بات لنگر خانوں سے شروع ہوئی تھی اور پھر لنگر خانوں تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر اعظم نے ''کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ پروگرام کا افتتاح کردیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پس ماندہ طبقے کے لوگوں بالخصوص مزدوروں کیلئے لنگر کا اہتمام کیا جائے گا۔ گاڑیوں کے ذریعے غریب بستیوں تک کھانا پہنچایا جائے گا۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ بہت سے مخیر افراد اس نیک کام میں حکومت کا ساتھ دینا چاہتے ہیں اور یہ کہ مزدور کھانے کے پیسے بچاکر گھر والوں کو زیادہ رقم بھیج سکیں گے۔
دنیا بھر میں کوشش ہو رہی ہے کہ معیشت کو سنبھالا دیا جائے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ روزگار کے ذرائع پیدا کیے جائیں۔ حکومت ایسی پالیسیاں مرتب کرے کہ لوگوں کو آمدن کے زیادہ سے زیادہ راستے دکھائی دیں۔ معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں تو لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے اور ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ ملک کے حوالے سے ایک بات تو کم و بیش ہر تجزیے میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے کہ ملک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ پتا نہیں یہ کون سا نازک موڑ ہے جہاں سے ہم گزر ہی نہیں پارہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر یہ نازک موڑ ہماری نفسی ساخت سے کھسکنے کا نام نہیں لیتا۔ کیا واقعی ایسا کوئی موڑ ہے؟ یا پھر یہ مستقل بہانہ ہے؟ نازک موڑ سے متعلق بحث پھر کبھی سہی مگر ایک بات تو طے ہے ... کہ قوم راستے میں اٹک گئی ہے اور آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ نہیں۔ عوام کا جوش و خروش کبھی ماند نہیں پڑا۔ ہاں! اُن کے جوش و خروش کو بروئے کار لانے کے حوالے سے سوچنے والوں کی ضرور کمی رہی ہے۔ یہ قوم کبھی بے جذبہ نہیں رہی۔ خاص طور پر نئی نسل محض باصلاحیت نہیں بلکہ سکت کی حامل اور ولولوں کی امین بھی ہے۔ اپنے ملک میں کچھ نہ کر پانے والے نوجوان جب باہر جاتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کا لوہا خوب منواتے ہیں۔ تحریک انصاف نے نوجوانوں ہی کی مدد سے اقتدار کے ایوان تک کا سفر مکمل کیا ہے۔ یہ جماعت اصلاً نوجوانوں کی جماعت ہے۔ وزیراعظم عمران خان تین نسلوں کے لیے مثالی شخصیت رہے ہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں اُن کی شاندار کارکردگی سے لاکھوں نوجوانوں نے بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ کرنے کی تحریک پائی۔ یہی سبب ہے کہ جب اُنہوں نے سیاسی جماعت بنائی تو نوجوان اُن کے ساتھ ہولیے۔ اور جب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوکر اُنہوں نے کابینہ تشکیل دی تو قوم نے سوچا اب ضرور کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا جو روایتی سیاست سے کچھ ہٹ کر ہوگا۔ یہ توقع کچھ غلط بھی نہ تھی۔ عمران خان میں جس قدر ولولہ پایا جاتا ہے اُسے دیکھتے ہوئے یہی سوچا جاسکتا تھا کہ وہ قوم کے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے... مگر افسوس کہ سوچا کیا تھا اور ہوا کیا۔ شخصی اعتبار سے عمران خان کے اوصاف میں اخلاص بھی شامل ہے اور ولولہ بھی۔ وہ بہت حد تک قوم کا درد بھی رکھتے ہیں اور کچھ ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں جو قوم کی مشکلات آسان کرنے کا ذریعہ بنے مگر اقتدار کے ایوان تک رسائی کے بعد اُنہوں نے جو کچھ اب تک کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے متاثر کن نہیں۔ یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اُن کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی ہوں گی اور وہ ہر معاملے میں اپنی رائے منوانے کی پوزیشن میں نہیں مگر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ قوم کے مسائل حل کرنے کے بجائے معاملات کو لنگر خانوں کے سپرد کر دیا جائے؟
یہ بات درست ہے کہ ملک کو ترقی کی ضرورت ہے اوراِس سے بہت پہلے اِسے ایسی سطح تک پہنچانا لازم ہے جہاں بنیادی ضرورتیں پوری ہوچکی ہوں مگر ہمارا حال یہ ہے کہ اب تک بنیادی سہولتوں کی مؤثر فراہمی کا نظام ہی وضع نہیں کر پائے۔ ایسے میں فقید المثال ترقی ممکن بنانے کے بارے میں سوچنا بیوقوفی کے سوا اور کیا ہے؟ حالات کی چکی میں پسے ہوئے غریبوں کی دست گیری بلاشبہ لازم ہے۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کو بہتر زندگی کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مدد کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فوری ریلیف کے لیے راشن وغیرہ فراہم کیا جائے‘ کسی کے پاس مکان کا کرایہ ادا کرنے کے پیسے نہ ہوں تو اُس کی مدد کی جائے۔ خیراتی ادارے یہی کام کر رہے ہیں اور اچھی طرح کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چند بڑے خیراتی اداروں کی عمدہ کارکردگی نے اُنہیں بھی امداد لینے کی راہ دکھائی دی ہے جو کسی بھی اعتبار سے مدد کے مستحق نہیں۔ جو لوگ کسی نہ کسی طور کھا کماسکتے ہیں وہ بھی اب ہاتھ پھیلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ اگر خیراتی ادارے عام ہوجائیں اور خیرات آسانی سے ملنے لگے تو محنت کرکے کمانے والے بھی حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی بھیک یا امداد کے ٹکڑوں پر پلنے لگتے ہیں۔ لنگر خانے ہنگامی امداد کے لیے تو موزوں ہیں مگر اُنہیں مستقل حیثیت دینے سے قوم میں صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں ایدھی فاؤنڈیشن اور دیگر خیراتی ادارے حالات کے ستائے ہوئے افراد اور گھرانوں کی بروقت امداد یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں۔ معاشرے کی خدمت کے حوالے سے اِن اداروں کی خدمات کو نہ سراہنا کم ظرفی ہوگی مگر یہ کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہیں۔ حکومت کا بنیادی کام معیشت اور معاشرے کا نظم و نسق سنبھالنا ہے۔ حکومت کو معیشتی سرگرمیوں کے لیے موزوں ترین ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے۔ معاشی پالیسیاں کاروبار دوست ہونا چاہئیں۔ سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا ماحول یقینی بنانا بھی حکومت کے فرائض میں نمایاں ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ بے روزگاری کی شرح گھٹانے سے متعلق اقدامات کرے اور ایسے حالات یقینی بنائے جن میں روزگار کے مواقع خوب بڑھیں۔ حکومت کو خیال رکھنا ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے مگر یہ کام اُسے دوسرے طریقے سے کرنا ہے۔ معیشت کو مضبوط بنانے سے متعلق اقدامات کے ذریعے حکومت عوام کی بھرپور مدد کرسکتی ہے۔ مثالی حکومت وہی ہے جو عزتِ نفس مجروح کرنے والے حالات کی راہ مسدود کرکے غریبوں کو ڈھنگ سے جینے کے لیے درکار ماحول فراہم کرے۔
وزیراعظم نے دنیا دیکھی ہے، عالمی کرکٹر کی حیثیت سے وہ کافی دنیا گھوم چکے ہیں، وہ انگلینڈ میں قیام پذیر رہے، یورپ کو بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ معاشرے کس طور ترقی کرتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت اُن سے چھپی ہوئی ہے کہ کسی بھی قوم کو حقیقی ترقی صرف اور صرف اپنے زورِ بازو کی مدد سے ملتی ہے؟ کیا کسی نے کسی ایک ملک کو بھی خیرات کے ٹکڑوں سے ترقی کرتے دیکھا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ قوم حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کی منتظر ہے جو معاشرے کو عزتِ نفس پروان چڑھانے والی راہ پر گامزن ہونے میں مدد دیں۔ غریبوں کے لیے دستر خوان بچھاکر اُن کی وقتی یا عارضی مدد تو کی جاسکتی ہے مگر اُن کے حالات بہتر نہیں بنائے جاسکتے۔ قوم محنتی ہے۔ وہ حلال آمدن کے ذرائع چاہتی ہے۔ اچھا طریق یہ ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے والی پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ ایسا کرنے ہی سے قوم کا کچھ بھلا ہوسکے گا۔ سیلاب یا کسی اور ناگہانی صورتِ حال میں لوگوں کی فوری مدد والے انتظامات مستقل بنیادوں پر نہ کیے جائیں۔ یہ تو اچھی خاصی محنتی قوم کے قویٰ کو زنگ لگانے والی بات ہے۔ حکومت نے تعمیراتی شعبے کو فروغ دینے کا سوچا تھا، اگر وہ یہی بھرپور طریقے سے کرلے تو قوم کا کچھ بھلا ہوجائے۔