اِک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا
ایک ننھی سی جاں کو ہزار طوفانوں کا سامنا رہا ہے اور یہ کیفیت ختم یا تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ قدم قدم پر خیال آتا ہے ؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یہ شخصی یا انفرادی رنج و غم کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ قصہ ہے مملکتِ خدادادِ پاکستان کا۔ روزِ اوّل سے پاکستان بہت سوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے۔ ''اکھنڈ بھارت‘‘ 1947ء میں تقسیم ہوگیا۔ یہ ایسا دکھ تھا جو اہلِ ہند کے دل و دماغ میں آج تک کمزور نہیں پڑا۔ طرفین کی طرف سے بعض راست فکر خیر خواہوں نے میل ملاپ کی کوشش تو بہت کی مگر کچھ خاص حاصل نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کو اُس کے حصے کے اثاثے دینے کے معاملے میں انتہائی غیر لچک دار موقف اپنانے پر موہن داس کرم چند گاندھی کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
سید عاشق حسین صدیقی‘ جن کو ادب کی دنیا علامہ سیمابؔ اکبر آبادی کے نام سے جانتی ہے‘ داغؔ کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کی طرح سیمابؔ نے بھی شاگردوں کی فوجِ ظفر موج ترکے میں چھوڑی۔ سیمابؔ اکبر آبادی کہتے ہیں ؎
پریشاں ہونے والوں کو سکوں کچھ مل بھی جاتا ہے
پریشاں کرنے والوں کی پریشانی نہیں جاتی!
انسانی مزاج اور فکری ساخت کا ایسا بلیغ تجزیہ کم ہی اہلِ ہنر نے کیا ہوگا۔ سیمابؔ نے ایک بہت بڑی حقیقت کو چند الفاظ میں سموکر گویا کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ جو کچھ سیمابؔ نے کہا ہے وہ پاکستان پر خوب منطبق ہوتا اورصادق آتا ہے۔ روزِ اوّل سے پاکستان کو پریشان کرنے والوں کا سامنا رہا ہے۔ ایک سازش ابھی دم نہیں توڑتی کہ دوسری سر اٹھانے لگتی ہے۔ سوچنے والے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کس کس معاملے پر متوجہ ہوں، کہاں تک سازش و فساد کی راہ روکیں۔ کسے منائیں اور کسے روٹھنے سے باز رہنے پر قائل کریں۔ قدرت کی خوبی دیکھیے کہ محلِ وقوع بھی وہ نصیب ہوا ہے کہ آنگن میں پتھر تو آنے ہی ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ برطانوی سلطنت نے ہندوستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتے وقت ملک کو تقسیم تو کردیا مگر پاکستان کو وہ محلِ وقوع دیا کہ اگر معاملات درست رکھنے میں کامیاب یقینی بنائی جاسکے تو یہاں سے ایک دنیا کو اپنے حق میں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان وسطِ ایشیا کے لیے بھی دروازہ ہے اور چین کے لیے بھی اچھی متبادل گزر گاہ۔ چین نے پاکستان کو گزر گاہ یعنی گیٹ وے کے طور پر استعمال کرنا شروع بھی کردیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری اور کیا ہے؟ ہاں، شورش زدہ افغانستان کی شکل میں راستے کا ایک بڑا کانٹا موجود ہے ورنہ وسطِ ایشیا بھی ہم سے کماحقہٗ مستفید ہوسکتا تھا۔ دیکھئے اس معاملے میں کامیابی کب تک نصیب ہو پاتی ہے۔
ابتدا ہی سے ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہمیں سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک طرف بھارت ہے جو اسرائیل سے مل کر ہمارے لیے الجھنیں پیدا کرتا رہا ہے اور دوسری طرف امریکا ہے جس نے یورپ کو ہم نوا بناکر ہمارے لیے پریشانی کا سامان کرنے میں کبھی کوئی کوتاہی برتی ہے نہ تساہل سے کام لیا ہے۔ ان سب پریشان کرنے والوں نے پاکستان کے لیے الجھنیں پیدا کرنے اور اہلِ پاکستان کو پریشانی سے دوچار کرنے میں کبھی زیادہ تھکن محسوس نہیں کی۔ یہ اپنا کام کیے جارہے ہیں اور ہم اپنا۔ اہلِ پاکستان ابھی ایک الجھن سے نبرد آزما ہوکر سکون کا سانس لے رہے ہوتے ہیں کہ کوئی نئی الجھن سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ ہم تو کسی نہ کسی طور سکون کے دو چار سانس لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پریشان کرنے والوں کا دکھ دور نہیں ہوتا۔ وہ ''بے چارے‘‘ سوچتے ہی رہتے ہیں کہ کیا کریں، کیا نہ کریں۔ اُن کے اذہان میں سازشیں پنپتی رہتی ہیں۔ ہمیں پریشانی سے دوچار رکھنے والوں کو ایک پل بھی قرار نہیں۔ اُن ''بے چاروں‘‘ کو دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔
اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ قیامِ پاکستان کو سات عشرے گزر چکے ہیں مگر پاکستان کی مشکلات ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ ایسا تو ہونا ہی ہے۔ ایک طرف بیرونی دشمن ہیں اور دوسری طرف اندرونی۔ فریقین میں سے کوئی بھی سکون کا سانس لینے کو تیار نہیں۔ محاذ پر بے سُکونی ہی بے سُکونی ہے۔ پاکستان بے چارگی کی زبان سے کیوں نہ کہے ؎
اِس بھری دنیا میں کوئی بھی ہمارا نہ ہوا
غیر تو غیر تھے، اپنوں کا سہارا نہ ہوا
ہمارا معاملہ یہ رہا ہے کہ جن پر تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ جب کبھی کسی پر بہت بھروسا کیا ہے، اُس نے دوستی اور اشتراکِ عمل کے مزے لُوٹنے کے بعد ٹھینگا دکھانے میں دیر نہیں لگائی ہے۔ افغانستان ہی کی مثال لیجیے۔ سابق سوویت یونین کی لشکر کسی کے بعد افغان پناہ گزینوں کو پاکستان نے قبول کیا اور افغانستان سے سویت افواج کا قبضہ ختم کرانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اس لڑائی بھی ہمارا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا۔ نتیجہ؟ کام نکل جانے کے بعد افغانستان ہمیں بھول گیا اور بھارت سے دوستی اور اشتراکِ عمل کی پینگیں بڑھانے کو ترجیح دی۔ چند پشتون علاقوں کو چھوڑ کر باقی افغانستان ہمیشہ سے بھارت کا یار رہا ہے۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کے نام پر بھارت نے افغانستان کو اپنا بنانے میں کبھی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ غیر پشتون افغان باشندوں کو بھارت میں قیام کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور ثقافتی روابط بھی رہے ہیں۔ ہاں! طالبان کو دوبارہ ابھرتا ہوا دیکھ کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس وقت کچھ متذبذب ہے۔ یہ تذبذب سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اگر طالبان دوبارہ پوری طرح پنپ گئے تو افغانستان میں بھارت کے مفادات پر ضربِ کاری کا امکان بھی پنپ جائے گا۔ نائن الیون کے بعد کے افغانستان میں بھارت نے بھی طالبان کو کچلنے کے نام پر مقامی گروہوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ اب جبکہ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مکمل فوجی انخلا حتمی مراحل میں ہے، ماہرین اور تجزیہ کار یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ طالبان مکمل طور پر ابھر کر اُن تمام مظالم کا انتقام لیں گے جو اُن پر کم و بیش بیس برس میں ڈھائے گئے ہیں۔ خیر! طالبان تو بعد میں کچھ سوچیں گے۔ اُن سے بہت پہلے پاکستان کے ''مہربان‘‘ بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔ بات وہی ہے، افغانستان میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے طالبان کے ابھرنے سے وہ سب مزید پریشان ہو اٹھے ہیں جو پاکستان کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سازشی ذہنیت کے مارے ان افراد کو اس بات کا غم ہے کہ ایک بار پھر طالبان سے مل کر پاکستان خطے میں سٹریٹیجک اعتبار سے اپنی پوزیشن ناقابلِ یقین حد تک مستحکم نہ کرلے۔
پاکستان کو پریشان کرنے والے جب سکون کا سانس نہیں لے رہے تو پاکستان سے محبت کرنے والوں پر بھی فرض ہے کہ بیدار و چوکس رہیں۔ سلامتی سے متعلق کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جسے نظر انداز کرنے کا خطرہ مول لیا جاسکے۔ حالات کی نزاکت کا پیغام یہ ہے کہ وطن سے ایسا پیار کیا جائے کہ دنیا دیکھے۔ اہلِ پاکستان پر لازم ہے کہ بیرونی خرابیوں کے پیشِ نظر خود کو زیادہ سے زیادہ منظم رکھیں۔ جب دشمن نچلے نہیں بیٹھ رہے تو ہمیں بھی آرام سے بیٹھ رہنے کا حق نہیں۔ وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مملکتِ خدادادکے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے وہ کیا جانا چاہیے۔ صورتِ حال کے تناظر میں دیکھیے تو کوئی اور ''وے آؤٹ‘‘ ہے ہی نہیں۔ آنگن میں بیری ہو تو پتھر آتے ہی ہیں۔ پتھروں سے تنگ آکر بیری کو تو اکھاڑا نہیں جاسکتا۔ ہاں! پتھر پھینکنے والوں سے کماحقہٗ نمٹ کر اپنے لیے سکون کا سامان کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