"MIK" (space) message & send to 7575

جذباتی بھی ہوں تو سوچ سمجھ کر

گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران پاکستانی قوم نے بہت کچھ جھیلا ہے۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر سے اب تک جو کچھ اِس قوم پر بیتی ہے وہ اپنے اندر بہت سی کہانیاں سموئے ہوئے ہے۔ کہانیاں اِس ملک اور قوم کی جان نہیں چھوڑتیں۔ ہر قدم پر ایک نئی کہانی اِس بات کی منتظر ہوتی ہے کہ اُسے سنایا جائے، آگے بڑھایا جائے۔ کورونا کی وبا نے ہمیں کس حد تک تبدیل کیا ہے اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ تو ماہرین کرتے رہیں گے، ہم آپ کو اس نکتے پر متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ حالات کی تبدیلی بلکہ ابتری نے اس قوم کو بہت کچھ سمجھنے اور متعدد معاملات پر نئے سِرے سے سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے مگر اس موقع سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ کسی بھی قوم کو اپنے معاملات بہتر بنانے کے زیادہ مواقع نہیں ملا کرتے اور بار بار تو بالکل نہیں ملتے۔ کورونا کی وبا نے جہاں بہت سے معاملات میں ہمارے لیے الجھنیں پیدا کی ہیں وہیں چند ایک معاملات میں آسانیوں کی راہ بھی ہموار کی ہے۔ ہم الجھنوں اور پیچیدگیوں سے گتھم گتھا ہیں اور آسانیوں کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے۔ اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جارہی کہ الجھنیں چند افراد یا کسی ایک طبقے کے لیے پیدا نہیں ہوئیں، سبھی پریشان ہیں۔ بیشتر معاملات میں توازن کا کسی نہ کسی حد تک بگاڑ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں پایا ہے۔ کیا امیر‘ کیا غریب سبھی اس صورتِ حال سے بیزاری محسوس کر رہے ہیں۔
کیا یہ سب کچھ ہمیں بہت کچھ سمجھنے اور سوچنے کی تحریک نہیں دے رہا؟ حالات و واقعات کی بدلتی ہوئی نوعیت کیا ہمارے لیے کوئی پیغام نہیں رکھتی؟ کیا اب بھی ہم بے اعتنائی و لاتعلّقی کے دائرے میں مقید رہنا پسند کریں گے؟ قدم قدم پر سوالات ہیں اور ہر سوال اپنا معقول جواب چاہتا ہے۔ ہمیں بہت کچھ دیکھنا، سننا اور محض جھیلنا ہی نہیں بلکہ اِس سے کئی قدم آگے جاکر خود کو صورتِ حال سے مطابقت رکھنے والے عمل کے لیے تیار بھی کرنا ہے۔ ڈیڑھ سال کے دوران دنیا بھر میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے بہت سی کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں۔ ہر معاملے میں نظریۂ سازش کے تحت بہت کچھ کھوج نکالنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ یہ کوششیں کس حد تک بارآور ثابت ہوئی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہاں! اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چند ایک معاملات اِتنے مشکوک رہے ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ اِدھر اُدھر کا سوچنے لگتا ہے۔
خیر بات تبدیلی کی ہو رہی ہے۔ بہت سی مشکلات نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے اور اب اُن کا تقاضا ہے کہ ہم بچنے کی کوشش میں خود کو بدلیں۔ تبدیلی ناگزیر ہے۔ ہر دور کچھ نہ کچھ تقاضے لے کر وارد ہوتا ہے یعنی اُس سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیاں پیدا کرنا ہی پڑتی ہیں۔ بیسویں صدی میں دنیا نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے جو غیر معمولی تبدیلیاں دیکھیں اُن کا تقاضا ہے کہ اکیسویں صدی میں انسان اپنے فکر و عمل کو نمایاں حد تک بدلے اور اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے ابتدائی لمحات میں کورونا وائرس نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ جو کچھ اس وبا نے بدلا ہے اُس کی روشنی میں آج کے انسان کو بہت کچھ سوچنا ہے، خود کو بدلنا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں کے لیے معیاری و مثبت تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ اخلاقی سطح پر بھی غیر معمولی اصلاح کی ضرورت ہے اور سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر بھی کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہر فرد کو اپنے حصے کی ذمہ داری محسوس کرنی ہے۔
ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان جن مراحل سے گزرا ہے اُن کی روشنی میں نئی زندگی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حقیقت پسندی کو لازمی طور پر زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ اب کوئی بھی معاملہ بے اعتنائی، بے زاری اور اور بے حِسی کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ اب ایک نیا پاکستان واقعی ناگزیر ہوچکا ہے۔ کل تک یہ محض نعرہ تھا، آج قومی تقاضا ہے۔ ہم نے قوم کی حیثیت سے اب تک جو وقت گزارا ہے اُس کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ زمانے بھر کی خرابیوں کو گلے لگاکر جینے کی کوشش کی گئی ہے اور اپنے لیے گڑھا کھودنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ اب تک تو یہ سب کچھ جیسے تیسے چلتا آیا ہے مگر مزید نہیں چل سکتا۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں حقیقی سنجیدگی اپنانے کا سوچا جائے، غور و فکر کو نمایاں ترین ترجیحات میں جگہ دی جائے۔ پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے میں ایسی بہت سی پیچیدگیاں ہیں جن کے ہوتے ہوئے اصلاحِ احوال یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ عمومی رویوں میں بھی ایسی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں جو ہمیں معقولیت پر مبنی عمل تک جانے نہیں دیتے۔ حقیقت پسندی ناگزیر خصوصیت کا درجہ رکھتی ہے مگر ہم نے اِسے کچھ اِس انداز سے نظر انداز کیا ہے کہ اب معاملہ تاسّف کی منزل میں ہے۔
کسی بھی عالمگیر بحرانی کیفیت میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نقصان ہوا کرتا ہے۔ ہمیں بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بھی ہم باقی دنیا سے الگ طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران معاشی ڈھانچے اور سرگرمیوں کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ بہت سے بڑے کاروباری اداروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چھوٹے تاجر خاص طور پر پریشانی سے دوچار ہوئے ہیں۔ عام آدمی کا بہت بُرا حال ہے۔ ایسے میں خیر کا جذبہ بھی بھرپور توانائی کے ساتھ ابھرا ہے۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے بہت کچھ خرچ کرنے والوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ بہت سے لوگ اس معاملے میں قدرے جذباتی ہوکر سوچتے ہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو ‘وہاں بھی بہت کچھ خرچ کر بیٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوں اُن کی خرچ کی ہوئی رقوم کا بڑا حصہ 'ضائع‘ ہو جاتا ہے۔
قوم نے ایک سال سے برقرار بحرانی کیفیت کے دوران زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پھر بھی مطلوب نتائج اب تک برآمد نہیں ہوسکے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ پورا معاملہ شدید عدم توازن کی نذر کردیا گیا ہے۔ لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ضرور ہیں مگر یہ دیکھنے یا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جن کی مدد کی جارہی ہے وہ حقیقی مفہوم میں امداد کے مستحق ہیں بھی یا نہیں۔ بہبودِ عامہ کے معاملے میں جذباتیت عام ہے۔ اس جذباتیت کا وہ لوگ بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں جو مستحق نہ ہونے کے باوجود اِدھر اُدھر سے مال بٹورتے پھرتے ہیں۔ گزشتہ برس جب کورونا کی وبا نے اوّل اوّل زور پکڑا تھا تب حکومت نے بھی غریبوں کی مدد کی تھی اور مخیر افراد بھی سامنے آئے تھے۔ دینے والے جذباتی تھے اور (ضرورت مند نہ ہوتے ہوئے بھی) لینے والے بے شرم۔ اُنہیں مال بٹورکر مستحقین کا حق مارتے شرم نہ آئی۔ جب راشن تقسیم ہوا تو بہت سوں نے دو دو‘ تین تین من آٹا جمع کرلیا! امداد اس لیے ہوتی ہے کہ ضرورت مند لے اور اپنی ضرورت پوری کرے۔ یہاں تو کوئی اور ہی منظر دکھائی دیا۔ ''عادی مجرموں‘‘ نے خوب راشن بٹورا جو بعد میں دکانداروں کو کم قیمت پر فروخت کردیا گیا۔
کورونا کی وبا کے ہاتھوں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے وہ اس امر کی خاص طور پر متقاضی ہے کہ ہم کسی بھی حوالے سے سطحی سوچ نہ اپنائیں اور لاحاصل جذباتیت کا مظاہرہ نہ کریں۔ اگر اللہ نے کسی کی مدد کرنے کے قابل بنایا ہے تو اس معاملے میں بھی تعقل اور توازن کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ کسی کی مدد کرنے سے پہلے اُس کے حقیقی مستحق ہونے کا یقین کرلیا جائے۔ ذرا سا بھی شبہ ہونے پر اُس وقت تک مدد نہ کی جائے جب متعلقہ فرد اپنا مستحق ہونا ثابت نہ کردے۔ علمائے کرام اس ضمن میں مزید رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ عوام کی رہنمائی کریں کہ وہ اللہ کی راہ میں سوچ سمجھ کر خرچ کریں اور بلا ضرورت مدد لینے والے عادی افراد بھی اللہ سے ڈریں اور کسی کا حق نہ ماریں۔ خیرات اور بہبودِ عامہ تو بحرانی کیفیت کا محض ایک پہلو ہے۔ دیگر تمام معاملات پر بھی گہری نظر رکھی جانی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں