وطن کسی بھی انسان کے لیے انتہائی بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر انسان اپنے وطن کے آغوش ہی میں حقیقی سکون محسوس کرتا ہے۔ وطن کیا ہوتا ہے‘ وطن کی گود میں سَر رکھ کر سونا کیا ہوتا ہے یہ اُن سے پوچھئے جنہیں پردیس میں بسے ہوئے زمانے سے گزر چکے ہیں اور کسی نہ کسی الجھن یا مصلحت کے ہاتھوں وطن واپسی کی راہ میں دیواریں کھڑی ہو رہی ہوں۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ وطن سے دور مالی اعتبار سے بہت خوش حال ہیں مگر پھر بھی وطن میں چند دن گزارنے کو ترستے رہتے ہیں۔ اُن سے پوچھئے کہ پردیس میں سب کچھ تو مل گیا، پھر دل کیوں بجھا ہوا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ باقی دنیا ایک طرف اور وطن ایک طرف! وطن ہر حال میں وطن ہے، اِس کا نعم البدل کوئی نہیں۔ دل تسکین پاتا ہے تو وطن پہنچ کر، جسم کو قرار آتا ہے تو وطن میں۔ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور دوسرے بہت سے ممالک میں کام کرنے والوں سے پوچھ کر دیکھئے، جواب ملے گا: چاہے کچھ بھی مل جائے‘ وطن کی مٹی میں دوبارہ قدم رکھنا ممکن نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔ یہ سوچ کسی بھی اعتبار سے مبالغے پر مبنی نہیں کیونکہ اوّل و آخر ہر انسان کے لیے وطن ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وطن کی مٹی ہی اُس کی حقیقی شناخت ہوتی ہے اور وطن ہی پوری دنیا میں اس کے لیے واحد پناہ گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔
یہ تو ہوا وطن کا معاملہ کہ وہ ہمارے لیے کیا ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ وطن کے لیے ہم کیا سوچتے ہیں، ہماری نظر میں وطن کی قدر و قیمت اور اہمیت کتنی ہے اور ہم اِس کے لیے کیا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ بات جب وطن کے لیے کچھ کرنے کی آتی ہے تو انسان بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے، وعدے بھی کرتا ہے اور دعوے بھی۔ وطن اور محبوبہ دونوں کے لیے چاند تارے توڑ لانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ٹھیک ہے، کہنے میں کیا ہے! کون سا عمل کرنا ہے؟ ایسا لگتا ہے وطن ہو یا محبوبہ‘ دونوں ہی کے مقدر میں انتظار لکھا ہے۔ اُن وعدوں پر عمل کا انتظار جو اُن سے نہایت پُرجوش انداز سے کیے جاتے ہیں۔ دونوں ہی کبھی کبھی زبانِ بے زبانی سے شکوہ کرتے پائے گئے ہیں ع
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا
وطن کیا چاہتا ہے؟ محبت، حقیقی محبت! ہمارے لیے پہلی اور آخری جائے پناہ کا درجہ رکھنے والا وطن اگر ہم سے قربانی مانگتا ہے تو کچھ غلط ہے نہ حیرت انگیز۔ کیا ہے جو وطن سے نہیں ملتا اور کون ہے جس نے وطن کی مہربانی سے نام نہیں کمایا، بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے درکار سامان نہیں پایا؟ ہم وطن سے محبت اور اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے بلند بانگ دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عمل کی کسوٹی پر خود کو پرکھنے نکلئے تو معاملات کچھ کے کچھ ہوتے ہیں۔ کیا وطن صرف مٹی اور کنکر کا نام ہے؟ کسی نے خوب کہا ہے ؎
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم، تری روح سے عبارت ہے
بات سولہ آنے درست ہے۔ وطن محض سرزمین کا نام نہیں! یہ تو ہمارے دلوں میں، نفسی ساخت اور فکری ڈھانچے میں بستا ہے۔ زمین کو سجانے، سنوارنے سے وطن کی محبت کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ وطن سے محبت کے دعویداروں کو اِس منزل سے بہت آگے جاکر بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں وطن سے محبت عام ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے دعوے زیادہ کیے جاتے ہیں اور کام بہت کم۔ وطن سے محبت ظاہر کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ کہنے کا نہیں‘ کرنے کا معاملہ ہے۔ ہم قومی گیت سنتے ہوئے اُن پر جھوم کر یہ سمجھتے ہیں کہ وطن سے محبت کا حق ادا ہوگیا۔ وطن سے محبت کا انتہائی بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اِس کی خاطر جو کچھ بھی کرنا لازم ہو‘ وہ کر گزریے۔ وطن کے لیے کیا کرنا لازم ہے؟ ہر وہ کام جس سے وطن کو پہنچنے والے نقصان کا دائرہ محدود کیا جاسکے اور ہر وہ کام جو وطن کو کسی نہ کسی صورت فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہو۔
آج پوری پاکستانی قوم کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہے اور دیکھنا ہے کہ وہ وطن سے محبت کا صرف دعویٰ کر رہی ہے یا اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ دل خراش بلکہ مایوس کن حقیقت یہ ہے کہ ہم وطن سے محبت کے صرف دعوے کرتے آئے ہیں۔ وطن کے گیت تیار کرنے میں ہمارا ثانی کوئی نہیں۔ یہ گیت سن کر خون جوش مارنے لگتا ہے‘ کچھ دیر کے لیے آسماں بھی زیرِ پا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم حُبّ وطن کی بانہوں میں ہیں اور سارا زمانہ ہمارے قدموں میں ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب بھی کوئی بڑی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تب ہم بہت حد تک ایک ہو جاتے ہیں۔ مصیبت کی گھڑی میں پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے والے تیزی سے سامنے آتے ہیں۔ کسی کی پریشانی دور کرنے کا جذبہ ہمارے ہاں غیر معمولی رفتار سے پنپتا ہے۔ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں لوگ کھانے پینے کی اشیا لے کر میدان میں آجاتے ہیں۔ لوگوں کو روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیا بھی تیزی سے فراہم کی جانے لگتی ہیں۔ یہ سب بہت خوب ہے۔ زلزلہ ہو یا سیلاب کی تباہ کاریاں، بے گھر ہونے والوں کی مدد کرنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ وقتی ہوتا ہے۔ جیسے ہی صورتِ حال نارمل ہوتی ہے ہم بھی نارمل ہو جاتے ہیں یعنی پرنالے پھر وہیں بہنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے کو لُوٹنے اور نوچنے کا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔ سب نے معیارِ زندگی بلند کرنے کا ایک اچھا اور آسان نسخہ دریافت کرلیا ہے‘ کہ ایک دوسرے کا زیادہ سے زیادہ استحصال کیجیے۔ کسی سے کہیے کہ بھئی یہ تو کوئی طریقہ نہ ہوا ڈھنگ سے جینے کا تو جواب ملتا ہے پھر آپ ہی کوئی طریقہ سجھائیے۔
معاملہ یہ ہے کہ جس طور سے ہم جی رہے ہیں اُس طور سے جینا نہ تو زندگی ہے نہ اِس سے ہمیں یا وطن کو کچھ فیض پہنچ سکتا ہے۔ ہزاروں سال کے عمل میں انسان نے تہذیبی ورثے کے طور پر جو چند اصول پائے ہیں اُن کی پاسداری کرکے ہی ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ تسلیم شدہ اخلاقی اقدار سے ہٹ کر جینے کی ہر کوشش صرف خرابی لاتی ہے۔ الہامی مذاہب میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی کے حق پر ڈاکا ڈالے بغیر جینا ہے، ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا جس سے معاشرے (سوسائٹی، ریاست اور وطن) کو کچھ نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
آج ہمیں پوری دیانت سے اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ کیا ہم ایسی طرزِ زندگی کے حامل ہیں جس سے ہماری اپنی زندگی کا معیار بھی بلند ہوتا ہو اور وطن کو بھی کچھ ملتا ہو۔ پوری دیانت سے تجزیہ کرنے پر اندازہ ہوگا کہ ہم ایسا کچھ بھی نہیں کر پارہے جس سے ہمیں یا وطن کو کچھ مل پائے۔ زندگی یوں گزر رہی ہے گویا خرابی سے دوچار گاڑی کو دھکا لگایا جارہا ہو۔ ہم وطن سے بہت کچھ چاہتے ہیں مگر اُسے کچھ دینے کو بمشکل تیار ہو پاتے ہیں۔ اگر کبھی نیکی کا جذبہ ابھرتا بھی ہے تو محض وقتی طور پر، اُتھلے پانیوں کی طرح۔ صادقؔ نسیم نے خوب کہا ہے ؎
یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ جسے غم شجر کا ہے
وطن سے تو بہت کچھ مطلوب ہے۔ وطن کو ہم کیا دینا چاہتے ہیں؟ ثمر کی تمنا رکھنے والوں کو شجر کی بھی کچھ فکر ہے یا نہیں۔ شجر رہے گا تو ثمر کا بھی امکان رہے گا۔ زمانہ پکار رہا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کریں اور اپنی ذات کے ساتھ ساتھ وطن کے تقاضوں کا بھی جائزہ لیں۔ وطن ہے تو ہم ہیں۔ وطن کی سلامتی اور خوش حالی کو ہماری ترجیحات میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔ وطن جس قدر پروان چڑھے گا ہم بھی اُسی قدر خوش حالی اور استحکام سے ہم کنار ہوں گے۔ وطن کے لیے بھی جینا سیکھئے تو کچھ بات بنے۔