"MIK" (space) message & send to 7575

جمہوریت کا منجن

زبردست کا ٹھینگا سر پر ہوتا ہے یعنی جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنی ہر بات منوانے کی سوچتا ہے اور سوچے ہوئے پر عمل بھی کر گزرتا ہے۔ امریکا کا بھی یہی حال ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کی طاقت ہر شعبے‘ ہر معاملے میں تسلیم کی جائے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ امریکا من مانی کرے اور دنیا صرف دیکھتی رہے؟ کل تک تو ایسا ممکن تھا، اب نہیں ہے۔ کئی خطے معاشی استحکام سے طاقت کے مراکز میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت صرف جنوب مشرقی ایشیا کو مضبوط نہیں بنارہی بلکہ جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور چند دوسرے خطوں کے لیے بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ افریقہ میں درجنوں ممالک چین کی مدد سے اپنے آپ کو بدل رہے ہیں۔ پسماندگی اور بدحالی کا گراف نیچے لانے میں نمایاں حد تک کامیابی یقینی بنائی جاچکی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی بھی رہی ہے اور بات چیت بھی ہوتی رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان اچھی خاصی کشیدگی رہی۔ تجارتی پابندیوں کے ہتھیار کے ذریعے امریکا نے چین کو دبوچنے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیابی نہ مل سکی۔ چین سے درآمدات پر ٹیکس بڑھاکر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معیشت کو مستحکم رکھنے کی کوشش کی مگر اس راہ پر وہ زیادہ دیر تک نہ چل سکے۔
امریکی ریاست الاسکا کے دارالحکومت جوناؤ میں اعلیٰ سطح کے حالیہ مذاکرات کے دوران امریکا اور چین کے نمائندوں نے ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کی جبکہ چینی وفد کے قائد چین کی کمیونسٹ پارٹی کے امور خارجہ کے شعبے کے سربراہ یانگ جچی تھے۔ مذاکرات کے ابتدائی مراحل میں امریکا نے چین پر زبردست تنقید کی۔ سائبر کرائمز اور اتحادیوں پر معاشی حملوں کے حوالے سے امریکا نے اپنی تشویش ظاہر کی۔ چینی صوبے سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تائیوان کی صورتِ حال پر بھی امریکا نے چین کو دبوچنا چاہا۔
یانگ جچی انگریزی داں ہیں مگر چینی میں تقریر کرتے رہے۔ 15 منٹ تک امریکی ٹیم کو مترجم میسر نہ تھا۔ یانگ جچی نے کہا کہ امریکا داخلی سطح پر بنیادی حقوق کے بحران سے نمٹنے میں ناکام ہے، بہتر ہوگا کہ گھر کو درست کرنے پر توجہ دی جائے اور دنیا کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ یانگ جچی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکا دنیا بھر میں جمہوریت کا نسخہ بیچنا بند کرے۔ امریکی پالیسیوں کی ناہمواری سے دو طرفہ تعلقات کو بھی نقصان پہنچا اور عالمی تجارت متاثر ہوئی۔ امریکا میں چین کے سفیر نے کہا کہ چین کسی بھی معاملے میں کسی جواز کے بغیر سمجھوتا نہیں کرے گا۔ اس کے جواب میں امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلوان کا کہنا تھا کہ امریکا اصولوں اور اتحادیوں کے لیے کھڑا ہوگا۔ یہ ہے صورتِ حال!
