہ سے دامن بچاتے ہوئے گزرا جائے۔ سوشل میڈیا کے ایک پورٹل پر بھائی مقصود کے گائے ہوئے آئٹمز سُن کر ہمیں خیال آیا کہ فی زمانہ اِدھر اُدھر کی باتوں میں گم رہ کر پریشان ہونے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے کسی بھی مثبت اور مفرح ذوق کو پورے شوق کے ساتھ پروان چڑھائے اور خوش رہے۔ لاک ڈاؤن کی انتہائی کیفیت ہو یا عمومی حالت کا جبر، انسان کو دوسروں کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان رہنے پر اپنے مذاق کے مطابق کچھ کر گزرنے کو ترجیح دینا چاہیے۔ زندگی کو تو ہر حال میں گزر ہی جانا ہے۔ ایسے میں کیوں نہ کچھ ایسا کیا جائے کہ ہم بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی ہم سے راحت ہی ملے! بھائی مقصود تو دور کا معاملہ ہوئے۔ بیس سال سے انہوں نے ''مُلُک‘‘ کا چکر بھی نہیں لگایا اور یہاں ہمارے نصیب میں جو احباب لکھے ہیں اُن میں مرزا تنقید بیگ نمایاں ہیں۔ مرزا کا معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں وہ کرتے نہیں اور دوسروں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے کئی بار سمجھایا ہے کہ فکرِ جہاں میں گم رہنے کے بجائے اپنے ذوق و شوق کی دنیا میں کھوئے رہیں تو اچھا ہے۔ ایسی صورت میں اور کچھ ہو ہو نہ ہو، اِتنا ضرور ہوگا کہ لوگ آپ کے شر سے محفوظ رہیں گے! مرزا کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے کسی بھی مشورے کو اُنہوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم نے جب بھی‘ اپنی دانست میں‘ صائب مشورے سے نوازا ہے تب مرزا نے ہمارے خلاف جانا اور ہم پر تنقید کے ڈونگرے برسانا اپنے پر فرض جانا ہے۔
ایک دن ہم نے بھابھی صاحبہ سے پوچھا تھا کہ مرزا ہر وقت حالات کا رونا روتے رہتے ہیں یا کبھی کبھار اپنے کسی شوق کو پروان چڑھانے پر بھی متوجہ ہوتے ہیں تو اُن کے جواب نے چند لمحات کے لیے ہمارے ہوش اُڑا دیے تھے۔ بھابھی صاحبہ کا کہنا تھا ''مرزا صاحب کو کسی زمانے میں گانے کا شوق تھا۔ یہ شادی سے پہلے کی بات ہے اِس لیے ہمیں ٹھیک سے کچھ اندازہ نہیں کہ سُننے والوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ ہاں! اب کبھی کبھی وہ گانے پر مائل ہوتے ہیں تو گھر میں قیامت سی برپا ہو جاتی ہے۔ بچے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ والد ہیں تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اِن کی ہر زیادتی بخوشی برداشت کریں! اور میں بھی اُن سے کہتی ہوں کہ آپ کوئی اور ستم بخوشی ڈھائیں مگر خدا کے لیے اپنی نغمہ سرائی سے ہمیں محفوظ و مامون رکھیں‘‘۔ بھائی مقصود مطمئن رہیں۔ ہم ایسے سنگ دِل نہیں کہ اُن کی نغمہ سرائی سے محظوظ و مستفیض ہونے میں کوئی قباحت محسوس کریں۔ اب اِس سے زیادہ رب سے کیا مانگا جائے کہ انسان خوش رہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھے۔