انسان حیوانِ ناطق ہے۔ بات کیے بغیر گزارہ نہیں۔ ہم زندگی بھر گفتگو کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ جو کچھ ہمیں درکار ہوتا ہے وہ بتانا پڑتا ہے۔ اگر کسی کو ہم سے کچھ درکار ہو تو وہ بھی بتاتا ہے۔ ہر شعبے، ہر معاملے میں گفتگو زندگی کا انتہائی اہم اور بنیادی حصہ ہے۔ جو کام ہمیں زندگی بھر کرنا ہوتا ہے وہ معیاری ہونا چاہیے۔ گفتگو کہنے کو جبلّی معاملہ ہے یعنی ہر حال میں کچھ نہ کچھ بولنا ہی پڑتا ہے مگر یہ ایک فن بھی تو ہے۔ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو ڈھنگ سے کیوں نہ کہا جائے؟
لائل کونڈیز (Leil Cowndes) نے اپنی مقبول کتاب ''ہاؤ ٹو ٹاک ٹو اینی ون‘‘ میں گفتگو کو زیادہ جاندار اور بارآور بنانے کے حوالے سے کم و بیش 92 نکات پر بحث کی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انہوں نے ہر اس انسان کی بھرپور رہنمائی کی ہے جو معیاری گفتگو کے حوالے سے الجھن کا شکار رہتا ہے اور زیادہ مؤثر انداز سے بولنے کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ لائل کونڈیز لکھتی ہیں کہ ہمیں زندگی بھر مختلف ذہنی سطح کے لوگوں سے ملنا اور بات کرنا پڑتی ہے۔ گفتگو کا فن سیکھنے کی صورت میں ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس سے کس طور بات کی جائے۔ ہم زندگی بھر گفتگو سے متعلق سوچتے ہی رہتے ہیں کہ کس سے کس طور بات کی جائے، ایسا کیا طریق اختیار کیا جائے کہ بات کرتے وقت یہ سوچنا نہ پڑے کہ اب کیا بات کی جائے؟ اگر کوئی پوچھے کہ آپ کیا کرتے ہیں تو کیا جواب دیا جائے؟ گفتگو کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ کس طور بنایا جائے؟ اگر کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو تو کس طور کریں کہ وہ واقعی مسرت محسوس کرے؟ مصنفہ لکھتی ہیں کہ گفتگو کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ ہر انسان کسی بھی اور معاملے سے بڑھ کر اپنے بارے میں سُننا چاہتا ہے۔ آپ کسی کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا لباس بہت شاندار ہے۔ یہ جملہ سُن کر بھی وہ شخص خوش ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ اُسے حقیقی مسرت سے ہم کنار کرنا چاہتے ہیں کہ تو اِسی بات کو یوں کہیے کہ آپ اِس لباس میں بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ اس جملے میں لباس کی کم اور لباس زیبِ تن کرنے والے کی ستائش زیادہ ہے۔ یہ جملہ پسند نہ آئے‘ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اِسی طور آپ اگر یہ کہیں کہ آپ کا سوال بہت اچھا ہے تو فریقِ ثانی خوشی محسوس کرے گا جبکہ زیادہ خوشی اُس وقت ہوگی جب آپ کہیں گے کہ آپ نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔
دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے کسی نہ کسی طور سراہا جائے۔ کس بات پر سراہا جائے اِس کی بھی اہمیت ہے مگر زیادہ اہمیت سراہنے اور سراہے جانے کی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے اُن کا ذکر ہو اور ستائش پر مبنی ہو۔ مگر کیا واقعی ستائش سے بات بن جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ستائش کی تمنا ہر ایک کے دل میں ہوتی ہے مگر یہ کام بھی بہت سوچ سمجھ کر، سلیقے سے کرنا پڑتا ہے۔ اگر بے ڈھنگے انداز سے کسی کو سراہا جائے تو وہ زیادہ خوشی محسوس نہیں کرتا۔ جو لوگ سراہے جانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی اُنہیں کسی نہ کسی جواز کے تحت سراہے۔ کسی جواز یا سبب کے بغیر سراہنے کا عمل چاپلوسی یا خوشامد جیسا ہوتا ہے۔ بہت سوں کو بات بات پر کسی کو سراہنے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر یہ فعل دانش مندی کے ساتھ نہ ہو تو انتہائی بھدا اور بھونڈا محسوس ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اس طور حل ہوسکتا ہے کہ آپ کسی ایسی بات پر سراہیں جو اُس شخص میں واقعی پائی جاتی ہو اور دوسروں سے تھوڑی ہٹ کر ہو۔ اگر آپ کسی کو سراہنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی طرف سے کی گئی ستائش اُسے بھلی معلوم ہو تو کسی تیسرے شخص سے اُس کا ذکر کیجیے اور خوب سراہیے۔ عام طور پر کسی کی غیر موجودگی میں اُس کی بُرائی کی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی کی غیر موجودگی میں اُسے سراہیں گے تو معلوم ہونے پر وہ شخص آپ کے بارے میں بہت اچھی رائے قائم کرے گا۔ فی زمانہ غیبت عام بُرائی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی کسی کو پیٹھ پیچھے سراہے تو ایک اچھا پیغام جاتا ہے۔ آپ کی شخصیت کو اُسی وقت قبول کیا جائے گا جب آپ اچھا پیغام چھوڑنے میں دلچسپی لینا شروع کریں گے۔
