"MIK" (space) message & send to 7575

ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو

ایک زمانے سے اردو کے شعرا دل کی کارستانیوں کا رونا روتے آئے ہیں۔ دل کا معاملہ ہے بھی ایسا کہ جس قدر رویے کم ہے۔ دل کا کام جسم کے پورے نظام کو چلتا رکھنا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ دل پوری کائنات کو چلانے پر تُلا رہتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ اگر شعرا پر پابندی عائد کردی جائے کہ وہ دل کا ذکر نہیں کریں گے تو پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوگا کہ وہ ہر دم تازہ محسوس ہونے والا موضوع کہاں سے لائیں۔
مرزا تنقید بیگ ہر سال موسمِ گرما کی آمد پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ آم کی فصل اترنے پر وہ کچھ دن کے لیے خود کو غالبؔ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ کوئی اگر آم لے کر اُن کے ہاں پہنچ جائے تو اُن کی نظر میں اُس سے بڑا کوئی بھی نہیں ہوتا۔ غالبؔ کہا کرتے تھے کہ آم میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔ آموں کے حوالے سے مرزا تنقید بیگ کا ''نظریہ‘‘ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ تو ہوا ''نظریہ‘‘ ،حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے؟ جب مرزا کے سامنے آم دھرے ہوں تو اُنہیں اور کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔ غالبؔ کی طرح مرزا بھی آم کا ڈھیر سامنے پاکر ضبط کا ہر بند توڑ بیٹھتے ہیں اور پھر جو کچھ اُن پر گزرتی ہے وہ کچھ دیکھے ہی بنتی ہے۔ کل ہم اچھے خاصے وقفے سے اُن کے گھر گئے تو ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے اور جب اُنہیں معلوم ہوا کہ ہم آموں سمیت تشریف لائے ہیں تو مزید بلکہ شدید خوش ہوئے۔ ہم آم اُنہی کے لیے لے گئے تھے مگر بھابھی نے خاصی بلند آواز سے بچوں کو حکم دیا کہ کوئی بھی مرزا تک آم نہ پہنچائے! ہم بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی۔ مرزا اور آموں سے محرومی؟ یہ تو کچھ ناممکن سی بات ہے۔ ہم نے جب مرزا کو آموں سے محروم رکھنے کی غایت پوچھی تو بھابھی نے بتایا کہ کچھ دن ہوئے اُن کے میکے والے آئے تھے اور چار پانچ کلو آم لائے تھے۔ اتنے سارے آم دیکھ کر مرزا دل و دماغ پر قابو نہ رکھ سکے اور اپنے معدے پر قیامت سی ڈھادی۔ ایک ہی نشست میں اتنے آم کھائے کہ آن کی آن میں غدودانِ معدہ میں حالتِ خانہ جنگی ہونے لگی! آم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ سوچے سمجھے بغیر بہت زیادہ کھایا جائے تو معدے کا نظام بگاڑ دیتا ہے۔ اور مرزا کی خاصیت یہ ہے کہ جب آم سامنے دھرے ہوں تو وہ دنیا وما فیہا سے بے خبر و بے نیاز ہوکر ''آم پرستی‘‘ میں مشغول ہو جاتے ہیں! آپ چاہیں تو اُنہیں آموں کا بندۂ بے دام بھی قرار دے سکتے ہیں۔ ہم نے مرزا سے حال پوچھا کہ اب غدودانِ معدہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ جواب ملا کہ تھوڑی بہت تکلیف ضرور اٹھانا پڑی مگر یہ ''اعزاز‘‘ بھی کیا کم ہے کہ یہ تکلیف آم کھانے کے نتیجے میں پیدا ہوئی! ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ مرزا بھی عجیب ہیں کہ جس چیز کے ہاتھوں تکلیف سے دوچار ہوئے اُسی کو سراہنے سے گریزاں بھی نہیں! یہاں تو لوگ اِس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ ؎
ویسے تو تمہی نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا!
