وعدے‘ وعدے ہی رہے ہیں، دعوے بھی اپنے حد سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ ایک زمانے سے جو راگ الاپا جاتا رہا ہے وہی اب بھی الاپا جارہا ہے۔ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے نام پر بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے۔ اہلِ شہر کو وعدوں اور دعووں کا جھولا جھلایا جاتا رہا ہے۔ اس کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہی نکلتا رہا۔ سیدھی سی بات ہے ؎
قسمیں، وعدے، پیار، وفا
سب باتیں ہیں، باتوں کا کیا!
امید کا دامن بار بار ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ کیوں نہ چھوٹے؟ وعدوں پر بھروسا کرتے کرتے کوئی کہاں تک جیے؟ اور کب تک اپنے دل کو بہلائے؟ شہرِ قائد کے مکین ہر بار داغؔ کی زبان میں شِکوہ کرتے پائے گئے ہیں ؎
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
یہ انتظار اہلِ کراچی کی زندگی سے نکلتا نہیں۔ اِن کا مقدر ہوکر رہ گیا ہے۔ انتظار کا جھولا جھولتے جھولتے سبھی ہچکولوں بھری زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ اگر معاملات بالکل درست چل رہے ہوں تو طبیعت میں الجھن سی پیدا ہونے لگتی ہے۔ لوگ سُکون کو ترستے ہیں۔ جب سُکون میسر ہوتا ہے تو طوفان سے پہلے کی خاموشی جیسا مہیب محسوس ہوتا ہے۔ اہلِ کراچی کی زندگی کچھ اِس نوعیت کی ہوکر رہ گئی ہے کہ روز مرنا ہے، روز جینا ہے۔ شہرِ قائد کے مکین سوچتے ہی رہتے ہیں ؎
سینے میں جلن، آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
بہت عجیب معاملات ہیں۔ سُکون آتا نہیں، بیزاری جاتی نہیں۔ گزشتہ برس کراچی پر قیامت سی گزری تھی۔ طوفانی بارشوں نے شہرِ قائد کے مکینوں کو پہلی بار سمجھایا تھا کہ شہری سیلاب کیا ہوتا ہے۔ ایک دن تو یوں بھی ہوا کہ شہر کے مرکزی علاقوں کے رہنے والوں کو بھی بارش کے دوران گھر پہنچنے میں سات‘ آٹھ گھنٹے لگ گئے! ملک کا سب سے بڑا شہر، معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی، پورے ملک سے آئے ہوئے لوگوں کا بسیرا ... اور یہ انجام؟ وعدے اور دعوے کرنے والوں کا کام صرف اتنا ہے کہ آتے ہیں، دلاسے دے کر چلے جاتے ہیں اور اہلِ شہر کا یہ حال ہے کہ ؎
کب تک رگوں میں اپنی اذیت سموئیے
کس کس کو یاد کیجیے، کس کس کو روئیے
گزشتہ برس کراچی میں طوفانی بارشوں نے جو غیر معمولی بحرانی کیفیت پیدا کی اُس نے لوگوں کو دہلاکر رکھ دیا۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کو بھی نوٹس لینا پڑا۔ پہلے آرمی چیف کراچی آئے اور کاروباری برادری کو دلاسا دے کر گئے۔ پھر وزیر اعظم کراچی پہنچے اور یقین دلایا کہ شہر کے تمام بنیادی مسائل جلد از جلد حل کیے جائیں گے۔ ترجیحی بنیاد پر کام کرنے کے لیے گیارہ سو ارب روپے کا کراچی ٹرانسفارمیشن پیکیج بھی سامنے لایا گیا۔ اب یہ پیکیج کہاں ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ سندھ حکومت کا شکوہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر وفاق سندھ میں مداخلت کر رہا ہے۔ سندھ حکومت کا استدلال ہے کہ کوئی بھی ترقیاتی پیکیج اُسے دیا جائے تاکہ وہ پورے صوبے میں کام کرائے۔ دوسری طرف وفاق کا گلہ ہے کہ سندھ حکومت کو جو منصوبے دیے جاتے ہیں وہ تکمیل کی منزل تک نہیں پہنچتے اور فنڈنگ کا بڑا حصہ اِدھر اُدھر کردیا جاتا ہے۔ کرپشن روکنے کے لیے وفاق نے کراچی کے ترقیاتی منصوبے براہِ راست مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اہلِ کراچی کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ ترقیاتی منصوبے کس کی نگرانی میں مکمل کیے جاتے ہیں۔ اُنہیں تو اپنے مسائل کے حل سے غرض ہے۔ مسائل حل ہوں تو بات بنے، کراچی واقعی بین الاقوامی شہر بنے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود کراچی اب تک وفاق اور سندھ حکومت‘ دونوں کی بھرپور توجہ سے محروم رہا ہے۔ کیوں؟ یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ کراچی کی ترقی سے پورے ملک کی ترقی جڑی ہوئی ہے۔ پورے ملک سے آئے لوگ یہاں بسے ہوئے ہیں۔ اگر شہر ترقی کرے گا تو وہ تمام علاقے بھی خوش حال ہوں گے جہاں سے آئے ہوئے لوگ کراچی میں کماتے ہیں۔ جب کسی شہر پر پورے ملک کی معیشت کا دارومدار ہو تو فطری سی بات ہے کہ اُس کی ترقی پر زیادہ دھیان دیا جانا چاہیے۔ یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ قومی معیشت کو بہتر حالت میں لانے کے لیے کراچی پر توجہ دیے بغیر چارہ نہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ کراچی ہی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ساحلی شہر ہونے کے ناتے یہ باقی دنیا سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اتنے شاندار محلِ وقوع کی بنیاد پر تو شہر کو کچھ کا کچھ ہو جانا چاہیے مگر افسوس کہ شہر پر توجہ دینے کا وقت اب بھی وفاق کے پاس ہے نہ سندھ حکومت کے پاس۔
کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے آواز اٹھانے والوں میں جماعتِ اسلامی نمایاں ہے۔ انتظامی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے میدان میں آنے والی جماعتوں اور تنظیموں میں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تین چار سال کے دوران مصطفی کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی بھی میدان میں آئی ہے۔ علاوہ ازیں چند تنظیموں نے بھی کراچی کے لیے آواز اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ شہر مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے مگر کوئی متوجہ ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر رابطہ مہم چلاکر کراچی کے مسائل کو ہر شعبے کی نمایاں ترین شخصیات کے گوش گزار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بارش کا موسم پھر آنے کو ہے۔ کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی تاحال شروع نہیں کی گئی۔ کروڑوں روپے اس مد میں ہر سال رکھے جاتے ہیں اور یہ رقم کہاں جاتی ہے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ نالے صاف کرنے کے نام پر کبھی کبھی کچرا نکال کر سڑک پر ڈال دیا جاتا ہے۔ لوگ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یہ کچرا اگر نالوں ہی میں پڑا رہتا تو کیا بُرا تھا۔ سڑکوں پر ڈالنے سے تو مزید خرابی پھیلتی ہے۔
کورونا کی وبا نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ قومی معیشت خرابی سے دوچار ہے۔ سوا سال کے دوران کراچی کی معیشت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کو کمائی کا اچھا بہانہ مل گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران جو دکان دار کاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی جیب ڈھیلی کرتے ہیں۔ یہ عمل بالآخر حتمی صارفین کے لیے مسائل بڑھاتا ہے۔ کسی بھی دکان دار کو دکان کھلی رکھنے کے لیے جو کچھ دینا پڑتا ہے وہ اُسے صافین سے‘ کسی نہ کسی طور‘ وصول کر ہی لیتا ہے۔
بہر کیف، کراچی کو مضبوط بنانے ہی سے قومی معیشت کی مضبوطی بھی وابستہ ہے۔ شہر مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ بنیادی سہولتیں بھی لوگوں کو میسر نہیں‘ اعلیٰ معیار کا تو ذکر ہی الگ۔ شہرِ قائد اس بات کا منتظر ہے کہ اُس کی فریاد سُنی جائے، اُس کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے۔ یہ ہوگا تو معاملات درستی کی طرف جائیں گے۔ یہ کب ہوگا؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ کاش کہ ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں کہ اب کراچی کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ اہلِ کراچی ایک زمانے سے ترس رہے ہیں کہ اُن پر توجہ دی جائے۔ دِلّی جب خرابیوں کی نذر ہوئی تو شعراء نے معاملات کو خوب بیان کیا۔ غالبؔ، مومنؔ سبھی نے کچھ نہ کچھ لکھا۔ داغؔ نے بھی دِلّی کی کیفیت خوب بیان کی۔ خواجہ میر دردؔ شہر کی خرابی بیان کرنے میں سب سے نمایاں رہے۔ اُنہوں نے خوب کہا ؎
دردؔ کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے، نِت وہی غم ہے
ایک زمانے سے اہلِ کراچی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اللہ کرے کہ شہرِ قائد کے مکینوں کے پاس کچھ اچھی خبریں بھی سُنانے کیلئے ہوں۔