سبھی کچھ الٹ‘ پلٹ چکا ہو تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہمارے ہاں یہی تو ہو رہا ہے۔ شدید دکھ محسوس کیا جاسکتا ہے مگر حیرت زدہ رہ جانے کا محل نہیں رہا۔ اب کسی سے کسی بھی طرح کی حماقت کے ارتکاب کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جن معاملات کے امکان کے بارے میں بھی نہیں سوچا جاتا‘ وہ سامنے آجاتے ہیں۔ جب کسی معاشرے میں تمام کلیدی معاملات کی نہج تبدیل ہوگئی ہو، اقدار کا تیا پانچا ہوگیا ہو، مزاج کچھ کے کچھ ہوگئے ہوں، سوچنے سے متعلق لیاقت و مہارت کو خیرباد کہہ دیا گیا ہو تب عموماً ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر ہمارے ہاں عجیب تماشے دکھائی دیتے ہیں۔ قربانی اوّل و آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سُنّت ہے۔ ایک برگزیدہ نبی کی سنت پر عمل کرنا ہمارے کے لیے اپنے خالق کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ قربانی کے ذریعے ہم رب کی رضا کے طالب ہوتے ہیں۔ ایک برگزیدہ نبی کی سُنّت پر عمل کرنے کے معاملے میں خلوص اور عقیدت کے ساتھ ساتھ سنجیدگی بھی شرط ہے۔ اسلام کی تعلیمات تمام اہم معاملات میں سنجیدگی کا دامن تھامے رہنے کی تلقین کرتی ہیں مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ایک مذہبی فریضہ بھی بناوٹ سے پاک نہیں رہا۔ دکھاوا اللہ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ کو قربانی کے جانور کا خون چاہیے نہ گوشت، یہ تقویٰ ہے جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کا سبب ہے۔یہ اخلاص ہر طرح اور ہر سطح کی ریا کاری سے پاک ہونا چاہیے۔
کراچی میں شدید جذبۂ حسد سے مغلوب ہوکر قربانی کے جانور کو نشانہ بنانے کا انتہائی افسوس ناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ لیاقت آباد میں ایک صاحب قربانی کا بڑا جانور لائے تو اُن سے حسد رکھنے والے ایک شخص نے اُس جانور کے جسم پر تیزاب پھینک دیا۔ سوشل میڈیا میں تیزاب پھینکنے کے واقعے سے متعلق وڈیو وائرل ہوئی تو بہت سے لوگوں نے مختلف زاویوں سے کمنٹس دیے۔ قربانی کے جانور پر تیزاب پھینکنے کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اِس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ بالکل درست! اس نیچ حرکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کسی کو تنگ نہ کرنے والے بے زبان جانوروں کو یوں تکلیف دینا صریحاً خداکو ناراض کرنے والی بات ہے۔
ہمارے ہاں ہر سال قربانی کے جانوروں کے حوالے سے بسا اوقات معیوب حرکتوں کا ارتکاب کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری یادداشت ایسی کمزور تو نہیں کہ کراچی میں چند برس پہلے تک رونما ہونے والے اُن واقعات کو بھول جائیں جن کا تعلق قربانی کے جانور کی کھالیں ہتھیانے سے تھا۔ جب ٹیکنالوجی کی مہربانی سے اصلی چمڑے سے ملتا جلتا ریگزین تیار نہیں کیا گیا تھا تب جانوروں کی کھالیں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ کیا یہ بات کسی بھی طور فراموش کی جاسکتی ہے کہ کراچی کے بعض علاقوں میں قربانی کے جانور کی کھال کے لیے پرچی عیدالاضحی سے کئی دن پہلے ہی قربانی کے جانور کے مالک کو بھیج دی جاتی تھی۔ اور ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ کسی نے کھال دینے سے انکار کیا تو قربانی کے جانور ہی کو گولی مار دی گئی!
