ضد کی بھی کیا ہی بات ہے۔ جب یہ جلوہ دکھاتی ہے تو بہت کچھ الٹ‘ پلٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہ ضد ہی تو ہے جس نے ہنستے بستے گھروں ہی کو نہیں بلکہ ریاستوں اور معاشروں کو بھی تباہی سے دوچار کیا ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے بنیادی اور کلیدی فیصلے قائدین کرتے ہیں۔ اگر قائدین کسی بھی معاملے میں اپنی انا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو سمجھ لیجیے بنے ہوئے کاموں کو بھی بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ تاریخ ہمارے سامنے ایسی بہت سی مثالیں پیش کرتی ہے جو مزاج کی کجی کی عکاس ہیں۔ کسی بھی قوم کی اِس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اُس کے قائدین کسی بھی اہم معاملے میں اپنی ضد پر اڑ جائیں اور اَنا پرستی کے ہاتھوں ایسے فیصلے کر بیٹھیں جو کسی بھی اعتبار سے حالات کے مطابق ہوں نہ قومی مفادات ہی سے میل کھاتے ہوں؟ بہت سے معاشروں اور ریاستوں کو محض اس لیے تباہی کا سامنا کرنا پڑا کہ اُن کے قائدین کی ضد نے ہار ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ضد کا معاملہ یہ ہے کہ یہ فریقِ ثانی کا موقف سُننے سے روک دیتی ہے۔ معاملات انفرادی سطح کے ہوں یا اجتماعی سطح کے‘ دونوں ہی محاذوں پر ناروا اور نامعقول رویہ ایسا بہت کچھ کراتا ہے جو محض خرابیاں لاتا ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ یہ ضد اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا قطع تعلق ہی ہے جو ہمیں آگے بڑھنے، معاملات کو درست کرنے سے روکتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کی سطحوں پر ہٹ دھرمی ذہن بند کردیتی ہے۔ ذہن کے بند ہو جانے کی نمایاں ترین علامت ہے بات چیت کے در کا بند ہو جانا۔ ہمارے بیشتر معاملات اُس وقت خرابی سے دوچار ہونے لگتے ہیں جب ہم بات بات پر ٹھنکتے اور کسی کی بات سُننے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ بات چیت کا در بند ہو جانے سے کسی بھی معاملے میں توضیح کی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ آپ اپنے قریب ترین ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو پائیں گے جو ذرا سی بات پر منہ پھلاکر بات چیت بند کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور یہ عادت اُن کے معاملات کا دائرہ محدود تر کرتی چلی جاتی ہے۔ جب کبھی ہم اپنے معاملات میں الجھ کر بات چیت کی منزل سے دور ہو جاتے ہیں تب غیر متعلقہ افراد کا عمل دخل شروع ہوتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ؎
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا
ایمان کی تو یہ ہے کہ جب ہم کسی تک اپنا موقف تیسرے فریق کے ذریعے پہنچاتے ہیں تب بات کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ ''بات ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی‘‘ یونہی تو نہیں کہا گیا۔ جب ہم متعلقہ فرد سے کوئی بات کہنے کے بجائے کسی اور کو سُناتے ہیں تاکہ وہ آگے بڑھائے تب بات بگڑتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ بات تیسرے فریق کو سُنائی ہی کیوں جاتی ہے۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب فریقِ ثانی بات سُننے سے انکار کرتا ہے۔ ایسے میں آپ مجبور ہوتے ہیں کہ کسی اور کو وہ بات بتائیں جو فریقِ ثانی تک پہنچانی ہے۔ اب یہ تیسرے فریق کی دیانت اور مزاج پر منحصر ہے کہ وہ بات کو کس طور آگے بڑھاتا ہے۔ ایسے معاملات میں عام طور پر افراط و تفریط ہی کو کارفرما دیکھا گیا ہے۔
کہنا اور سُننا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ہمارے معاملات کا 90 فیصد بگاڑ صرف اس حقیقت کا ''ثمر‘‘ ہوتا ہے کہ ہم یا تو اپنی بات کسی کو سُنا نہیں پاتے یا پھر کسی کی بات سُننے سے انکار کردیتے ہیں۔ گفت و شنید انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جسم کی زبان سے بھی بہت کچھ بیان ہوتا ہے مگر سب کچھ تو بہرحال بیان نہیں ہو پاتا۔ ابلاغ کا حق تو زبان ہی ادا کرتی ہے۔ ہماری کوئی بھی بات فریقِ ثانی تک کیونکر پہنچے گی اس کا مدار اصلاً ہمارے مزاج، مہارت اور دیانت پر ہے۔ ابلاغ ایک باضابطہ فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ حُسنِ ابلاغ یہ ہے کہ کوئی تلخ یا ناپسندیدہ بات بھی اِس طور بیان ہو کہ فریقِ ثانی نہ صرف یہ کہ سُنے بلکہ قبول بھی کرے۔ ضروری نہیں کہ آپ کا موقف ہر بار درست تسلیم کیا جائے مگر آپ میں اِتنی خوبی ضرور ہونی چاہیے کہ لوگ سُنیں اور ہضم بھی کریں۔