اور مرزا ہیں کہ جس کے ہاتھوں معدے کی خرابی تک پہنچے اُس کا نہ صرف یہ کہ ذکر کرتے ہیں بلکہ اُس کی ستائش پر بھی خود کو مائل پاتے ہیں! مرزا کے مزاج کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ یہ مزاج کچھ اُنہی کا حصہ نہیں۔ یہاں تو پوری قوم کا مزاج کچھ اِسی انداز کا ہوچلا ہے۔ یہ کیفیت غالبؔ نے یوں بیان کی تھی ع
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دَم نکلے
اس وقت پوری قوم کا بنیادی مسئلہ ہے دل پر قابو پانا۔ دل بات بات پر مچل جاتا ہے۔ کسی چیز کو پانے کی سوچ بھی لے تو سوچ بدلتا نہیں۔ جو چاہیے وہ بس چاہیے۔ یہ کیفیت پوری قوم کے حواس پر چھاگئی ہے۔ بات بات پر معاملات کا ہاتھ سے نکل جانا عام بات ہے اور یہ سب کچھ دل کے ہاتھوں ہے۔ چار عشرے پہلے کی بات ہے۔ مہدی حسن اور ناہید اختر نے ایک گیت گایا تھا جس کا مکھڑا تھا ؎
ہم نے خود چھیڑ دیا پیار کے افسانے کو
ہائے! کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو
بات بات پر مچل جانے والے دل نے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ ایک معاشرہ ہے کہ دل کے ہاتھوں غلامی کے ''مزے‘‘ لُوٹ رہا ہے۔ ایک قوم ہے کہ دل کی غلام سی ہوکر رہ گئی ہے۔ زمانے کی روش کچھ ایسی ہے کہ قدم قدم پر ضبطِ نفس کا امتحان ہے اور ہمارے لیے اس امتحان میں ناکامی ہی ناکامی لکھی ہوئی ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر ایثار مانگتی ہے۔ یہ ایثار دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے لیے بھی ہوتا ہے۔ دل تو بہت کچھ چاہتا ہے مگر دل کی ہر بات ماننے والوں کے لیے آخر میں صرف الجھن رہ جاتی ہے۔ دنیا کی رنگینی ہمیں آزماتی رہتی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے لیے زیادہ کام کا نہیں اور بعض معاملات میں تو بالکل کام کا نہیں ہوتا مگر ہم دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ہی لیے خسارے کا سَودا کر بیٹھتے ہیں۔ معیاری زندگی بسر کرنا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم دل کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوں۔ دل بہت کچھ چاہتا اور مانگتا ہے۔ اُس کی ہر فرمائش پوری نہیں کی جاسکتی۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ اپنے لیے خود گڑھا کھودتے ہیں۔ زندگی بہت بڑی نعمت ہے۔ اِس نعمت کو خواہشوں کی چوکھٹ پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ دل خواہشوں کا گڑھ ہے اور ہر خواہش اپنی تکمیل چاہتی ہے۔ ہمارے لیے اگر محترم ہے تو صرف وہ خواہش جو ہمارے مفاد سے تعلق رکھتی ہو۔ ہر خواہش کے آگے سَر نہیں جھکایا جاسکتا۔ ایسا کرنا بے عقلی کے سوا کچھ نہیں۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ وہی افراد اور معاشرے کامیاب رہتے ہیں جو سیکھتے رہتے ہیں۔ اور سیکھنا کیا ہے؟ دل کو قابو میں رکھنے کا ہنر، اور کیا؟ جس نے دل کی ہر ضد کے آگے ہتھیار ڈالے وہ برباد ہوا۔ دل کی فرمائشیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ سیدھی سی بات ہے، دل کا تو کام ہی فرمائشیں کرنا ہے۔ یہ اپنی خصلت سے باز آئے گا نہیں۔ عادت اگر بدلنی ہے تو ہمیں بدلنی ہے۔ بگاڑ سے ہمیں بچنا ہے، دل کو نہیں۔ زندگی ایسی نعمت ہے جس کی حقیقی قدر کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ اس نعمت کو دل کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر خیال نہ رکھا جائے، لاپروائی برتی جائے تو انتہائی المناک نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ بے لگام خواہشیں کب کون سا گُل کھلا بیٹھیں پورے یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ خواہشوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ توجہ نہ دی جائے تو یہ معاملات کی جڑیں کھوکھلی کردیتی ہیں۔ ہوش آنے پر انسان سوچتا اور کفِ افسوس ملتا رہ جاتا ہے ؎
زندگی سی نعمت کو قتل کر گیا آخر
دل کہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا خنجر تھا
انسان کی سادگی کی انتہا یہ ہے کہ خرابی کا سامنا کرنے پر اگر کوئی نشاندہی کرے تو کہتا ہے اِس میں دل کا کیا قصور، یہ تو ہونا ہی تھا! دیکھا آپ نے؟ دل کس کس طرح دھوکا دیتا ہے؟ انسان برباد ہوکر بھی دل کو موردِ الزام ٹھہرانے سے گریزاں رہتا ہے۔ کہانی صرف اِتنی ہے کہ کسی بھی معاملے میں دل کے مچل جانے سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہنر اگر نہیں آتا تو سیکھ لیجیے۔ دل کی ہر خواہش کو بسر و چشم قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دل کا کیا ہے، وہ تو بات بات پر مچل کر آپ کے لیے دو راہا پیدا کرتا ہے۔ دل کے ہاتھوں بار بار دو راہے پر آنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ آپ سوچ سمجھ کر درست راہ کا تعین کریں اور اُس پر یوں گامزن رہیں کہ اِدھر اُدھر کی رونقیں آپ کو ''بے راہ رَوی‘‘ اپنانے پر مجبور نہ کرسکیں۔ یہ کام ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ دل کو قابو میں رکھنا ہنر ہے اور معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کے لیے یہ ہنر سیکھے بغیر چارہ نہیں۔ یہ نکتہ جس قدر جلد سمجھ میں آجائے اُتنا اچھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں