جو اصول پوری کائنات کے لیے ہیں وہی ہماری ذات کے لیے بھی ہیں۔ جو کچھ باقی کائنات کے لیے طے کیا گیا ہے ہمارے لیے اُس سے ہٹ کر کچھ بھی طے نہیں کیا گیا۔ جتنا گڑ ڈالیے اُتنا میٹھا ہوگا۔ یہ پوری کائنات کا اصول ہے۔ جو چیز جس حد تک دباؤ برداشت کرسکتی ہے اُس سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے گا تو خرابی پیدا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کسی پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ پیغام یہ ہے کہ ہم بھی توازن اور اعتدال کی راہ پر گامزن رہنا سیکھیں، اپنی زندگی کو خواہ مخواہ بوجھل نہ بنائیں۔ مال و زر کی طرح وقت بھی دولت ہے۔ دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے ‘یہ کہ توجہ نہ دی جائے اور بے ذہنی کے ساتھ خرچ کیا جائے تو بالآخر خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ نے ہمیں جو مال دیا ہے وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اُسے سوچ سمجھ کر خرچ کیا جائے تاکہ زندگی میں معنویت پیدا ہو، معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار ہو اور ہم ڈھنگ سے جینے میں کامیاب ہوں۔ مال و زر سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنے بلکہ لُٹانے سے آخر میں پچھتاوا ہاتھ آتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ یہی معاملہ وقت کا بھی ہے۔ ہر شے کی طرح وقت بھی ہمیں ایک خاص تناسب سے عطا کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس وقت اُتنا ہی ہے جتنی ہماری سانسیں ہیں۔ جب تک سانسیں ہیں تب تک ہی ہم اپنے حصے کے وقت کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔ یہ کام ہمیں کس طور کرنا ہے اِس کا تعین اللہ کے احکام کی روشنی میں کیا جائے تو اچھا۔ وقت بھی اللہ کی نعمت ہے اور اِس کے استعمال سے متعلق بھی ہم سے باز پُرس کی جائے گی۔ وقت کا بہترین مصرف ممکن بنانا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اگر بے ذہنی کو زحمتِ کار دی جائے یعنی سوچے سمجھے بغیر وقت کو بروئے کار لایا جائے تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ وقت ہی اصل دولت ہے، وقت ہی زندگی ہے۔ یہ ہم سے قدم قدم غیر معمولی احتیاط اور منصوبہ سازی کا تقاضا کرتا ہے۔ ذرا سی چُوک ہوئی اور کام بگڑا۔ وقت کو بروئے کار لانے میں برتی جانے والی کوتاہی پوری زندگی کا ڈھانچا بھی بگاڑ سکتی ہے۔ ہماری ہر صلاحیت اللہ کی بخشی ہوئی نعمت اور ذمہ داری ہے۔ اللہ نے ہمیں کوئی بھی صلاحیت اس لیے عطا نہیں کی کہ اپنی غیر ضروری خواہشوں کی تکمیل میں صرف (یا ضائع) کریں اور کسی کو اپنی ذات سے فیض نہ پہنچائیں۔ ہمیں جو کچھ بھی عطا کیا گیا ہے اُس کی اصل غایت صرف اِتنی ہے کہ خود بھی مستفیض ہوں یعنی زندگی کا معیار بلند کریں اور اس کام میں دوسروں سے بھی تعاون کریں یعنی اپنی ذات سے انہیں فیض پہنچائیں۔
اس حقیقت پر غور کرنے والوں کی تعداد کم ہے کہ ذہن کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اِسے ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے گنجائش درکار ہوتی ہے۔ گنجائش سے مراد یہ ہے کہ اِس پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ ہمارا ذہن کوئی گودام نہیں جس میں زمانے بھر کا کچرا جمع کیا جائے۔ آپ نے کوئی معیاری مکان دیکھا ہے؟ معیاری مکان وہ ہے جس میں ہر چیز ترتیب سے رکھی ہو اور غیر ضروری اشیا بالکل نہ پائی جائیں۔ انٹیریئر ڈیزائننگ کے ماہرین بتاتے ہیں کہ مکان کو غیر ضروری اشیا کے بوجھ سے کیونکر محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ کام منصوبہ سازی چاہتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جن مکانات کو ماہرین کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے سجایا جائے اُن کی چمک دمک نرالی ہوتی ہے اور وہ غیر معمولی حد تک دلکش و دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ اِتنے سادہ و پُرکار بھی ہوتے ہیں کہ ذہن پر بوجھ نہیں پڑتا۔ ایسے مکانات میں کوئی بھی چیز اِس طور نہیں پائی جاتی کہ ذہن کو الجھادے۔
یاد رکھیے کہ کائنات کے اصول جس طور باقی تمام اشیا پر منطبق ہوتے ہیں بالکل اُسی طور ذہن پر بھی منطبق ہوتے ہیں۔ ذہن کی عمدہ کارکردگی یقینی بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ ذہن ایک نعمت ہے اور اس نعمت کو بروئے کار لانے کے حوالے سے حساب لیا جائے گا۔ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ کائنات کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ذہن کو خواہ مخواہ غیر ضروری معاملات کے بوجھ تلے دباتا جائے اور پھر اُس سے بہت اچھی کارکردگی بھی پائے۔ ذہن ڈھنگ سے اُسی وقت کام کرسکتا ہے جب اُس پر غیر ضروری معاملات (معلومات، معاملات اور تعلقات) کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ بہت سے لوگ غیر معمولی ذہنی صلاحیت کے حامل ہونے پر کچھ زیادہ اس لیے نہیں کر پاتے کہ وہ ذہن کو غیر ضروری بوجھ سے نجات دلانے کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرلیجیے کہ ذہن بے پناہ وسعت کے باوجود ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے اچھی خاصی گنجائش چاہتا ہے۔ ذہن کو حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ کرکے منصوبہ سازی کرنا ہوتی ہے اور اِسی بنیاد پر حکمتِ عملی بھی ترتیب دینا ہوتی ہے۔ حکمتِ عملی کے نتائج کی روشنی میں ذہن کو فوری ردِعمل بھی دینا ہوتا ہے۔ یہ سب کسی وقفے کے بغیر ہو رہا ہوتا ہے اس لیے رکنے اور معاملات کا جائزہ لینے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ ذہن ہم سے ہر وقت یہ تقاضا کرتا ہے کہ اِس پر غیر ضروری معلومات، معاملات اور تعلقات کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ کسی بھی طالب علم کو یہ نکتہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ محض تماشائی یا ناظر کی حیثیت سے جو کچھ دیکھ اور سُن رہا ہوتا ہے وہ اُس کے ذہن کی گنجائش کو کسی نہ کسی حد تک خرچ کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی معلومات ذہن میں جمع کرنے کا خبط انسان کو بالآخر شش و پنج کی منزل تک لے آتا ہے۔ ایسے لوگ آخرِ کار ''کیا کروں، کیا نہ کروں‘‘ کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔
ذہن میں الجھن پیدا کرنے والے دو عوامل بہت نمایاں ہیں؛ غیر ضروری معلومات اور غیر ضروری تعلقات۔ آئیے! اِن دونوں کا تفصیلی جائزہ لیں۔ آج کی دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو بہت دلکش دکھائی دیتا ہے مگر ہمارے لیے زیادہ کام نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا کی پوسٹس کے ذریعے ہم تک ایسا بہت کچھ پہنچ رہا ہوتا ہے جس میں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم اِن پوسٹس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ الجھن اس لیے ہوتی ہے کہ ہم اس حوالے سے منصوبہ سازی نہیں کرتے۔ ع
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
والی حکمتِ عملی ہمیں عملاً برباد کرکے دم لیتی ہے۔ صرف پسند کی چیزوں تک محدود رہنے ہی میں بھلائی ہے۔ اگر آپ کو ڈرامے دیکھنے کا شوق ہے تو ایسے ڈراموں تک محدود رہیے جن کے موضوعات آپ کی پسند کے ہوں۔ یہی معاملہ فلموں کا بھی ہے۔ ہر فلم آپ کے مزاج کے مطابق نہیں ہوتی اس لیے اُس پر بہت زیادہ متوجہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہی معاملہ مطالعے کا ہے۔ جن موضوعات سے آپ کو شغف ہے اُن سے متعلق کتب ہی کا مطالعہ کیجیے۔ ناول پڑھنے کا شوق نہیں تو محض اس لیے مت پڑھیے کہ دوسرے بہت سے لوگ پڑھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ ذہن کو گدھا گاڑی بناکر اِس پر بہت کچھ لادنے سے گریز کیجیے۔ معقول زندگی بسر کرنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔
نئی نسل کو یہ بات اچھی طرح سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ذہن میں ایک دنیا کو سمونے یا بسانے کے بجائے اُسے کام کی باتوں تک محدود رکھا جائے تو اچھا۔ ذہن قدم قدم پر منصوبہ سازی چاہتا ہے۔ اِس میں بہت سی غیر ضروری باتیں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ اِس کچرے کو ٹھکانے لگانا لازم ہے۔ ذہن کو غیر ضروری باتوں سے دور رکھنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ اِسے اچھی یعنی متعلق اور کام کی باتوں میں لگایا جائے۔ آج کی تحقیق کہتی ہے کہ ذہن کی صلاحیت کم و بیش لامحدود ہے۔ یہ اربوں بلکہ کھربوں معلومات کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن کو آزمائش میں ڈالا جائے۔ اِسے حاصل ہونے والی معلومات آپس میں مطابقت رکھتی ہوں تو تجزیہ کرنا، سوچنا، فیصلہ کرنا اور حکمتِ عملی ترتیب دینا آسان ہو جاتا ہے۔ آپ کو معیاری زندگی بسر کرنی ہے تو زندگی بھر یہی کرنا ہے یعنی ذہن پر غیر ضروری بوجھ لادنے سے گریز کرنا ہے۔