"MIK" (space) message & send to 7575

گدھا کھا مَرے کہ اُٹھا مَرے

یہ بھی خوب ہے کہ جس چیز کی قِلّت نہیں پائی جاتی اُس کی قِلّت ہم خود پیدا کردیتے ہیں۔ یہ سمجھنے کیلئے آپ کا آئن سٹائن ہونا لازم نہیں۔ یہ تو بہت آسانی سے سمجھ میں آ جانے والا معاملہ ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ کسی چیز کی طلب بڑھنے والی ہے یا بڑھ سکتی ہے، اُس کی خریداری میں اچانک تیزی آجاتی ہے اور دور دور تک نہ پائی جانے والی قِلّت اچانک یوں پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم دیکھتے اور سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ عید الفطر کے موقع پر لوگ گوشت، دودھ اور دہی پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ دودھ شیر خورمہ بنانے کیلئے خریدا جاتا ہے کہ جبکہ گوشت اور دہی بریانی، پلاؤ وغیرہ پکانے کیلئے۔ یہی حال عید الاضحی پر ادرک اور لیموں وغیرہ کا ہوتا ہے۔ لوگ قربانی کا گوشت بھون کر کھانے کی تیاری کے نام پر ٹماٹر، ادرک، لیموں اور کچّا پپیتا بڑی مقدار میں اور تیزی سے خریدتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ اشیا بازار سے یوں غائب ہو جاتی ہیں جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔
یہ بدحواسی کا عالم کب سے ہے کچھ یاد نہیں اور کب تک رہے گا پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم نے من حیث القوم شاید یہ طے کرلیا ہے کہ ہر معاملے میں شدید بدحواسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بیشتر معاملات میں ''گدھا کھا مرے کہ اٹھا مرے‘‘ والی کیفیت پیدا ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم بدحواسی کے عالم میں کوئی چیز بہت بڑی مقدار میں استعمال کرتے ہیں یا پھر اُسے ذخیرہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ گدھے کا یہی تو مسئلہ ہے۔ وہ یا تو بہت کھاتا ہے یا پھر بہت اٹھاتا ہے۔ من حیث القوم ہمارے خواص میں اب عجلت پسندی اور طمع بہت نمایاں ہیں۔ طمع یہ کہ ہمارے پاس بہت کچھ ہو، خواہ اُس کی ضرورت بہت کم یا بالکل نہ ہو۔ معقول طرزِ فکر و عمل تو یہ ہے کہ انسان اُتنا ہی حاصل کرے جتنا ضروری ہو۔ گھر میں وہی کچھ ہونا چاہیے جس کی ضرورت پڑتی رہتی ہو۔ عمومی ذہنیت یہ ہوگئی ہے کہ گھر میں بہت کچھ ہونا چاہیے۔ اِس بہت کچھ کے چکر میں ہم زندگی سے محظوظ ہونے کا موقع کھو بیٹھتے ہیں۔ معاشرے کی ایک عمومی روش یہ بھی ہے کہ کماتے جائیے اور خرچ کرنے کے وقت کو بھی کمانے میں کھپا دیجیے۔ ہم جو کچھ بھی کماتے ہیں وہ اوّل و آخر صرف اس لیے ہوتا ہے کہ زندگی کا معیار بلند ہو، دنیا دیکھے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے اُس کے نتیجے میں کچھ پایا ہے اور جو کچھ پایا ہے اُس سے بہ طریقِ احسن کام لیتے ہوئے زندگی کا معیار کسی حد تک ضرور بلند کیا ہے۔ بہت کچھ پانے، بلکہ جمع کرتے چلے جانے کی ذہنیت پر اگر قابو نہ پایا جائے تو یہ زندگی کے ہر اہم معاملے کو خرابی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ تمام مخلوق میں صرف انسان کو عقل ودیعت کی گئی ہے یعنی وہ اپنے ماحول کو دیکھے، پرکھے اور اپنی ضرورت کے مطابق وہ سب کچھ کرے جسے نہ کرنے سے معاملات بگڑ سکتے ہوں۔
کیا ہم اپنے عمومی معاملات میں عقل و دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کرنے کے عادی ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ ماحول کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے نہ کچھ سوچنے کی۔ وہ یوں زندگی بسر کرتا ہے گویا زندگی اُسے گزار رہی ہو۔ زندگی بسر کرنے کا یہ اندازہ سراسر خسارے کا ہے۔ زندگی سی نعمت اس لیے تو عطا نہیں کی گئی کہ اسے ''بے فِکری‘‘ اور لاپروائی کی نذر کردیا جائے۔ ذہن اس لیے ملا ہے کہ بروئے کار لایا جائے، سوچا جائے اور اپنے ماحول سے زیادہ سے زیادہ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بہت کچھ پانے کی دُھن میں ہم بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں اور اس کا ہمیں بروقت اندازہ بھی نہیں ہو پاتا۔
سوچے بغیر جینے کا انداز صرف حیوانات کو بخشا گیا ہے۔ اُن کی دنیا محدود ہے۔ اس محدود دنیا میں انہیں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ انسان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اُسے گزرے ہوئے زمانوں کا بھی حساب رکھنا ہے، زمانۂ حاضر کی نبض بھی جانچتے رہنا ہے اور مستقبل کی تیاری بھی کرنی ہے۔ حیوانات صرف لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب بھی نہیں لیا جائے گا۔ انسان کو ہر بات کا حساب دینا ہے۔ پوچھا جائے گا کہ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی تو اُس سے استفادہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اگر اللہ نے کسی ہنر میں یکتا کیا ہے تو اُس سے دنیا کو مستفید کرنا ہوگا۔ نہ کیا تو باز پُرس ہوگی۔
انسان کو اس کائنات کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ شدید اور واضح بے ذہنی کے بغیر جیے، جیسے تیسے اِس دنیا میں بخشی جانے والی سانسوں کی گنتی پورے کرے اور مدتِ حیات مکمل ہونے پر رختِ سفر باندھ کر آخرت کی طرف کوچ کر جائے۔ اگر اِسے طرزِ حیات کہا بھی جائے تو صرف حیوانات کیلئے ہوسکتی ہے، انسانوں کے لیے نہیں۔ انسان کو بیک وقت اپنے لیے بھی جینا ہے اور دوسروں کے لیے بھی۔ اصلاحِ نفس پر بھی مائل رہنا ہے تاکہ شخصی اوصاف کا معیار بلند ہو اور اُن سے زیادہ اچھی طرح کام لیا جاسکے۔ یہ ذمہ داری ہر انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ بھولنے کی صورت میں اس ذمہ داری کے حوالے سے بھی باز پُرس کی جائے گی۔ ہمارے خالق و رب کی مرضی یہ ہے کہ جن صلاحیتوں کے ساتھ اُس نے ہمیں وجود بخشا ہے اُنہیں بہ طریقِ احسن بروئے کار لاتے ہوئے یوں جیا جائے کہ دنیا دیکھے تو سراہے بغیر نہ رہ پائے۔
ہم صرف بہتات کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ تصور ذہنوں پر نقش ہوکر رہ گیا ہے کہ کامیاب وہی ہے جس کے باعث ہر چیز بہت بڑی تعداد یا مقدار میں ہو۔ کیا واقعی زندگی کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ ہم بہت کچھ حاصل کرتے چلے جائیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ انسان احسنِ تقویم کا نمونہ ہے یعنی بہترین اندازے پر خلق کیا گیا ہے۔ ہر انسان کو صلاحیتوں کا خزانہ عطا کیا گیا ہے۔ اب لازم ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اِس طور جیے کہ دنیا دیکھے اور کچھ سیکھے، کچھ پائے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ ذخیرہ کاری کے رجحان کا نمونہ ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ سب اُنہیں مل جائے۔ زیادہ سے زیادہ پانے کی دُھن میں زندگی بھر محنت کی جاتی ہے مگر جو کچھ حاصل ہو پاتا ہے اُس سے مستفید ہونے کا وقت نہیں مل پاتا۔ یعنی جوکچھ ملتا ہے وہ در حقیقت مل نہیں پاتا۔ گویا ہم مایا جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آنکھ تماشوں میں گم رہنے کی عادی ہوچکی ہے۔ ہر معاملے میں گھما پھراکر کوشش اگر ہوتی ہے تو صرف یہ کہ بہت کچھ مل جائے۔ پھر چاہے وہ اصلاً ہمارے لیے غیر ضروری ہی ہو۔
زندگی کا حُسن اِس امر میں مضمر ہے کہ ہمیں جو کچھ بھی میسر ہو اُس سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے ہی ہم زندگی کا معیار بلند کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اشیاء کا حصول حتمی مقصد نہیں۔ اُن سے کام لیتے ہوئے زندگی کی رونق اور دل کشی میں اضافہ ممکن بنانا ہمارے لیے حتمی مقصد کا درجہ رکھتا ہے۔ اہلِ دانش کا فرض ہے کہ لوگوں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ کامیابی صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہمارے پاس بہت کچھ ہو بلکہ درحقیقت کامیاب وہ ہیں جو کچھ پانے پر اُسے عمدگی سے بروئے کار لانے پر متوجہ رہتے ہیں اور یوں زندگی کا معیار بلند کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اشیاء و خدمات کا بہت بڑے پیمانے پر متواتر حصول یقینی بنانے کی خواہش محض خواہش نہیں بلکہ اچھا خاصا ذہنی مرض ہے۔ یہ مرض نظر انداز کیے جانے کی صورت میں پورے وجود کو گُھن کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ شان الحق حقیؔ نے کہا تھا ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے
ہمیں قدم قدم پر نظاروں میں گم نہیں رہنا ہے بلکہ نظاروں کی مدد سے زندگی کی دل کشی کا گراف بلند کرتے رہنا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں