آپ کا بہی خواہ کون ہے یعنی کون ہے جو آپ کا بھلا چاہتا ہے؟ ایسے تو بہت سے ہوں گے جو آپ کی خیر خواہی کے دعویدار ہوں گے۔ ہر انسان کا یہی معاملہ ہے۔ احباب میں سے بیشتر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تو آپ کا بھلا چاہتے ہیں۔ یہی حال اُن کا بھی ہوتا ہے جن سے آپ کا خون کا رشتہ ہو۔ تو کیا واقعی ایسا ہے کہ لوگ خیر خواہی کے جو دعوے کرتے ہیں اُن میں صداقت اور حقیقت ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب ملا جلا ہوسکتا ہے اور ملا جلا ہی ہوتا ہے۔ آپ کا حقیقی بہی خواہ اگر کوئی ہے تو صرف آپ ہیں۔ آپ سے بڑھ کون ہے جو آپ کو جانتا ہو اور آپ کے مفادات کی نگہبانی کا سوچتا ہے؟ ہر انسان اپنے مفادات کا حقیقی نگران و نگہبان ہوتا ہے۔ کوئی کتنے ہی دعوے کرے، حقیقت یہ ہے کہ اپنے لیے بہترین راہِ عمل کا انتخاب آپ خود ہی کرسکتے ہیں اور آپ ہی اپنے لیے اچھے اور بُرے میں حقیقی تمیز کا شعور پیدا کرسکتے ہیں۔
اگر کوئی آپ کا حقیقی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرے تو آپ کس طور اُس کی نیت کے اِخلاص کا اندازہ لگائیں گے؟ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوسکے گا کہ جو شخص آپ کا بھلا سوچنے کا دعویٰ کر رہا ہے وہ واقعی آپ کا خیر خواہ ہے اور اُس کی طرزِ فکر و عمل سے آپ کی زندگی کامرانی و شادمانی کی ڈگر ہی پر رہے گی؟ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس حوالے سے بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے ہیں وہ حقیقت پسندی کی کسوٹی پر پرکھے جانے کی صورت میں کچھ اور نکلتے ہیں۔ خیر خواہی کے دعووں کا ملمّع ایک ہی رگڑ سے اتر جاتا ہے۔ کسی کے لیے پورے خلوص کے ساتھ کچھ سوچنے اور خیر خواہی کا محض دعویٰ کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ستائش کسے اچھی نہیں لگتی؟ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے سراہا جائے۔ یہ ہر انسان کی بنیادی خواہش اور ضرورت ہے مگر کبھی کبھی یہ بنیادی خواہش ہی گلے کی ہڈی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جنہیں ستائش کی عادت پڑ جائے اُنہیں پھر کچھ اور اچھا نہیں لگتا۔ یہ روگ جی کا جنجال بن جاتا ہے۔ بات بے بات سراہے جانے پر انسان کا دماغ خراب ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔
انسان کا مزاج بھی عجیب واقع ہوا ہے۔ وہ جس خرابی کا مشاہدہ ایک زمانے تک کرتا رہا ہو اُسی کے ہاتھوں برباد ہونے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اگر ستائش جواز کے ساتھ ہو تو اچھی بات ہے کہ اِس سے انسان کے اعتماد کا گراف بلند ہوتا ہے مگر بلا جواز کی جانے والی ستائش تو انسان کو خوش فہمی یا غلط فہمی کے گڑھے میں گرادیتی ہے۔ کسی جواز کے بغیر کی جانے والی ستائش انسان کو حقیقت پسندی سے دور لے جاتی ہے۔ جب ماحول میں سراہنے والے زیادہ ہوں تو انسان کو اپنے وجود یا فکر و عمل میں کوئی خامی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اگر کسی معاملے میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا بھی ہے تو خوش فہمی یا غلط فہمی کے ہاتھوں اپنی کوتاہی کو دیکھنے اور اس سے کوئی سبق سیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ کسی بھی انسان کو حقیقت پسندی کی طرف لے جانے والی چیز صرف ایک ہے اور وہ ہے آئینہ۔ آئینہ جھوٹی ستائش نہیں کرتا۔ یہ انسان کو سہانے سپنے نہیں دکھاتا۔ آئینہ حقیقت کو پوری اصلیت اور طاقت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ کوئی آپ کے بارے میں خواہ کچھ کہے، جب آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تب آپ کی آنکھوں پر اپنا وجود عیاں ہو جاتا ہے۔ کوئی، کسی جواز کے بغیر، کیسی ہی خوش کن بات کہے، آئینہ آپ کو بہکنے سے روکتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ آپ کیسے ہیں، کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے وجود کا جائزہ لینے کا عمل حقیقت پسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ حقیقت پسندی آپ کو غیر ضروری طور پر بہکنے سے روکتی ہے۔ اگر آپ متوازن زندگی بسر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس ارادے پر کاربند رہنے کے لیے بھی تیار ہیں تو یاد رکھیے کہ آپ کو اپنے ماحول میں ایسے لوگ رکھنے ہیں جو آئینے کا سا کردار ادا کرتے ہوں۔ جی ہاں! آئینہ صفت لوگ ہی آپ کی فکری ساخت کو خوش فہمی یا غلط فہمی کی آلائش سے پاک رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آپ کے حقیقی خیر خواہ وہ ہیں جو آپ کی خامیوں اور خرابیوں پر آپ کو مطلع کرتے رہتے ہیں۔ بلا جواز طور پر کی جانے والی ستائش آپ کو حقیقت سے دور لے جاتی ہے۔ سارا بگاڑ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
عمومی سطح پر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ہماری خامیوں کے بارے میں کچھ نہ کہے، ہمیں کچھ نہ بتائے۔ اپنی خامی اور کمزوری کے بارے میں سُننا کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔ یہ مزاج اور فکری ساخت کی ایک بڑی خرابی ہے۔ اِسی کے نتیجے میں سوچ ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ کسی کو اُس کی خامیوں یا کمزوریوں کے بارے میں بتائیے تو بدکنے لگتا ہے۔ اصولی طور پر تو ہمیں ہر اُس انسان کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ہمیں ہماری خامیوں اور کمزوریوں کے بارے میں بھی بتائے اور یہ بھی بتائے کہ ہم اُن کے شدید منفی اثرات سے کیونکر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آئینہ صفت لوگ کم ہی لوگوں کو پسند آتے ہیں۔ جو لوگ کسی کے بارے میں سچائی کو پوری دیانت اور تفصیل سے بیان کریں اُن کی مقبولیت کا گراف عموماً زیادہ بلند نہیں ہوتا۔ ؎
تم تنہا رہ جاؤ گے / رائے اگر دو گے بے لاگ
معاملہ یہ ہے کہ اپنی خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بارے میں جاننے اور جو کچھ کہا جائے اُسے ہضم کرنے والے خال خال ہی ہوتے ہیں۔ اپنے بارے میں کسی بھی طرح کی منفی رائے سُن کر اُسے ہضم کرنا کسی بھی انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ بلا جواز طور پر دی جانے والی منفی رائے کے بارے میں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اُسے نظر انداز ہی کیا جانا چاہیے مگر جناب! حقیقت پسندی پر مبنی منفی رائے؟ اگر کسی نے کوئی غلط کام کیا ہے یا اُس کے خیالات میں کجی پائی جاتی ہے تو لازم ہے کہ توجہ دلائے جانے پر غور کرے اور اپنی اصلاح پر مائل ہو۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ حقیقت پر مبنی تنقید سُن کر بھی برہم ہو جاتے ہیں۔ یہ مزاج کی کجی کے سوا کچھ نہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو تعلیم و تربیت لازم ہے اُس میں حقیقت پسندی کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے۔ بہت چھوٹی عمر سے یہ بات سکھائی جانی چاہیے کہ اگر کوئی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرے تو بُرا ماننے کے بجائے سوچنا چاہیے کہ اُس نے یہ بات کیوں کہی۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ کو کسی جواز کے بغیر ناراض کرے؟ اگر کوئی آپ کی کسی خامی یا کمزوری کی نشاندہی کر رہا ہے تو پہلے مرحلے میں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہے۔ جو واقعی آپ کا خیر خواہ ہو وہی تو آپ کو آپ کے حقائق سے آگاہ کرے گا۔ چاپلوسی کی راہ پر چلنے والے آپ کو ناراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ تو آپ کو جھوٹے قصے سناکر خوش رکھنے کی کوشش ہی کرتے رہیں گے۔ ایسے لوگ آپ کی زندگی میں حقیقی مثبت پیش رفت کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ جھوٹ بول بول کر آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے والے آپ کے معاملات میں کسی بھی خوش گوار تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کرسکتے۔
آپ کے حقیقی خیر خواہ وہی ہیں جو آئینے کی طرح آپ کے سچ کو بیان کریں اور یہ بھی چاہیں کہ آپ اپنی خامیوں کو دور کریں۔ جھوٹی ستائش کے ذریعے آپ کو خوش رکھنے کی ڈگر پر چلنے والے آپ کو پیش رفت کے قابل نہیں بناسکتے۔ بیماری کو دور کرنے کے لیے تلخ دوا زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ بالکل اِسی طرح جو لوگ آپ کے بارے میں سچ بیان کریں وہ تلخ ضرور محسوس ہوتے ہیں مگر آپ کے وجود کی اَپ گریڈیشن میں کلیدی کردار بھی وہی ادا کرتے ہیں۔ آپ کے حلقۂ احباب میں حقیقت پسند افراد زیادہ ہونے چاہئیں تاکہ آپ کو خوش فہمیوں کے دائرے سے نکالنا ممکن بنایا جاتا رہے۔