مودی سرکار نے ہٹ دھرمی کی روش پر گامزن رہنا ترک نہیں کیا ہے اور اس کا نتیجہ بہت سے امور کے الجھ جانے کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں اندرونی و بیرونی مفادات کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے۔ کوئی بھی ریاستی پالیسی کسی سیاست دان یا بیورو کریٹ کی پسند و ناپسند اور خواہشات کے تابع نہیں ہوسکتی۔ زمینی حقیقتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کی جانے والی ریاستی پالیسیاں ہی موزوں کہلاتی ہیں۔ مودی سرکار نے شاید طے کر رکھا ہے کہ کوئی بھی پالیسی عقل کے تقاضوں کا سوچے بغیر مرتب کی جائے گی۔ پانچ برس سے بھی زائد مدت کے دوران مودی سرکار نے ہر اُس راہ پر گامزن ہونے کو ترجیح دی ہے جو ملک کو زیادہ سے زیادہ بگاڑ کی طرف لے جاتی ہو۔ بنیادی یا کلیدی سوچ یہ ہے کہ معاشرے میں کہیں سُکون دکھائی نہیں دینا چاہیے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ''سنگھ پریوار‘‘ سے تعلق رکھنے والے مہربانوں نے اپنے ووٹرز کو بھی نہیں بخشا۔ مودی سرکار کے پہلے دور میں کالا دھن سفید کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے نام پر ہزار اور پانچ سو کے کرنسی نوٹ منسوخ کرکے نئے نوٹ جاری کیے جانے کی صورت میں ملک بھر میں کروڑوں افراد کو جس پریشانی سے دوچار ہونا پڑا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
مودی سرکار نے کسی بھی الجھن سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تنقید ہوتی ہے تو ہوتی رہے، اُسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں، نریندر مودی کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ اُن کا اقتدار مستحکم رہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کا برسرِ اقتدار ٹولہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں قدم جمائے رہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے بھارت نے جو کھلواڑ جاری رکھا ہے وہ پوری دنیا میں بھارت کا امیج خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے میسر مواقع سے کماحقہٗ استفادہ کرنے پر توجہ نہیں دی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی سمت نمایاں قدم اٹھاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے آئین میں ترمیم کا ڈول ڈالا اور اِس کے بعد خرابیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ اہلِ کشمیر کے مقدر میں ابھی پتا نہیں کتنے مظالم لکھے ہیں۔ دنیا نے طے کرلیا ہے کہ اُسے اب تماشا دیکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرنا۔ مسلم دنیا نے بھی مجموعی طور پر بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ سب کو صرف اتنا یاد ہے کہ بھارت بڑی منڈی ہے۔ مودی سرکار نے اب نیا محاذ کھولا ہے۔ ملک بھر کے کسان سڑکوں پر ہیں۔ یہ محاذ اب تک خاصا جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ یہ نئی کھیتی مودی سرکار کے لیے اضافی پریشانی اور ذلت کی فصل یقینی بناتی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسان بالخصوص مودی سرکار کے خلاف تحریک کی قیادت کر رہے ہیں جن میں سکھ نمایاں ہیں۔ سکھوں نے مودی سرکار کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ مودی سرکار نے اس تحریک کو دبانے بلکہ دبوچنے کی اپنی سی کوشش کی ہے مگر چونکہ منہ کی کھانا پڑی ہے اِس لیے پسپائی اختیار کرنے میں عافیت جانی ہے۔
نریندر مودی کی ٹیم میں کئی ''عقاب‘‘ ہیں مگر اُن میں راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ نمایاں ہیں۔ امیت شاہ کو نریندر مودی کا دستِ راست بھی کہا جاتا ہے۔ اُنہیں غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں۔ گجرات میں من چاہا کھیل کھیلنے کے بعد امیت شاہ نے اب ملکی سطح پر کھلواڑ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے معاملے میں امیت شاہ نے انتہائی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی مواقع پر ایسے بیانات دیے جن سے معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم مزید وسیع اور گہری ہوئی۔ راج ناتھ سنگھ البتہ بڑا فساد برپا کرنے والی باتیں کم کرتے ہیں۔ امیت شاہ نے شہریت سے متعلق قانون کے باب میں ایسا بہت کچھ کہا جس نے معاشرے کا جگر مزید چھلنی کیا۔ شہریت کے قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ کوشش کی گئی کہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر بھارت سے نکال دیا جائے۔ آسام میں کم و بیش بیس لاکھ مسلمانوں کی شہریت کو بیک جنبشِ قلم متنازع بنادیا گیا۔