کتاب میں بیان کیا جانے والا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ گفتگو معیاری اُسی وقت ہوسکتی ہے جب وہ درست معلومات سے مزین ہو۔ کسی سے گفتگو کرتے وقت حالات سے متعلق درست معلومات کو بروئے کار لائیے۔ خبروں پر نظر رہنی چاہیے۔ آپ کی گفتگو میں اگر معلومات ناقص ہوں تو آپ کی شخصیت سے متعلق تاثر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر آپ کے پاس گفتگو کو بہتر اور معیاری بنانے کے لیے کچھ خاص نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔ گفتگو کے دوران فریقِ ثانی کی کہی ہوئی باتوں سے آخری تین چار الفاظ دہراکر اپنی بات کو زیادہ دلکش بنانے کی کوشش کیجیے۔ جب آپ کسی کے الفاظ دہراتے ہیں تو وہ فطری طور پر بہت اچھا محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ آپ اُس کی بات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ یوں بھی ہے کہ کسی کی بات کو دہرانے سے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے کی تحریک ملتی ہے۔
گفتگو اُس وقت زیادہ جاندار محسوس ہوتی ہے جب اُس میں واقعات شامل کیے جائیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کے سامنے جو کچھ بیان کیا جارہا ہے اُس میں کچھ واقعات بھی شامل ہوں تاکہ مثال کے ذریعے بات کو سمجھنا آسان ہو۔ لوگ واقعات کے ذریعے آپ کا مدعا زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اپنی گفتگو کو زیادہ سے زیادہ جاندار بنائے رکھنے کے لیے متعلقہ واقعات ضرور شامل کیجیے۔ اگر آپ مطالعے کے شوقین ہیں تو جو کچھ آپ نے پڑھا ہے اُس میں سے چند ایک نکات اپنی گفتگو میں ضرور شامل کیجیے تاکہ فریقِ ثانی کو اندازہ ہو کہ آپ ہوا میں تیر نہیں چلارہے۔ موضوع سے مطابقت رکھنے والے واقعات کا بیان آپ کی گفتگو کو منزلِ مقصود پہنچنے میں غیر معمولی مدد فراہم کرے گا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ لوگ کسی بھی بات سے اُس وقت متاثر ہوتے ہیں جب وہ جواز کے ساتھ ہو۔ اگر آپ کسی کا شکریہ ادا کریں تو وہ خوش ہوگا مگر اُسے زیادہ خوشی اُس وقت ہوگی جب آپ اُسے بتائیں گے کہ آپ اُس کا شکریہ کیوں ادا کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ کی طرف سے رسمی کا شکریہ بھی خصوصی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ گفتگو کا حُسن اُس وقت بہت بڑھ جاتا ہے جب موضوع موزوں ہو۔ ماحول کے مطابق موضوع منتخب کرنے سے گفتگو میں زیادہ جان پڑتی ہے۔ لوگ غیر متعلقہ معاملات پر بات کرنا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ دوسروں کے ذخیرۂ الفاظ کا احترام کیجیے۔ اگر وہ چند معیاری الفاظ استعمال کریں تو اُنہیں سراہیے اور کوشش کیجیے کہ آپ کی گفتگو میں بھی وہ الفاظ کسی نہ کسی طور شامل ہوں۔
گفتگو چونکہ ہمارا یومیہ معمول ہے اِس لیے ہم اُس پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتے حالانکہ ہماری گفتگو ہماری شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ ہمارے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ لوگ ہمارے ذخیرۂ الفاظ سے ہماری شخصیت کے بارے میں اندازہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نامعقول الفاظ ہماری شخصیت سے متعلق اچھے تاثر کو زائل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ لوگ عمومی سطح پر گفتگو میں الفاظ کے انتخاب کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے جس کا ازالہ کیے بغیر ڈھنگ سے بات کرنا اور کسی کو اپنے موقف کی قبولیت کی طرف مائل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
لائل کونڈیز لکھتی ہیں کہ ہمارا پورا وجود ہماری گفتگو سے بیان ہوتا ہے اس لیے یہ معاملہ کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گفتگو کے فن پر بہت سی معیاری کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ اُن کے مطالعے سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ کب کیا کہنا چاہیے اور کب کیا نہیں کہنا چاہیے۔ جس نے یہ ہنر سیکھا اس نے ڈھنگ سے جینا سیکھا۔