امریکی قیادت کئی عشروں سے اس خبط میں مبتلا ہے کہ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت نے اُسے خاصے موافق مقام تک پہنچایا ہے تو اب لازم ہے کہ دنیا کو جینے کا ڈھنگ بھی سکھایا جائے۔ ہر دور میں بڑی طاقتوں کے حوالے سے ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ دنیا کو زندگی کے آداب سکھانے بھی نکل پڑتی ہیں۔ جب یورپ مضبوط تھا اور دنیا پر راج کر رہا تھا تب یورپی طاقتیں بھی اِس خبط میں مبتلا تھیں۔ جب بھی کسی ملک نے طاقت کے ذریعے کسی خطے کو زیرِ نگیں رکھا تو اُسے ''مہذب‘‘ بنانے کی بھی کوشش کی۔ دنیا بھر میں یہ تصور غیر محسوس طور پر پروان چڑھایا جاتا رہا ہے کہ جو ملک یا خطہ حملہ آور قوم یا اقوام کو شکست دینے میں ناکام رہے وہ تہذیبی اعتبار سے زیادہ قابلِ ستائش نہیں ہوتا اور اُسے جینے کے آداب سکھانا جارح اور فاتح کی ذمہ داری ہے! امریکی قیادت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ دنیا کو سُدھارنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف امریکا کرسکتا ہے۔
امریکا نے کئی خطوں میں اِتنی گڑبڑ کی کہ اُن کے لیے مستحکم رہنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ امریکی قیادت اب بھی باقی دنیا کو زیرِ نگیں رکھنے اور غلاموں کے سے درجے میں رکھنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ امریکی قیادت اور پالیسی میکرز نے اپنے طور پر طے کرلیا ہے کہ باقی دنیا کو سیاست، معیشت اور معاشرت میں اصلاح کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف امریکا کرسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یورپ اور امریکا میں پروان چڑھنے والی لبرل ڈیموکریسی کو دنیا کے لیے تحفہ قرار دے کر پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی امریکا واضح تضاد کا شکار رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ لبرل ڈیموکریسی کو دنیا کے لیے سیاست و معیشت کا بہترین نمونہ قرار دے کر اس کی اشاعت چاہتا ہے اور دوسری طرف جہاں بھی ضروری محسوس کرے‘ وہاں آمریت کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے! جن ممالک سے امریکی مفادات وابستہ ہوں وہاں آمرانہ نظام برقرار رکھنے پر پوری توجہ دی جاتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں لبرل ڈیموکریسی کو بہترین نمونہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ امریکی قیادت یہ بھی چاہتی ہے کہ دنیا بھر میں محض جمہوریت برائے نام ہو۔ یہی سبب ہے کہ جن ممالک کے معاملات پر امریکا نمایاں طور پر متصرف رہا ہے اُن میں بھربھری اور کمزور جمہوریت یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ معاملات ہاتھ میں رہیں اور عوام اختیارات کے حامل ہوکر دردِ سر نہ بنیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی معاملات پر امریکا کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں بہتر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ باقی دنیا کو سُدھارنے کی فکر میں مبتلا ہونے کے بجائے امریکا اپنے گھر کو درست کرنے پر توجہ دے۔ امریکی پالیسی میکرز بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اب امریکا کے لیے اپنے اندرونی معاملات کو نظر انداز کرکے دور افتادہ خطوں کے معاملات میں مداخلت کرنا اور وہاں الجھے رہنا زیادہ ممکن نہیں رہا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا اور یورپ نے مل کر ساری دنیا پر حکومت کی ہے۔ صلاحیت بھلے ہی زیادہ نہ گھٹی ہو، پوری دنیا پر حکومت کرنے کی سکت اب کم رہ گئی ہے۔ یہ بات یورپی قائدین خوب سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے پالیسیوں میں لچک بھی لارہے ہیں تاکہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ موافق رکھی جاسکے۔ امریکا کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ وہ اب تک یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پوری دنیا کو مٹھی میں رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ چین نے روس اور دیگر ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر ایسی دنیا کو معرضِ وجود میں لانے کی تیاری شروع کردی ہے جس میں تمام معاملات پر کوئی ایک طاقت متصرف نہ ہو بلکہ دنیا کثیر قطبی ہو یعنی طاقت کے کئی مراکز ہوں اور اُن کے درمیان ہم آہنگی پائی جائے۔ امریکا کو اب جمہوریت کا منجن بیچنے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات درست کرنے پر توجہ دینی ہے۔
حالیہ صدارتی انتخاب میں بھی معاملات غیر معمولی حد تک بگڑے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لیے امریکا کی داخلی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ سیاہ فام اور دیگر نسلوں کو محسوس ہورہا ہے کہ اقتدار پر گرفت ڈھیلی پڑنے سے سفید فام نسل بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور کچھ بھی کر گزرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام امریکیوں کے سب سے طاقتور نمائندے کے طور پر ابھرے۔ امریکا اگرچہ غیر اعلانیہ طور پر اب بھی تسلیم شدہ واحد سپر پاور ہے مگر امریکی قیادت اور پالیسی میکرز دونوں اس حقیقت سے لاعلم نہیں کہ پہلے سے دن اب رہے نہیں۔ امریکا کو بدلنا ہے اور اس طور بدلنا ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے لیے کوئی باعزت مقام برقرار رکھنا ممکن ہو۔ دنیا کس طور جی رہی ہے اس سے امریکا کو زیادہ غرض نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ اپنے ماحول، اقدار اور معیارات کے مطابق جیتے ہیں۔ اُنہیں ایک خاص حد تک ہی کچھ سکھایا جاسکتا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کو فروغ دینے کے نام پر امریکا نے طاقت کے بے محابا استعمال کے ذریعے کئی خطوں میں خاصا بگاڑ پیدا کیا ہے۔ کئی مسلم ممالک اُس کی دست بُرد سے محفوظ رہنے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔ اب قرینِ دانش یہ ہے کہ امریکا جمہوریت کا منجن بیچنا ترک کرکے دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دے اور اپنے گریبان میں جھانکنے پر مائل ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں