اور بالآخر وہ وقت آن پہنچا جس کا ہم ایک زمانے سے انتظار کر رہے تھے۔ اس انتظار میں توقعات کم تھیں، خدشات بہت زیادہ۔ یہ بھی بالکل فطری تھا۔ ایک زمانے سے پاکستان میں معاشی معاملات خالص غیر فطری انداز سے چلائے جاتے رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اختیار آگیا‘ وہ دوسروں کو کچھ بھی نہ دینے کے موڈ میں دکھائی دیتے رہے۔ اس کے نتیجے میں شدید نوعیت کی معاشی ناہمواریاں پیدا ہوتی رہیں اور آج بھی یہی کیفیت ہے۔ جب معیشت کو سوچے سمجھے بغیر چلایا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ابتدا ہی سے بے ہنگم رہا ہے اور اس کے نتیجے میں معیشت کو بھی بے ہنگم ہونا تھا‘ سو ہوئی۔ آج تک معاملہ یہ رہا ہے کہ لوگ زندگی کے معاشی پہلو کو بھی اُسی سوچ کے ساتھ اپناتے آئے ہیں جس سوچ کے تحت کسی کیمپ میں دن گزارتا ہے۔ کیمپ میں گزارے جانے والے دن منصوبہ سازی کے بغیر ہوتے ہیں۔ کوئی منصوبہ سازی اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہاں زیادہ دن ٹھہرنا نہیں ہوتا۔ یہ عارضی قیام کسی نہ کسی طور مکمل کرکے زندگی کو ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ تب منصوبہ سازی بارآور ثابت ہوتی ہے۔ ہمارا معاملہ یہ رہا ہے کہ پوری کی پوری زندگی یوں بسر کرنے کی روایت سی پڑگئی ہے جس میں دور تک منصوبہ سازی دکھائی دیتی ہے نہ ٹھہراؤ۔
کورونا کی وبا نے جہاں بہت سی خرابیاں پیدا کی ہیں وہیں چند ایک امکانات بھی پیدا کیے ہیں، کچھ نئے کی امید دلائی ہے۔ عمران خان کی حکومت تبدیلی کے نام پر قائم ہوئی تھی۔ وہ تو خیر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا پائے ہیں مگر ہاں! حالات کی مہربانی سے اب پاکستان میں بھی چند ایک بڑی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوئی جاتی ہے۔ کورونا کی روک تھام کے لیے جو لاک ڈاؤن گزشتہ برس نافذ کیا گیا تھا اس کے ہاتھوں معیشت کو اچھا خاصا نقصان پہنچا۔اب بعض شعبوں میں کچھ جان پیدا ہوئی ہے جبکہ بعض پرانے شعبے انتہائی کمزوری کی حالت کو پہنچ کر اب خاتمے کے نزدیک ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب لوگوں کی سمجھ میں آگیا ہے کہ روایتی نوعیت کی گھسٹی پٹی ملازمت سے کچھ بھلا ہونے والا نہیں۔ بڑے شہروں میں لوگ کام پر جانے کے لیے یومیہ بیس تیس کلو میٹر کا سفر کرتے ہیں، سفر کی صعوبت برداشت کرتے ہیں، وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور تھکن بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے۔ یومیہ سفر پر اچھا خاصا خرچ آتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر جیے جارہے ہیں، بس کام کیے جارہے ہیں۔ معیشتی ڈھانچے راتوں رات تبدیل نہیں ہوتے۔ لوگ کچھ سوچتے ہیں، کوئی قدم اٹھاتے ہیں تب کہیں کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموارہوتی ہے۔ معاشی معاملات میں سب سے بڑا کردار سوچ کا ہوتا ہے۔ جو حالات پر نظر رکھ کر اپنے لیے کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں وہ منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ سازی راہ دکھاتی ہے اور انسان نئی زندگی کی طرف رواں ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا نے معیشت کے روایتی ڈھانچے کو اچھی خاصی ضرب لگائی۔ اب لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ایسا ہی حال رہا تو کام دھندے کا کیا ہوگا۔ یہ سوچ انہیں دو اہم معاملات کی طرف لے کر جارہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اب لوگ نوکری سے بڑھ کر اپنے ذاتی کام کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ محض کام کرتے رہنے اور جاں فشانی کا مظاہرہ کرتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ کوئی باضابطہ ہنر سیکھ کر اس میں مہارت پیدا کرنے ہی سے بات بنے گی۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی
ہر معاشرے میں حقیقی قدر اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو ہنر سیکھتے اور مہارت کا گراف بلند کرتے ہیں۔ کسی بھی حوالے سے ہنر کا حامل ہونا بہتر زندگی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ہنر کو اہمیت دینے کا رجحان خاصا کمزور رہا ہے۔ لاکھوں نہیں‘ کروڑوں پاکستانی آج بھی کسی واضح اور قابلِ قدر ہنر کے بغیر جی رہے ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کا یہ حال رہا ہے کہ ہنر مندوں کی بڑھتی توقیر دیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ ہنر مند ہر دور میں اچھا کماتے آئے ہیں مگر پھر بھی اُنہیں دیکھ کر لوگ کچھ سیکھنے کے بجائے محض رشک یا پھر حسد کی منزل میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں معیشت کا ڈھانچہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ کسی ہنر کے بغیر، محض سادہ سی محنت کرنے والوں کے لیے بہتر زندگی کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ وہ جی تو لیتے ہیں مگر بالکل عمومی سطح پر۔ یہ سطح انہیں حقیقی تسکین نہیں دے پاتی۔ ماحول میں ہنر مندوں کو بہتر زندگی بسر کرتا ہوا دیکھ کر بھی وہ تحریک نہیں پاتے۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو کسی نہ کسی درجے میں متاثر کیا ہے۔ یومیہ بنیاد پر زندگی بسر کرنے والوں کو اب یقین ہوچلا ہے کہ زندگی اس طور بسر کرنا انتہائی دشوار اور خطرناک ہے۔ اب لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسا ہنر ضرور سیکھا جائے جو زندگی بھر کام آتا رہے۔ کیریئر کے بارے میں اب تک یہ تصور عام رہا ہے کہ کوئی بہت پڑھا لکھا شخص ہی کیریئر کے حوالے سے سوچے تو بہتر ہے۔ جب کیریئر کی بات آتی ہے تو ذہن کے پردے پر فنکار، ڈاکٹر، انجینئر، سفارتکار، پروفیسر وغیرہ ابھرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سطح کا انسان کیریئر کے بارے میں سوچ سکتا ہے ۔ جب انسان کسی شعبے کو پوری زندگی کے لیے اپنانے کا حتمی فیصلہ کرتا ہے تب وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ متعلقہ مہارت حاصل کرنے پر بھی متوجہ ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ لازم ہے کہ پاکستانیوں کو کیریئر کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی تحریک دی جائے اور دوسری طرف یہ بھی لازم ہے کہ انہیں محض ملازمت تلاش کرنے کے بجائے اپنا یعنی ذاتی کام کرنے کی طرف مائل کیا جائے۔ نوکری تلاش کرنے اور کسی کی مرضی کا پابند ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ ہنر مند ہونے کی صورت میں ذاتی کام کیا جائے۔ پاکستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں بھی اب اُن کے لیے کچھ زیادہ گنجائش نہیں رہی جو محض سادہ سی محنت کرتے ہیں۔ ہر جگہ ہنر کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ ہنر مند صرف مال ہی نہیں توقیر بھی زیادہ کماتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مہارت کا گراف بلند ہو جاتا ہے اور یوں اُن کی خدمات حاصل کرنے والوں میں تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب انسان کا وقت ضائع نہیں ہوتا اور یومیہ سفر کی مشقّت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا تب کام میں اُس کا جی لگتا ہے اور کام کے معیار کی چمک دمک بڑھ جاتی ہے۔ گھر پر رہتے ہوئے یعنی آن لائن کام کرنے والوں کی کارکردگی کا بلند گراف دیکھ کر یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ نئے معاشی ڈھانچے میں اس بات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے کہ انسان اپنا وقت، توانائی اور مال یومیہ سفر میں ضائع نہ کرے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر یہ سوچ عام کی جائے کہ لوگ ہنر مندی کی طرف مائل ہوں اور روایتی نوعیت کی معمولی ملازمت کے بجائے اپنا ذاتی کام شروع کرنے کو اہمیت دیں۔ کراچی جیسے شہر میں لوگ معمولی سی نوکری کے لیے روزانہ پچیس تیس کلو میٹر کا سفر کرتے ہیں۔ بے ذہنی پر مبنی یہ طرزِ زندگی ترک کرنے ہی میں دانشمندی ہے۔ یہ بات لوگ جس قدر جلد سمجھ جائیں اُتنا ہی اچھا۔