مسلمان ایک زمانے تک بھارت میں تنہا الجھے اور پھنسے رہے۔ پھر مسیحیوں کو نشانے پر لینے کا عمل شروع کیا گیا۔ اِس کے بعد دلتوں کے خلاف سرگرم ہونے کی ٹھانی گئی۔ اور اب نفرت کی باڑھ کا پانی سکھوں تک آگیا ہے۔ ہاں! اب معاملہ ناموافق ہے کیونکہ مودی سرکار کے لیے سکھ گلے کی ہڈّی ثابت ہو رہے ہیں۔ نئی دہلی کے آرام دہ کمروں میں بیٹھے ہوئے حکام نے سوچا تھا کہ تھوڑی بہت دھونس دھمکی اور طاقت کے کچھ استعمال سے بات بن جائے گی مگر ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس رہا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے سکھ قائدین کی سرکردگی میں مرکزی حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں تو مودی اور اُن کا ٹولہ شدید الجھن سے دوچار ہیں۔ طاقت کے استعمال سے بھی دال نہیں گلی۔ 26 جنوری کو بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں جو کچھ ہوا وہ دنیا کو یہ بتانے کے لیے انتہائی کافی ہے کہ نریندر مودی ایک طرف تو اپنے ملک کو برباد کرنے پر بضد ہیں اور دوسری طرف خطے میں جنگ کا الاؤ روشن کرنے پر بھی تُلے ہوئے ہیں۔ ایک زمانے سے بھارت کے پالیسی میکرز ملک کو زیادہ سے زیادہ معاشی استحکام بخشنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بھارت نے اپنے نظامِ تعلیم کی بہتر حالت اور علوم و فنون کے حوالے سے عوام کی محنت کو بہتر انداز سے بروئے کار لانے پر بہت توجہ دی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج دنیا بھر میں بھارت کے تربیت یافتہ نالج ورکرز کام کر رہے ہیں اور وطن کے لیے بہت بڑے پیمانے پر ترسیلاتِ زر کا ذریعہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نالج انڈسٹری کے شعبوں میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیار کے مطابق افرادی قوت تیار کرنے پر اس قدر توجہ دی کہ آج پورے بھارت میں بیرونی ذرائع سے انفرادی سطح پر بھی آمدن کا حصول یقینی بنانا کچھ زیادہ دشوار نہیں رہا۔ اب تمام پالیسی میکرز پریشان ہیں کیونکہ نریندر مودی اور اُن کے ساتھی کِیے کرائے پر پانی پھیرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
بھارتی معاشرے کو استحکام کی ضرورت ہے۔ افلاس اپنی جگہ مگر افلاس کے خاتمے سے بڑھ کر یہ بات قابلِ ترجیح ہے کہ معاشرے کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے روکا جائے۔ یوم جمہوریہ پر اور اُس کے بعد دہلی میں احتجاج کرنے والے کسانوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ نریندر مودی کے لیے انتہائی پریشان کن بلکہ سوہانِ روح ہے۔ سکھوں سے سینگ لڑانے کا حوصلہ بھارت کے ایوان ہائے اقتدار پر متصرف انتہا پسندوں میں برائے نام بھی نہیں۔ اب ناراض کسانوں کو مزید ناراض کرکے مودی سرکار نے ایک نیا کھیت تیار کیا ہے۔ اس نئے کھیت میں اُگنے والی فصل بھارت کا امن و استحکام داؤ پر لگاسکتی ہے۔ نریندر مودی اور اُن کے بے دماغ ساتھی نفرت کی آگ میں ایسے جل رہے ہیں کہ کچھ بھی سمجھنے اور معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے موزوں ترین اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔ اُن کا گمان ہے کہ کسان تھک ہار کر اپنے اپنے گھروں کو چلے ہی جائیں گے۔ یہ تو ہونا ہی ہے۔ کسان گھروں کو واپس جائیں گے مگر تب تک اُن کا احتجاج کتنا بگاڑ پیدا کرچکا ہوگا اِس کا مودی سرکار کے بصیرت سے عاری مشیروں کو درست اندازہ نہیں۔ مودی سرکار کو بہت سے معاملات میں پسپا ہونا ہے۔ جتنی تیزی سے وقت نکلا جارہا ہے اُس سے کہیں زیادہ تیزی سے ملک کا معاشی و معاشرتی تانا بانا ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔ نفرت اور بے دماغی چھوڑ کر حقیقت پسندی اور محبت کو اپنانے کے سوا اب نریندر مودی اور اُن کے ساتھیوں کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، اگر ایسا نہ کیا گیا‘ جس کی توقع مودی حکومت سے کافی زیادہ ہے‘ تو جو کچھ بھارت کو کاٹنا پڑے گا‘ وہ تصور سے بھی باہر ہے۔