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں بہت کچھ دم توڑ چکا ہے۔ رواداری باقی بچی نہ اعلیٰ ظرفی۔ سب کچھ تنگ نظری اور مفاد پرستی کے محور پر گھوم رہا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے نام پر کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ اپنی بوٹی ہاتھ سے نہیں جانی چاہیے، چاہے اِس کے لیے کسی کا بکرا ہی ذبح کیوں نہ کرنا پڑے۔
جانوروں کے لیے رحم کا جذبہ اگر کم کم پایا جارہا ہے تو دکھ ضرور محسوس ہونا چاہیے مگر حیرت کیسی؟ کیا یہاں انسانوں سے محبت کا معاملہ پایا جاتا ہے؟ کوئی کسی کا احساس کرتا ہے؟ کسی کو اس بات سے بظاہر کچھ غرض دکھائی دیتی ہے کہ اس کے کسی قول یا فعل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے؟ یہاں انسان کے ہاتھوں انسان پریشان اور خوفزدہ ہیں۔ جب انسان دوستی ہی نہیں بچی تو حیوان دوستی کہاں سے آئے؟ اُس زمانے کو گزرے ہوئے بھی کئی زمانے گزر چکے ہیں جب ہمارے ہاں انسانوں کو قابلِ احترام سمجھا جاتا تھا، کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کیا جاتا تھا اور کسی کے حق پر ڈاکا ڈالتے ہوئے ایک یا دو بار نہیں، دس بار سوچا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ ایک عرصے تک تو چلتا رہا مگر پھر ہم نے محسوس کیا کہ ہم تو بہت ''دقیانوسی‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ اس احساس کے ہوتے ہی ہم نے بہت سی اچھی اقدار کو خیرباد کہنا شروع کیا۔ یہ عمل جاری رہا اور پھر ہم ''آزاد‘‘ ہوگئے۔ کسی کے لیے باعثِ آزار ثابت ہونے سے گریز کی راہ پر گامزن رہنے سے ہم میں بہت سی ایسی ''قباحتیں‘‘ پیدا ہوگئی تھیں جو ہمیں ''جدید‘‘ ہونے اور بدلتے ہوئے وقت کا ساتھ دینے کے قابل بننے سے دور رکھتی تھیں۔ اب خیر سے ہم تہذیب و تمدن کے نام پر پائی جانے والی ایسی بہت سی ''قباحتوں‘‘ سے دامن کش ہوچکے ہیں اور ایک نئی زندگی کی طرف اس طور بڑھ چکے ہیں کہ ''پسپائی‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قربانی کے جانوروں پر تیزاب کا پھینکا جانا قبیح فعل سہی مگر اس دل خراش حقیقت پر بھی تو غور فرمائیے کہ یہ تو بہت بعد کا معاملہ ٹھہرا۔ ایک زمانے سے انسان ایک دوسرے پر تیزاب پھینکتے آئے ہیں۔ جانوروں کی باری تو اب آئی ہے! ہم بہت پہلے سے یہ گھناؤنا کھیل کھیلتے آئے ہیں۔ رشتے سے انکار کرنے والی لڑکیوں کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کے واقعات وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہے ہیں۔ انسانیت کی سطح سے گرنے کی کوئی بھی حد ہم نے کبھی مقرر نہیں کی یعنی جو چلے تو (کسی کی بھی) جاں سے گزر گئے!
ایک دور تھا کہ جب لوگ کسی قبیح حرکت کے مرتکب ہوتے تھے تو شرمندگی محسوس کرتے تھے اور اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معذرت سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اتنا تو تھا کہ لوگ کوئی غلط کام بھی کرتے تھے تو اُسے غلط ہی سمجھتے تھے۔ لوگ بھلے مذہبی تعلیمات پر کماحقہٗ عمل نہیں کر پاتے تھے مگر یہ احساس ضرور رکھتے تھے کہ کچھ غلط ہوا ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ دینی معاملات میں دنیا کو شامل کرنے سے واضح گریز ہماری اولین ضرورت ہے۔ اور کچھ ہو پائے یا نہ ہو پائے، اتنا تو ہمیں کرنا ہی ہے۔ نفرت کا سلسلہ انسانوں تک ہی رہے تو اچھا۔ اللہ نے جنہیں زبان نہیں دی اُن پر ظلم نہ ڈھایا جائے کہ وہ بے چارے فریاد کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں رحم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جانوروں کیلئے جذبۂ رحم رکھنے یا اُن سے حُسنِ سلوک کی تو جزا بھی زیادہ ہے۔ اتنا ظرف تو ہم میں ہونا ہی چاہیے کہ جن جانوروں کو اللہ کی خوشنودی کے لیے ذبح کرنے کی خاطر لائے ہوں اُن سے چند روزہ محبت کا حق ادا کریں، اُن کی خدمت کریں، اُن کا احترام کریں۔
صد شکر کہ تین چار برس سے قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے نام پر میلے کا سماں پیدا کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ کراچی کی بڑی مویشی منڈی میں سپیشل انکلوژرز میں ماڈلز کو بلاکر قربانی کے جانوروں کے ساتھ واک کا اہتمام بھی کیا جاتا رہا ہے۔ ایک مرحلے پر تو ایسا لگتا تھا کہ قربانی کا پورا معاملہ شوبز بن کر رہ جائے گا اور ریا کاری کا قلع قمع کرنا اب ممکن نہ ہوسکے گا۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ کے فضل سے لوگوں کو ہوش آیا کہ ایک سُنّتِ نبوی پر عمل کو تماشے کی چیز بنانے سے اللہ کا شدید عذاب ہمیں گھیر سکتا ہے۔ اب تین چار برس سے معاملات کسی حد تک قابو میں ہیں اور لوگ قربانی کے زمانے میں ماحول کو تماشا گاہ بنانے سے معقول حد تک گریز کر رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ گریز زور پکڑے۔