''جا، جا، میں تو سے ناہی بولوں‘‘ وہ رویہ ہے جو انسان کو دریا سے نکال کر پہلے جوہڑ میں پھینکتا ہے اور پھر کنویں میں مقید کردیتا ہے۔ ابلاغ کا راستہ بند ہو جانے سے بہت سے معاملات تشنۂ توضیح رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ خرابی ہے جو زندگی کو شدید عدم توازن کی طرف لے جاتی ہے۔ بہت سوں کو اس بات کا ماتم کرتے دیکھا گیا ہے کہ اے کاش! کسی کی بات بروقت سُن لی ہوتی اور مان بھی لی ہوتی۔ شدید غصے کی حالت میں انسان عقل سے کام لینا چھوڑ دیتا ہے۔ شیطان کا کامیاب ترین حربہ یہ ہے کہ وہ انسان کو مغلوب الغضب کرکے فریقِ ثانی کی بات سُننے سے روک دیتا ہے۔ اگر کوئی شدید غصے کی حالت میں کسی کی بات سُننے سے انکار کرے اور تیسرے فریق کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو بھی قبول نہ کرے تو سمجھ لیجیے کہ شیطان اُس کی عقل پر حاوی ہوچکا ہے۔ ابلاغ کی راہ مسدود کرکے شیطان معاملات کی بساط لپیٹنے کی کامیاب ابتدا کرتا ہے۔
''میں تمہاری کوئی بات نہیں سُنوں گا‘‘ یا ''میں تمہاری شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا‘‘ جیسے جذبات اُسی وقت ابھرتے اور پنپتے ہیں جب شیطان اپنا کام ٹھوس طریقے سے شروع کرچکا ہوتا ہے۔ جب کبھی آپ شدید غصے کی حالت میں کسی کی بات سُننے یا شکل دیکھنے سے گریزاں ہوں اور تیسرے فریق کے ذریعے کیے جانے والے ابلاغ کو بھی قبول نہ کریں تو ایک لمحے کے لیے ٹھہریے اور سوچیے کہ ایسا کیوں ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ذرّہ بھر تامل کا مظاہرہ مت کیجیے کہ شیطان کا کامیاب ترین حربہ رابطے کے انتہائی بنیادی ذریعے یعنی بات چیت کی جڑ کاٹنا ہے۔ بات چیت بند ہونے سے معاملات خرابی کی طرف بہت تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ہمیں اس دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ کنویں کے مینڈک کی حیثیت سے زندگی بسر کریں۔ ہمیں زندگی کے دریا میں تیرنا ہے اور سمندر سے جا ملنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب باقی دنیا سے جڑ کر جئیں، اپنی کہیں اور دوسروں کی سُنیں۔ دوسروں کی ہر بات کو درست تسلیم کرنا لازم نہیں مگر کسی بھی متعلقہ بات، نکتے یا دلیل کو سُننا سُودمند ہے کیونکہ غلط فہمیاں ابلاغ ہی سے رفع ہوتی ہیں۔ کسی سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو جائے اور کسی معاملے میں توضیح لازم ٹھہرے تو اپنی بات کہنے سے گریز مت کیجیے اور فریقِ ثانی کی بات سُننے میں تامل سے کام مت لیجیے۔
فی زمانہ ابلاغ بھی بہت آسان ہوگیا ہے۔ ایک دور تھا کہ رنجش کی حالت میں کسی کی بات سُننے کے لیے خود کو آمادہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ اب خیر سے ایسی کوئی الجھن نہیں رہی۔ اب موبائل پر کچھ لکھ کر کسی کو بھیجا جاسکتا ہے اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر اپنی آواز میں پیغام ریکارڈ کرکے بھی ابلاغ کیا جاسکتا ہے۔ اگر معاملات بگڑے ہوئے ہوں اور تعلقات میں کشیدگی در آئی ہو تو کسی بھی بات کی توضیح کرنے سے ہچکچائیے مت اور آئے ہوئے پیغام کو پڑھنے یا سُننے میں دیر مت لگائیے۔ معاملات کو درست کرنے کی سمت یہ پہلا قدم ہے۔
بات چیت بند ہونے سے جو خرابی انفرادی معاملات میں رونما ہوتی ہے وہی اجتماعی معاملات میں بھی واقع ہوتی ہے۔ بین الریاستی تعلقات میں بھی اُسی وقت بہتری آتی ہے جب بات چیت کا سلسلہ بند نہیں ہوتا، توضیحات کا بازار گرم رہتا ہے۔ ریاستوں کے درمیان اعلیٰ ترین سطوں پر رابطے برقرار رہنے سے معاملات کو درست کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں ثالث کی ضرورت پڑے وہاں بگاڑ خاصی سُست روی سے ختم یا کم ہوتا ہے۔ بات اِدھر اُدھر سے اُڑتی ہوئی، پھرتی پھراتی آئے اِس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ سیدھے رستے سے آئے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ بات دِل سے نکلی ہوئی ہونی چاہیے۔ علامہ اقبالؔ نے یہ بڑی اور بنیادی حقیقت یوں بیان کی ہے ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے