"MIK" (space) message & send to 7575

ذہن کہاں رہ گیا ؟

کیا ہم قوم یا معاشرہ ہیں؟ کیا اقوام اور معاشروں کی طرزِ زندگی ایسی ہوا کرتی ہے؟ کبھی کبھی معاملات کی نوعیت اور شدت دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ عقل مفقود ہو گئی ہے۔ جب ایسا ہو تو کوئی بھی چیز ٹھکانے پر نہیں رہتی، کوئی بھی کام اطمینان بخش انداز سے نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں عقل کو زحمتِ کار دینے کا چلن عام نہ ہو وہاں اگر کوئی کام ڈھنگ سے ہوتا دکھائی دے رہا ہو تو، غیر محسوس طور پر ہی سہی، کوشش یہ ہوتی ہے کہ معاملات خرابی کی طرف جائیں، کہیں نہ کہیں کچھ بگاڑ ضرور پیدا ہو۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔ اللہ نے محض دماغ عطا نہیں کیا، اُسے ذہن بننے کی توفیق بھی بخشی ہے۔ ذہن سوچنے اور معاملات کو سلجھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ذہن سے کام لینا اُسی وقت ممکن ہے جب اس حوالے سے شعوری کوشش کی جائے، سنجیدگی کا خاطر خواہ حد تک مظاہرہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہی نہیں ہو رہا۔ ذہن چاہے کسی بھی سطح کا ہو، کام اُسی وقت کرتا ہے جب معاملات عمل پسندی کے دائرے میں ہوں۔ سمجھنے اور سوچنے کی عادت پروان چڑھانے سے یوں گریز کیا جارہا ہے گویا یہ عادت زندگی میں سب سے زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہو! معاملات کو سمجھ کر سوچنے کی صلاحیت پروان چڑھائے بغیر کوئی بھی معاشرہ پروان نہیں چڑھ سکتا مگر ہمارے ہاں عمومی روش یہ ہے کہ زندہ رہنے کے تمام اصول یکسر فراموش کرکے خاصی بے ڈھنگی زندگی بسر کی جائے۔ اور اگر کسی سے پوچھئے کہ سنجیدگی اور منصوبہ سازی کے بغیر جینے کا سبب، غایت یا مقصد کیا ہے تو کوئی جواب بن نہیں پڑتا۔ زندگی کا کوئی ایک معاملہ یا پہلو بھی ایسا نہیں جو اصولوں کا مکلف نہ ہو۔ اصولوں سے رُو گردانی کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی صورت میں صرف الجھنیں ہاتھ لگتی ہیں۔ کامیاب وہی ہے جو زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہو، ذہن سے کام لے اور بُرد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ رویہ اپنائے جو وقت یا حالات کے تقاضوں سے کماحقہٗ مناسبت رکھتا ہو۔ یہ سب کچھ ایسی حالت میں ناگزیر حیثیت رکھتا ہے جب معاملات دوسروں سے جڑے ہوئے ہوں۔ جب کسی عمل سے دوسروں کے لیے الجھن پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو احتیاط برتنے کی کوشش کی جانی چاہیے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں اب تک دوسروں کے بارے میں سوچنے کی روش عام نہیں ہوئی۔ اور اِس سے بڑھ کر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اب تک اپنے آپ کو بھی ترجیح دینے کا حقیقی رجحان پنپ نہیں سکا۔
اصول تو خیر گھر کے اندر بھی ہوتے ہیں اور ہونے ہی چاہئیں مگر جب انسان گھر سے نکلتا ہے تب تو اصولوں کا وجود اور اُن پر عمل ناگزیر ٹھہرتا ہے۔ سڑک پر آنے والے ہر انسان کو اس طور چلنا ہوتا ہے کہ خود بھی محفوظ رہے اور دوسروں کے لیے بھی کوئی خطرہ پیدا نہ کرے۔ صرف اپنے وجود کو محفوظ رکھنا کوئی کمال نہیں۔ یہ کام تو آپ دوسروں کو خطرے میں ڈال کر بھی کرسکتے ہیں۔ مزا تو جب ہے کہ آپ کے مفاد کا تحفظ بھی ممکن ہو اور کسی اور کا مفاد بھی متاثر نہ ہو۔ سڑک پر سفر کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کی کسی حرکت سے آپ کی اور کسی دوسرے کی زندگی خطرے میں نہ پڑے۔ ایک بات کے تو آپ بھی گواہ ہوں گے۔ موٹر سائیکل پر پوری فیملی کے ساتھ سفر ہمارے ہاں عام نظارہ ہے۔ موٹر سائیکل پر میاں بیوی کے علاوہ تین تا پانچ بچے بھی سوار ہوتے ہیں۔ ایک بچہ عورت کی گود میں ہوتا ہے اور ایک ٹنکی پر بٹھایا جاتا ہے۔ دو بچے میاں بیوی کے درمیان دبے ہوتے ہیں اور ایک آدھ بچہ کیریئر پر بھی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک سڑک پر سفر کے اصولوں کو اہمیت دینے کا کلچر پیدا ہی نہیں ہوا۔ ریاستی ادارے اس حوالے سے آگاہی مہم چلا چلاکر تھک چکے ہیں۔ جرمانے بھی کیے جاتے ہیں مگر پھر بھی لوگ اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ ویسے تو خیر چار پہیوں والی گاڑی میں بھی گنجائش سے زائد افراد سوار ہوں تو معاملہ خطرناک ہو جاتا ہے، سفر کے دوران ناہموار سڑک پر گاڑی لڑھک سکتی ہے مگر تین اور دو پہیوں والی گاڑیاں زیادہ خطرناک حالت میں ہوتی ہیں۔ گنجائش سے زائد افراد سوار کیے جانے پر رکشہ بھی پلٹ سکتا ہے۔ بہر کیف، تین پہیوں کی صورت میں بھی بچاؤ کی تھوڑی بہت گنجائش نکل آتی ہے۔ موٹر سائیکل پر تو بچاؤ کا پہلو نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی بھی موٹر سائیکل ذرا سے عدم توازن پر زمیں بوس ہوکر اپنے سواروں کو خاک چٹانے لگتی ہے! ٹریفک حادثات میں موت کا امکان غیر معمولی ہوتا ہے اور موٹر سائیکل کے حادثے میں تو یہ اندیشہ مزید بڑھ جاتا ہے مگر پھر بھی لوگ اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتے۔ کراچی اور لاہور میں سگنل فری کاریڈورز کے قیام نے معاملات کو آسان بنانے کے بجائے مزید بگاڑ دیا ہے۔ سگنل فری کاریڈور اصلاً اس لیے ہوتے ہیں کہ سفر آسان ہو اور لوگ کسی خاص رکاوٹ کے بغیر کہیں بھی جاسکیں۔ اب مشکل یہ ہے کہ لوگ سگنل فری کاریڈور کو بے لگام ڈرائیونگ کا لائسنس سمجھ بیٹھے ہیں۔ غیر ضروری تیز رفتاری سے سفر کو لازم گردان لیا گیا ہے۔ ایسے میں موٹر سائیکل پر سفر انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔
موٹر سائیکل غیر ذمہ دارانہ انداز سے چلانے کا رجحان خطرناک حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔ نوجوانوں کا معاملہ بہت ہی بگڑا ہوا ہے۔ کتنا ہی سمجھائیے، وہ جب موٹر سائیکل پر سوار ہوکر سڑک پر آتے ہیں تو بے لگام ہوکر فراٹے بھرتے ہوئے گزرتے جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ خاص ہدف بن جاتے ہیں جو موٹر سائیکل پر فیملی کے ساتھ جارہے ہوں۔ دو تین بچے بھی ساتھ ہوں تو ڈھنگ سے موٹر سائیکل چلانا خاصا دشوار گزار مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ موٹر سائیکل پر پوری فیملی کو بٹھاکر سفر کرنے کے لیے جگر نہیں، جگرا چاہیے۔ موٹر سائیکل کا رخ ہینڈل کے ذریعے موڑا جاتا ہے۔ اگر ٹنکی پر بھی بچے بیٹھے ہوں تو... ؟ ظاہر ہے، حادثے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ سڑک کے حادثات میں موٹر سائیکل سواروں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ آج کل فیملی کے علاوہ موٹر سائیکل پر دو خواتین یا دو مردوں کو بٹھاکر سفر کرنے کا رجحان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ بعض موٹر سائیکلوں پر چار دبلے پتلے نوجوان بھی سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی موٹر سائیکل جب حادثے کا شکار ہوتی ہے تو کئی اموات ہوتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں جس کے حوالے سے پند و نصائح کا بازار گرم کیا جائے۔ بعض معاملات اِتنے واضح ہوتے ہیں کہ کسی کو کچھ سمجھانے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی؛ تاہم معاشرہ اب اُس نہج پر ہے جہاں سبھی نے بظاہر یہ طے کر رکھا ہے کہ اپنا خیال رکھنا ہے نہ اوروں کا۔ انسان کیسا ہی لاپروا ہو، اپنا تحفظ یقینی بنانے کو تو ہر حال میں ترجیح دیتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی معاشرہ اپنے تحفظ پر بھی متوجہ نہ ہو تو...؟ یہی سمجھا جانا چاہیے کہ عمومی سطح پر عقل مفقود ہو گئی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے ذہنی اور بے حسی بڑھتی جارہی ہے۔ جو اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرے گا وہ دوسروں کا تحفظ یقینی بنانے پر بھلا کیوں متوجہ ہوگا؟
قوانین بھی موجود ہیں اور‘ جیسی تیسی سہی‘ قوتِ نافذہ بھی موجود ہے۔ ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ عوام اپنی ذمہ داری کب محسوس کریں گے؟ اُنہیں کب ہوش آئے گا؟ لوگ حکومت سے بہت کچھ طلب کرتے ہیں مگر اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے موت کا سامان کرنے کی روش بھی تو ترک کریں! صرف سڑک کے معاملے ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر اہم معاملے میں اپنا اور دوسروں کا خیال رکھنے کا رجحان پروان چڑھانا ہے۔ اللہ نے ذہن صرف اس لیے دیا ہے کہ جہاں ضرورت ہو، بروئے کار لاکر زندگی کو آسان بنایا جائے۔ ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز تمام متعلقین کے لیے صرف مسائل پیدا کرتا ہے۔ سڑک ہو یا کوئی اور مقام، ہر سفر چند اصولوں کا محتاج و پابند ہے۔ اصولوں سے رُو گردانی تباہی لاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں